میڈیا میں اردو کا قتل


یوں تو میڈیا میں اردو زبان کی غلطیوں پر بڑا شور ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کے استحصال میں خود میڈیا ہی پیش پیش ہے۔ اور خدارا اس ”میڈیا“ کو صرف ”نیوز“ سے منسوب نہ کیجئے گا، بلکہ اس گناہ میں ڈرامہ، فلم، ایڈورٹائزنگ ہر شعبہ برابر کا شریک ہے۔ نیوز سے ایک عرصہ وابستہ رہنے کی وجہ سے اس شعبے میں ہونے والی غلطیوں کی تھوڑی سی وضاحت تو بنتی ہے۔ نیوز روم میں خبر بننے سے لے کر آن ائیر ہونے تک قدم قدم پر رائٹر، کاپی ایڈیٹر اور پروڈیوسرز کی شکل میں موجود چیک پوسٹیں، اس خبر کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو حتی الامکان دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اور آخری چیک پوسٹ ہے اینکر ( جس کے پاس ظاہر ہے چیک کرنے کا مارجن بہت کم ہوتا ہے، لگاتار خبریں اور لائیو ٹرانسمیشنز اینکر کو سر کھجانے کا بھی ٹائم نہیں دیتیں ) ایسے میں سامنے موجود پرامپٹر پر بھاگتی دوڑتی سطریں گڈ مڈ ہو جائیں تو زبان پھسل بھی سکتی ہے۔ اور زبان کی یہ پھسلن سوشل میڈیا معاف نہیں کرتا۔ لیکن حیرت ہے کہ کبھی کسی نے ڈراموں، اشتہاروں اور فلموں کے زبان و بیان کو کبھی نوٹ نہیں کیا؟ حالانکہ ان تمام شعبوں میں ”لائیو“ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اداکار ریہرسل کے بعد ایکٹنگ کرتے ہیں، وائس اوور آرٹسٹ بریف لینے کے بعد وی او کرتے ہیں، اور کمرشل کا سنگر ریکارڈنگ سے پہلے ڈائریکٹر، پروڈیوسر، پراڈکٹ کے مالک یا دوسرے ٹیم ممبرز کو jingle سناتا ہوگا ناں؟ پھر ان شعبوں میں بھی اردو کی اتنی بھیانک غلطیاں کیسے جاتی ہیں؟ رائٹر نے جو لکھا اور پڑھنے والے نے جو پڑھا ”، کیا اس کو سپروائز کرنے والا کوئی نہیں ہوتا؟ یا اس وقت جو بھی نئی کھیپ مارکیٹ میں آرہی ہے وہ انگلش میڈیم ہے جسے اردو سے نابلد ہونے کی چھوٹ دی گئی ہے؟ غضب خدا کا، پہلے ڈرامہ فلم دیکھتے ہوئے اس کی پروڈکشن، پکچرائزیشن، وڈیو کوالٹی انجوائے کرتی تھی، اب تو قدم قدم پر غلط اردو سن کر خون کے گھونٹ پینا پڑتے ہیں۔

کافی دنوں سے ایک اشتہار ٹی وی پر آن ائیر ہے ”اس میں گلوکار لہک لہک کر گارہا ہے تارہ ٹمٹمائے ٹم ٹم۔ اب بچپن سے سنا تھا تارہ Tim timata ہے۔ لیکن اشتہار میں تارا Tum Tum کررہا ہے۔ الجھن بڑھی تو آفس میں ایک سینئر سے پوچھ بھی لیا کہ تارا کیسے چمکتا ہے؟ انہوں نے بھی Tim Tim کی تصدیق کی۔ پھر ڈراموں پر غور شروع کیا تو وہاں حال اور بھی خراب۔ ایک ڈرامے میں ہیروئن نے چیخ کر ایک ڈائیلاگ بولا تو دل بے اختیار بولا، کاش یہ چیخ کر نہ بولتی، شاید غلطی چھپ جاتی ( اب اس کو آپ print نہ سمجھیے گا میں نے hide لکھا ہے ) ہیروئن صاحبہ نے ایک انتہائی سادہ لفظ انتہائی غلط تلفظ میں کہا تھا“، وہ بھی چیخ کر۔

اس وقت تو وہ حال ہے کہ اردو جیسی میٹھی اور خوبصورت زبان کی ترویج تو دور، خود اردو کی اصل شکل کو بھی ریڈی میڈ انگلش میڈیم جنریشن سے خطرہ ہے ( یہ بات سب کے لیے نہیں ہے، ہم نے کئی قابل شخصیات کو بیک وقت انگلش اور اردو دونوں زبانوں میں یکتا پایا ہے۔ )

نیوز کے شعبے کی وکالت کے ساتھ ہی ایک گلہ بھی ہے۔ خبروں میں آسان سے آسان زبان استعمال کرنے کی کوشش میں اردو کے کئی خوبصورت الفاظ اپنی قدر کھوتے جارہے ہیں۔ یہاں خبر میں ذرا اردو دانی دکھائی، وہاں سے ایک آواز آئی ”ارے بھئی یہ لفظ نکال دو اینکر نہیں پڑھ سکے گا۔ حالانکہ یہ بات خود اینکرز کی حوصلہ شکنی ہے۔ کیوں کہ ہمارے یہاں ایسے اینکرز کی کوئی کمی نہیں جو نہ صرف بہت اچھی اردو جانتے ہیں، بلکہ آن ائیر رہتے ہوئے لکھاری کی غلطی سنبھالتے ہوئے خبر پڑھ جاتے ہیں۔

یہ کوئی اٹھارہ سو ستاون کی بات نہیں ”کچھ دہائیوں پہلے کی بات ہے جب میڈیا پر پیش کیا جانے والا مواد خود درس گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ لوگ ان خبروں، ڈراموں اور پروگرامز سے بہت کچھ سیکھتے تھے۔ لیکن اب اردو زبان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، وہ ڈرامہ، اشتہارات، فلم، ریڈیو اور خبروں سے جڑے کرتا دھرتاؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).