باتیں زہرہ نگاہ سے


\"sajjadزہرہ نگاہ کا اصل نام فاطمہ زہرہ ہے، 14 مئی1937ء کو شعرو سخن کی بستی بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ زہرہ نگاہ کے آباؤاجداد تلاشِ معاش کے سلسلے میں حیدر آباد دکن میں آباد ہو گئے تھے۔ زہرہ نگاہ کی چھ بہنیں اور چار بھائی ہیں ۔ اور ان کے خاندان کا ہر فرد اپنی اےک الگ اور منفرد پہچان رکھتا ہے۔ زہرہ نگاہ جو خود ایک ممتاز شاعرہ ہیں ۔ تقسیم ہند کے بعد زہرہ نگاہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدر آباد دکن سے ہجرت کر کے کراچی آ گئیں اور یہیں اپنی تعلیم مکمل کی۔ زہرہ نگاہ کو شعرو سخن ورثے میں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کی ابتدا زمانہ طالب علمی سے ہی شروع کر دی تھی۔ ابتدائی دور میں پاکستان میں بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں وہ بھی برابر کی شریک ہوتی تھیں۔ ان مشاعروں میں جب زہرہ نگاہ اپنا کلام ترنّم سے سناتیں تو محفل میں سماں بندھ جاتا، اور” واہ واہ سبحان اللہ“ سے پنڈال گونج اُتھتا تھا۔ اور جب وہ اپنا کلام سنا چکتیں تو سامعین کا پر زور اصرار ” ایک اور ایک اور “ ہوتا تھا۔ کلام کے ساتھ ساتھ زہرہ نگاہ کی آواز میں بھی بڑا سوز و گداز پایا جاتا ہے۔ ”جدید اردو غزل“ میں زہرہ نگاہ کا اپنا مقام ہے ان کی شاعری میں انفرادیت ہے جس کی خصوصیات بے پناہ خلوص اور تاثر سادگی اور پرکاری اور سب سے بڑھ کر اس کا سیاسی رنگ ہے۔ جو اب پختہ تر ہو گیا ہے۔ گل و بلبل، وطن اور چمن، رہبر اور رہزن، قفس اور آشیانے کے پردے میں وہ بڑے بڑے سیاسی حقائق بیان کر جاتی ہیں اور سیاست پر بھر پور طنز کرتی ہیں ۔ جس کا اثر عرصہ تک زائل نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح وہ پاکستان کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں ۔ زہرہ نگاہ کے اب تک تین مجموعہ کلام ”شام کا پہلا تارہ “ ”ورق“ اور”فراق “ شائع ہو چکے ہیں ۔

 

س۔ زہرہ آپا آپ نے چودہ برس کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا اس زمانے میں ادب کے میدان میں خواتین کی آمد بہت کم ہوتی تھی۔ تو ذرا بتائیے کہ کیسا ادبی ماحول تھا اس زمانے میں؟

 

ج۔ اصل میں بات یہ ہے کہ یہ غلط ہے کہ عورتیں نہیں نکلتی تھیں کیونکہ بہت ساری خواتین ادب کے میدان میں تھیں۔ پھر ترقی پسند مصنفین \"zohra\"کی جماعت نئی نئی اُبھر رہی تھی اور اس میں بہت سار ی خواتین لکھ رہی تھیں۔ شروع میں رشید جہا ں اس کے بعد عصمت آپا، اس کے بعد بہت ساری خواتین شاعری میں البتہ کم تھیں لیکن ادا جعفری کا پہلا جو دیوان تھا۔ جو میرے خیال میں 1946ء میں یا 1947ء میں چھپا اور اس کا قاضی عبدالغفار نے دیباچہ لکھا تھا جو اپنے وقت کے بہت بڑے ادیب تھے۔ لیکن میں نے اگر کچھ کام کیا تو وہ یہ کیا ہے کہ میں نے شانہ بشانہ مرد شاعروں کے ساتھ جا کر مشاعرے میں شرکت کی۔ اس سے پہلے شائد کچھ خواتین نے کی ہو، لیکن پردے میں کی ہو تو میں نے جب مشاعرے میں جا کر پڑھنا شروع کیا اس وقت تک زیادہ خواتین کوئی آتی نہیں تھیں یا پردے میں بیٹھ کر سنتی تھیں یا آڈیئنس میں بیٹھی ہوتی تھیں پھر پاکستان بننے کے بعد بڑے اچھے اچھے مشاعرے ہوئے ہیں ۔ بہت عمدہ بہت اعلیٰ اگرچہ انتظامات وغیرہ بہت نارمل ہوتے تھے۔ صرف میں اسٹیج پر بیٹھنے سے ذرا گریز کرتی تھی پہلی لائن میں بیٹھ جاتی تھی اور ناظمِ مشاعرہ سے کہہ دیتی تھی کہ جب میرا نمبر آئے تو آپ مجھے ایک شاعر سے پہلے بلا لیجئے گا۔ اس زمانے میں ماحول ایساتھا کہ میری تو جو نوجوان شعراء تھے انہوں نے بھی، جو جوان تھے انہوں نے بھی اور جو بزرگ شعراء تھے سب نے بڑی پذیرائی کی اور سب نے بڑی عزت، محبت اوراحترام کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ تو مجھے توکوئی نہ کسی قسم کی شکائت ہوتی اور نہ کسی نے میرے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا بڑے عزت و احترام کے ساتھ مجھے سنا اورمجھے بے حد پذیرائی ملی۔ اور پھر اس کے بعد شروع شروع میں جب آدمی شعر کہتا ہے تو اپنے اوپر کم بھروسہ محسوس کرتا ہے۔ لیکن یہ ہے کہ پھرفوراَ ہی میرے مشاعرے میں جانے کے بعد اس وقت جو مقتدر رسالے تھے معتبر جیسا کہ ”سویرا “ تھا۔ الہٰ آباد سے ” نئی زندگی“ نکلتا تھا ”شاہراہ“ نکلتا تھا اور” فنون “ بعد میں آیا ” نقوش “ تھا ان سب میں میری غزلیں چھپی تھیں۔ اس سے مجھے بڑی ڈھارس ہوئی اور حوصلہ افزائی ہوئی کہ بھئی اچھا شعر ہے نا کچھ ہے اس میں جبھی تو یہ لوگ چھاپ رہے ہیں ورنہ بہت سارے میرے ساتھ کے شاعرجو تھے وہ مجھ سے شکائت کرتے تھے کہ بھئی تمھاری تو غزل چھپ گئی ہمیں تو اُنہوں نے کہا کہ ابھی اور لکھئے۔ تو اس طرح کی باتوں سے بڑی حوصلہ افزائی ہوتی تھی اور پھر گھر والوں نے بھی بہت ہمت بندھائی اور اس وجہ سے میں نے شاعری کو ترک نہیں کیا بلکہ اس کو جاری ہی رکھا۔

س۔ اور یہ سلسلہ ماشااللہ اب تک جاری ہے ؟

ج۔ کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی ہوں لیکن مشاعروں میں بہت کم شرکت کرتی ہوں لیکن یہ فیسٹیول جو ہے آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہ اب ایک\"zohra تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ لوگ بڑے جوش و خروش کے ساتھ شرکت کرتے ہیں ۔ کراچی کے فیسٹیول میں تو ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ لاہور میں بھی جو فیسٹیول ہوا۔ لٹریری فیسٹیول اس میں بہت سارے لوگوں نے شرکت کی۔ دیکھنے کے قابل مجمع تھا اور جیسے لوگ کہتے ہیں نا کہ ” تھالی پھینکو تو سروں پر جائے “ اس طرح سے لوگ جمع ہو رہے تھے تو ان حالات میں جب پاکستان وقتی طور ایک نہائت مشکل دور سے دو چار ہے ایسے ماحول میں ادبی جلسے یا ادبی میلوں کا انعقاد جو ہے وہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ لوگوں میں ابھی جینے کا شعروادب کو سننے کا اور اپنی تہذیب کو جاننے کا شوق ہے۔

 

س۔ آپ کے گھرانے کا ہر فرد اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے تو جب اس کہکشاں کے تحت سارے ستارے اکھٹے ہوتے ہیں تو گھر کا کیا ماحول ہوتا ہے؟

 

ج۔ بات یہ ہے کہ وقت وقت کہ بات ہوتی ہے کہ جس زمانے میں ہم پلے بڑھے۔ اس زمانے میں گھر میں عام طور سے ہم نے ایک ادبی ماحول دیکھا۔ جس کی وجہ سے ہم میں یہ ہمت پیدا ہوئی یہ ذوق پیدا ہوا اور جب سارے اکٹھے ہوتے ہیں تو پھر انور ہنساتے ہیں ۔ کبھی ہم لوگوں کا مذاق اُڑاتے ہیں اور کبھی پیروڈی بھی کردیتے ہیں میرے اشعار کی۔ اورآج کل تو وہ ڈراموں میں مصروف ہیں ان کے ڈرامے بڑے اچھے ہو رہے ہیں بلکہ مجھے بڑی خوشی ہو ئی جب نصیرالدین شاہ نے یہ کہا کہ پاکستان میں ڈرامے کو ایک اچھی صنف میں لانے کے لئے انور مقصود کا بڑا ہاتھ ہے اور بجیا ہیں انہوں نے اپنی پوری زندگی ٹیلی ویژن کے لئے وقف کر دی۔ اور جتنے اچھے سیریل انہوں نے دیئے اور جس طرح کے ڈائیلاگز انہوں نے لکھے۔ وہ ایک ایک ڈائیلاگ پر یقین مانیئے گھنٹوں محنت کرتی تھیں اس کے بعد وہ اس سے مطمئن ہوتی تھیں۔ پھر سارہ نقوی BBC پہلی براڈکاسٹر تھیں، جنہوں نے وہاں پر نیوز پڑھیں اور ان کا آج بھی نام بہت محنت اور عزت سے لیا جاتا ہے وہا ں پر اور یہ سب باتیں کچھ تو اس میں بزرگوں کی دعائیں اور دوسرا بزرگوں کی تربیت بھی شامل تھی۔

 

جیسے میں نے عرض کیا کہ یہ خاندانی ماحول کا اثر ہوتا ہے کہ انور تو تصویر میرا خیال ہے کہ 14 یا 15سال کی عمر سے بنا رہے ہیں ۔ ان\"zohra کی پہلی Exhibition فرنچ ایمبسی میں ہوئی تھی فرنچ ایمبیسیڈرنے اس کا افتتاح کیا تھا کراچی میں۔ اور اس وقت سے وہ تصویر بنا رہے ہیں اس کے بعدوہ ڈرامے کی طرف آئے اور انہوں نے کراچی ٹیلی ویژن کے بہت لکھا اور بجیا نے بھی ایسا ہی کیا۔ زبیدہ نے کھانا پکانا شروع کر دیا بلکہ میرا ان کا اکثرمذاق چلتا ہے جب وہ مجھے بتاتی ہیں کہ میری Cookery Book جو ہے اس کی رائلٹی اتنی آتی ہے۔ آپ کی کتابوں کی کتنی آتی ہے۔ میں نے کہا کہ میری کتابوں کی تو آج کوئی رائلٹی مجھے نہیں ملی تو انہوں نے کہا کہ دیکھئے میری کتاب کی تو بہت آ رہی ہے تو میں ان کو چھیڑتی ہوں کہ ”شہر میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا“ تویہ تو تم آلو بھگار کر اس قدر شہرت حاصل کر رہی ہو۔ ہم چالیس برس سے شاعری کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی اس کی رائلٹی وغیرہ نہیں ملی تو ہم لوگ ہنستے ہیں آپس میں باتیں کر تے رہتے ہیں ۔ انور کو بھی میں بہت چھیڑتی ہوں ابھی انور نے ایک جگہ ”جنگل کا قانون“ میری نظم ہے وہ سنائی۔ تو لوگ سمجھے کہ یہ انور کی نظم ہے تو کسی نے اس کو Facebook پر ان کے نام سے شائع کر دی۔ تو انور نے کہاکہ تمہاری نظم میرے نام سے شائع ہو گئی ہے۔ تو میں نے کہا کوئی بات نہیں تردید کر دو۔ انہوں نے کہا میں نے سوچا فیملی کا معاملہ ہے تو کون تردید کرتا پھرے۔ اس طرح کا چلتا رہتا ہے سلسلہ۔ لیکن بات یہ ہے کہ Partition کے بعد لوگوں نے تکالیف بہت اُٹھائیں اور اس میں ہمارا خاندان بھی شامل رہا لیکن ان تکالیف میں ہمارے بزرگوں نے ہمیں یہ اُمید دلائی تھی کہ آج تکلیف اُٹھا لو، کل آرام ہی آرام ہو گا۔ افسوس اس کا ہے کہ یہ بات اب ہم اپنے بچو ں کے لئے کہتے ہوئے ذرا جھجکتے ہیں ۔ لیکن یہ ہے کہ امید تو ابھی بھی باقی ہے۔ دیکھئے آج جب میں نے یہ سیشن کر لیا شاعری کے بارے میں۔ تو ایک سولہ سترہ سال کے لڑکے نے مجھے میری تیس پینتیس سال پرانی غزل مجھے یاد دلادی کہ آپ مجھے وہ سنا دیجئے کہ تو مجھے حیرت تو ہوئی کہ جو غزل مجھے نہیں یاد وہ اسے کیسے یاد ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بھئی یہ تمہیں کیسے یاد ہے۔ تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے گھر میں سنی ہے۔ یقینا ان کے والد نے یا ان کے کسی عزیز نے اس کو سنائی ہوگی۔ لیکن یہ اس کی خوبی تھی کہ اسے یہ یاد رہی ورنہ آج کل تو صحیح شعر پڑھنا ہی مشکل ہے۔ لوگ گرا دیتے ہیں وزن میں اور انہیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ تو لکھنا پڑھنا یا شعروادب خاص طور سے ایک ہی بات ہے تو یہ زندگی کو سنوارنے اور تہذیب کو اُجاگر کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ سائنس کی ترقیاں اپنی جگہ ہوتی ہیں لیکن تہذیبی شعور تو لکھنے پڑھنے سے بیدار ہوتا ہے اور ادب کا بہت بڑا حصہ اس میں شامل ہے۔

 

س۔ آپ نے دیارِ غیر میں خاصا وقت گذارا لیکن آپ کی شاعری کا انداز آپ کو دیگر خواتین شاعرات سے ممتاز بناتا ہے اورآپ کی شاعری \"andمیں غمِ دوراں یا غمِ جاناں کی بجائے اہم عالمی حالات و واقعات کا اثر نمایاں نظر آتا ہے مثال کے طور پر برِصغیر کی تقسیم کے واقعات، افغان وار وغیرہ تو اس حوالے سے کیا فرمائیں گی؟

 

ج۔ میں پاکستان سے تقریباَ 15 یا 20 سال باہر رہی ہوں۔ شادی کے بعد چلی گئی تھی باہر۔ ایک تو اپنے میاں کی نوکری کے سلسلے میں وہیں رہی تو پھر وہاں جا کرCultural Starvationجسے کہتے ہیں ۔ ایک اپنی ثقافت کی، اپنی تہذیب کی زیادہ آدمی کو کمی محسوس ہوتی ہے کہ کوئی اپنی باتیں کرنے والا ہو۔ اپنے شعر سنائے کسی کے شعرسنے کسی اچھے لکھنے والے کو پڑھے تو یہ چیزیں تو رہیں ہیں لیکن میں یہ بتا رہی تھی آپ کو کہ تقسیم کا جو دکھ تھا وہ بہت گہرا تھا اس میں کئی جانیں بھی ضائع ہوئیں، خاندان کے جو سرپرست تھے اللہ کو پیارے ہو ئے۔ لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ میری ماں کا بڑا حصہ رہا ہے ہم سب کی تعلیم و تربیت میں۔ انہوں نے ہم سے یہ بات کہی کہ نا امید کبھی نہ ہونااور یہ مت سوچنا کہ آج اگر برا ہے تو کل بھی برا ہو گا، یہ سوچو کہ کل اس سے بہتر ہو گا۔ پرسوں اس سے بھی بہتر ہوگا۔ تو ان کا یہ جو سبق تھا یہ ہمیں بہت سہارا دیتا۔ اور ایک سروے رپورٹ کے مطابق تقسیم کے بعد وہ خاندان زیادہ اچھے رہے جن کی مائیں زیادہ دیر تک زندہ رہیں ۔ کیونکہ ماں سے جو ایک رشتہ ہوتا ہے اس میں محبت کے علاوہ ایک بڑی گہری وابستگی ہوتی ہے۔ باپ تو معاشی سلسلے میں اپنی نوکریوں کے سلسلے میں اس میں اتنا وقت اس زمانے میں بچوں کو نہیں دیتے تھے لیکن ہم نے تو جو کچھ سیکھا وہ اپنے گھر کی بزرگ خواتین سے سیکھا۔

س۔ آپ کی شاعری میں ہمیں اِستعارہ اور تشبیہات کا استعمال بڑا نظر آتا ہے ؟

ج۔ استعارہ وتشبیہات تو ہمارے ہاں شاعری کے زیور ہیں اگر ہم انہیں چھوڑ دیں گے تو ہمارے لئے شاعری کرنا بہت مشکل ہو جاتاہے۔ لیکن میں کوشش یہ کرتی ہوں کہ میں مشکل الفاظ کا استعمال نہ کروں سادہ زبان میں شاعری کروں۔ بہت سی نظمیں میری آپ اگر پڑھیں گے تو اس میں کوئی مشکل لفظ نہیں ۔ لیکن جہاں تک غزل کا سوال ہے اس میں استعارہ اور تشبیہہ کے بغیر کام نہیں چلتا ہے۔ غزل وہ صنف ہے کہ اگر اچھی لکھنا چاہیں تو انگلیاں فگار ہوتی ہیں ۔ بری غزل لکھنا چاہیں تو آپ دن میں دس لکھ لیجئے۔

 

س۔ آپ ماشااللہ ایک طویل عرصے سے شاعری کر رہی ہیں لیکن صرف تین مجموعہ کلام، جبکہ یہاں تو حالات یہ ہیں کہ لوگ ہر چھے ماہ بعد ایک نیا مجموعہ کلام منظر عام پر لے آتے ہیں ؟

ج میں نے خود لکھا بھی بہت کم ہے۔ جب دل چاہا، جب بہت د ل چاہا تبھی لکھا ورنہ اگر آپ کو الفاظ کو ترنّم کے ساتھ Rhythm میں پرونا آتا ہے تو پھر شعر لکھنا آپ کے لئے اتنا مشکل نہیں رہتاہے۔ لیکن سوال یہ ہے ک جب تک اندر سے کیفیت نہ ہو کسی بات سے آپ حد سے زیادہ متاثر نہ ہوں اپنے ماحول کا اثر آپ کے اوپر نہ ہو کوئی واقعہ کوئی حادثہ آپ کودیر تک پریشان نہ کرے اس وقت تک اچھا شعرنہیں کہہ سکتے۔ دیکھئے غالب نے اچھی شاعری کو تین الفاظ میں بیان کیا ہے عبارت، اشارت اور ادا۔ اگر تینوں باتوں کا لحاظ رکھا جائے تو پھر شاعری اپنی صورت نکھارتی ہے۔ اور سنورتی ہے اور سجتی ہے اور اگر ہم یہ کہیں کہ ذود گوئی ویسے بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ دیکھئے بڑے اچھے اچھے شاعر جو ہمارے پرانے ہیں جیسے میر ہیں ، سودا ہیں ، آتش ہیں ، ناسخ ہیں ، ان سب کی کلیات اگر آپ دیکھیں تو ان کو ہاتھ میں اُٹھانا مشکل ہے اس میں سے شعر نکالنا پڑتے ہیں ۔ کیونکہ ان لوگوں کا یہ تھا کہ پورا وقت ان کی اوڑھنا بچھونا شاعری ہی تھی ان کی ذریعہ آمدنی بھی شاعری ہی تھا نوکری بھی شاعری کے توسط سے ہی ملتی تھی اس لئے ان کو بہت سارے شعر کہنا پڑتے تھے۔ ایک زمین میں کوئی دس غزلیں کہہ رہا ہے کوئی بیس غزلیں کہہ رہا ہے، کوئی پندرہ کہہ رہا ہے لیکن اس میں بڑے بڑ ے آبدار موتی چھپے ہوئے ہیں ہم انہیں جب چھانتے ہیں دیکھتے ہیں اس سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور بہت کچھ اس میں سے چھان کرنکالا بھی ہے۔ جنہیں میں اکثراپنے اشعار یا تقریر میں Quote کرتی رہتی ہوں۔

س۔ فراق گورکھ پوری، جگر مراد آبادی، اور فیض احمد فیض یہ تینوں ااپنے عہد کے بڑے نام تھے اور آپ کی ان تینوں ادبی شخصیات کے ساتھ بڑی نشستیں رہیں ، اس حوالے سے اپنی یادوں کے دریچوں سے کچھ تو ہمارے ساتھ شیئر کیجئے؟

ج۔ دیکھئے وہ تینوں بڑے شاعر تھے۔ بڑا شاعر ہونا بڑی مشکل بات ہوتی ہے برس ہا برس اس میں لگ جاتے ہیں ۔ اور اس میں خوش نصیبی بھی شامل ہوتی ہے۔ اور پھر قبولیت کا جو مرحلہ ہے وہ بڑی دیر میں جا کر پورا ہوتا ہے جیسے فراق صاحب جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے ہی اچھے تنقید نگار بھی تھے۔ اچھا فیض صاحب کا بھی یہی تھا کہ فیض صاحب کی کتاب ©” میزان“ اگر آپ پڑھیں تو اُن کی شاعری کی تہہ در تہہ سمجھ آتی ہے کہ وہ کتنے بڑے تنقید نگار تھے۔ فیض صاحب انے عربی اورانگریزی میں ایم۔ اے کیا تھا۔ فارسی ان کے گھر میںبولی جاتی تھی۔ ان تین زبانوں پر تو ان کو کافی عبور تھا۔ فراق صاحب کا یہ تھا کہ علاوہ ان تین زبانوں کے وہ سنسکرت سے بھی واقف تھے۔ تو جب آپ اتنی زبانوں سے واقف ہوتے ہیں تو آپ کی شاعری میں ان تمام زبانوں کا رس آجاتا ہے۔ اچھا، جگر صاحب کا یہ تھا کہ انہیں  پرانے زمانے کے مطابق عربی، فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری پر عبور حاصل تھا اور اپنے استاد اصغرگونڈوی صاحب کا ان کے اوپر بڑا اثر تھا تصوف کے جو ان کی شاعری میں آپ کو نشانات ملتے ہیں وہ ا صغر صاحب کے ہیں ۔ اور ہرزمانے میں ہر شاعر اپنے زمانے کے بڑے شاعر کے جادو سے نہیں نکل سکتااس کو بڑی مشکل سے توڑ کر اپنے آپ کو نکالنا پڑتا ہے۔ آپ دیکھئے کہ خود فیض صاحب کہتے تھے کہ ہم سب کے اوپراقبال اور اختر شیرانی کا بڑا اثر تھا۔ اور ہم نے بڑے دنوں تک ان کی طرح شاعری کرنے کی کوشش کی۔ تو یہ چیزیں ہوتی ہیں زمانے کے ساتھ ساتھ۔ لیکن پھر بڑی شاعری ا ن تمام یعنی سلگتے ہوئے راستوں سے جس میں کانٹے بھی ہیں اور پتھر بھی ہیں ۔ وہاںسے گزر کر پڑھنے والے کے سامنے باغ کھلا دیتی ہے۔

س۔ زہرہ آپا آپ کی نظر میں پاکستانی اور ہندوستانی منظر نامے پر رہتی ہے، آ پ کی نظر میں معیاری شاعری پاکستان میں ہو رہی ہے یا ہندوستان میں ؟

ج۔ دیکھئے ویسے تو ہندوستان میں موسیقی کے میدان میں بڑی ترقی ہوئی ہے رقص میں بھی وہ بہت اچھے ہیں ، آرٹسٹ بھی ان کے بہت اچھے ہیں لیکن میں آپ کو ایک بات بتلا دوں اس میں کوئی خدانخواستہ تعصب کی بات نہیں ہے۔ میرے تو بہت سارے ابھی بھی عزیز دوست ہندوستان میں ہیں اور میں تقریباَ کوشش یہ کرتی ہوں کہ ہر سال وہاں کا ایک پھیرا لگا لوں کبھی کسی سلسلے میں اور کبھی کسی سلسلے میں۔ لیکن میرے خیال میں وہاں چو نکہ پرائمری کی سطح پر اردو نہیں ہے یونیورسٹی کی سطح پر ہے ان کے ہاں۔ چیئرز بھی ہیں ۔ پروفیسرز بھی ہیں ۔ ڈگریاں بھی مل رہی ہیں لیکن چونکہ پرائمری کی سطح پر زبان ختم ہو گئی ہے اس لئے لوگوں میں شوق ہے لیکن ذوق کم ہوتا جا رہا ہے۔ مشاعرے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں لیکن ایسے شاعر کو بھی سنتے ہیں واہ واہ بھی کرلیتے ہیں اور اس کو بار بار بھی سنتے ہیں جس کی شاعری، شاعری کے معیار پر اتنی اونچی نہیں ہوتی۔ پھر بات یہ ہے کہ ترنّم جو ہے وہ بھی بدل گیاہے۔ دیکھئے نا ترنّم کے لئے ہمارے ایک پروفیسر رالف رسل تھے۔ انہوں نے بڑی اچھی بات کی تھے تو وہ خالص انگریز لیکن اردو پڑھاتے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ترنّم جو ہے بڑی مشکل چیز ہے۔ It\’s not music, It\’s not even singing.It\’s a way of present your poetry in a style کہ آپ کو اس کے Shades جو ہیں جس کو ہم محاکات کہتے ہیں وہ کھلتے چلے جاتے ہیں Experssions کے ساتھ۔ یہ نہیں ہے کہ آپ شعر کو گا رہے ہو جس میں استھائی انترہ وغیرہ شروع کر دیا جائے تو Music بھی نہیں Singing بھی نہیں ۔ دیکھئے میں آپ کو ایک مثال دوں کہ ایک جو چھپے ہوئے معنی ہیں وہ بعض اوقات اچھے ترنّم سے واضح ہو تے ہیں اور برے ترنّم سے دب جاتے ہیں ۔ شاعری کو گانا نہیں چاہیئے۔ اسی طرح سے جیسے بڑے بڑے گویئے جب مرثیے پڑھتے ہیں تو وہ راگ کو جان کر بگاڑ دیتے ہیں ۔ کسی نے فیاض خان صاحب سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے یہ کہا تھاکہ کہیں راگ مرثیے پر حاوی نہ ہو جائیں۔ تو یہ چیز ہوتی ہے ترنّم کو شاعری پر حاوی نہیں ہونا چاہیئے۔ ترنّم اتنا ہی ہونا چاہیئے کہ جس سے الفاظ کے معنی کھلیں۔

 

س۔ ابھی آپ نے موسیقی کا ذکر کیا تو یہ فرمائے کہ فلمی شاعری کو آپ کس درجے پر پرکھتی ہیں ؟

ج۔ میں تو ہر فلمی شاعری کو ایک درجہ دیتی ہوں جیسے مجروح صاحب نے گیت لکھے۔ شکیل بدایونی نے گیت لکھے۔ انہوں نے تو اتنے\"zohra خوبصورت گیت لکھے ہیں اچھا ساحر نے اتنے اچھے گیت لکھے ہیں کہ جو ہر طرح سے ادبی معیار پر پورا اُترتے ہیں ۔ اب زمانہ بدلتا جا رہا ہے قدریں بدل رہی ہیں ۔ لوگوں کے مذاق بدل جاتے ہیں ۔ ابھی ہندوستانی فلم کا آپ حال دیکھ لیجئے کہ سو میں سے نوے فلمیں اتنی خراب ہوتی ہیں کہ آپ ان کودیکھنا نہیں چاہتے۔ دس فلمیں ان کی معیاری ہوتی ہیں ۔ تو اس زمانے میں جس زمانے کی میں بات کر رہی ہوں اس زمانے میں وہاں ساحر تھے، اخترالایمان تھے، مجروح تھے، تو یہ لوگ بڑے قد آور لوگ تھے۔ کیفی اعظمی تھے۔ آپ دیکھئے، کیفی بھائی کا وہ جو گیت ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ”جائیں گے کہاں سوجھتا ہی نہیں ، چل پڑے مگر راستہ نہیں “ یہ شاعری ہے یا پھر ”وقت نے کیا کیاحسیں ستم، ہم رہے نہ ہم تم رہے نہ تم“۔ اب یہ باقاعدہ ایک شاعری ہے۔ اسی طرح مجھے جاویداختر کے گیت بہت پسند ہیں ۔ کیونکہ ان کے یہاں الفاظ کا ایک بڑا سرمایہ ہے ان کی رگوں میں، ہڈیوں میں بھی شاعری ہے۔ مجاز ان کے ماموں جاں نثار ان کے والد۔ مظفر خیر آبادی ان کے دادا۔ اب ان کا جیسے معمولی سے گیت ہے کہ ”کچھ نہ کہو کچھ بھی نہ کہو، کیا کہنا ہے کیا سننا ہے۔ سمے کا یہ پل تھم سا گیا ہے، اور اس پل میں کچھ بھی نہیں ہے، بس ایک میں ہوں اور ایک تم ہو“۔ تو یہ poetry ہے۔ پھر گلزار، گلزار تو مجھے بے حد پسند ہیں اس وجہ سے کہ گلزار کی زبان اردو نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی محنت اورکوشش سے اپنے ذہن سے جلا دے کر اردو زبان سیکھی ہے۔ انکی کہانیوں اور ان کی شاعری میں Imageryتو اتنی طاقتور ہے۔ دیکھئے میں بتاتی ہوں مثلاََ بارش کو انہوں نے ململ کی پھوارکہا ہے۔ ململ جیسی پھوار ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں پھر چاند کی اٹھنّی تو ان کی نظمیں بہت خوبصورت ہیں ۔ تو میں تو ان کی بڑی قدر دان ہوں اور وہ میرے بڑے اچھے دوست ہیں ان سے جب بھی بات ہوتی ہے بڑی اچھی طرح بات ہوتی ہے۔ بلکہ پچھلے دنوں میں ان کا ایک شعر کسی کو سنا رہی تھی تو کسی نے کہا کہ یہ تو لکھنو اسکول معلوم ہوتا ہے۔ میں نے کہا نہیں یہ جہلم اور دینہ اسکول ہیں ۔ یہ لکھنو اسکول نہیں ہے۔ ان کا شعر یہ تھا کہ ”ہم تو کتنوں کو مہ جبیں کہتے ہیں ، آپ ہیں اس لئے نہیں کہتے“

 

س۔ آپ کے بھائی احمد مقصود حمیدی مرحوم سول سروس سے وابستہ رہے، ادبی میدان کا بھی رخ کیا لیکن انہیں آپ کے دیگر اہلِ خانہ کی طرح وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے؟

ج۔ احمد ہمارے خاندان کے سب سے پڑھے لکھے آدمی تھے۔ کیا انگریزی ادب، کیا اردو ادب اور کیا فارسی ادب۔ وہ اپنی جگہ ایک انجمن تھے۔ لیکن انہیں اپنے معمولاتِ زندگی اور دفتری الجھنوں اور اپنے کاموں سے اتنا وقت نہیں ملا پھر ان کا Temprament جو تھا وہ صرف ہم لوگوں کے لئے یہ تھا کہ وہ Appreciate بہت کرتے تھے۔ فون آیا تم نے کچھ لکھا۔ یا کسی نے کچھ بنایا کوئی تصویر نئی بنی انور سے پوچھتے تھے۔ ایک طرح سے ہمیں انہوں نے Encourageبہت کیا لیکن وہ خود سامنے نہیں آئے جبکہ ان میں بے پناہ صلاحیت تھی۔ لکھنے کی بھی اور گفتگو کی بھی۔ جو ان کے قریبی دوست ہیں جو ان کے قریبی احباب ہیں وہ آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ ان سے سیکھا وہ کسی سے نہیں سیکھا۔

س۔ آپ اپنے آپ کو کس طرح بیان کرتی ہیں ؟Fiminism Writer یا Feminist Writer؟

ج۔ دیکھئے Feminism جب شروع ہواتھا اس کی شکل کچھ اور تھی۔ شکلیں بدلتی جاتی ہیں تحریک کی تو اب اس کے اوپر بڑی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ بہت کچھ ہو چکا جب ان لوگون نے مجھ سے بہت کہا کہ آپ اس پر کچھ لکھیں تو میں نے ان کو ایک شعر لکھ کر دیا تھا کہ”یہ کیا طریقہ سفر ہے کہ ہم رہیں پیچھے، جب ایک راہ پاپر چلنا ہے ساتھ ساتھ چلو“۔ یہ ہے Feminism باقی ظلم و ستم اگر عورت پر زیادہ ہوئے ہیں تو عورت کی طرف سے مرد پر بھی کم نہیں ہوئے ہیں ۔ تو ایک ہی چیز کو اس طرح سے دیکھنا ا س میں کوئی شک نہیں کہ عورت نے بڑی مصیبتیں اُٹھائی ہیں اور آج بھی اُٹھا رہی ہے۔ لیکن یہ تومعاشرے کے اپنے حالات اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ آپ کسی کے لئے کیا درجات متعین کرتے ہیں ۔ اور آدمی میں خود کتنی سکت ہے کہ وہ اپنا درجہ کس طرح متعین کرتا ہے۔

س۔ بات تحریک کی ہو رہی ہے تو9/11 کے واقعہ نے عالمی ادب پر بڑے اثرات مرتب کئے اس حوالے سے آپ کے کیا تاثرات ہیں ؟

ج۔ اس حوالے سے تو ڈرون پر میری ایک نظم ہے اور9/11 پر تو ایک بادشاہ کی پوری کہانی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ لکھنے والے کے اوپر ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ان باتوں سے متاثر نہ ہو۔ ہر وقت کا دیکھئے ایک طریقہ اظہار ہوتا ہے اب جیسے غالب کے خطوط ہیں یا غالب کے بعض اشعار ہیں کہ جو پوری مکمل تاریخ ہیں ۔ فراق صاحب نے ایک بات لکھی ہے کہ اردو غزل جو ہے اس کو آپ اس نظر سے بھی پڑھیئے اس انداز سے بھی دیکھئے کہ غزل کے اشعار جو ہیں وہ بھی ایک تاریخ مرتّب کرتے ہیں اس زمانے کی۔ تو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اردگرد کا جو ماحول ہے جو اثرات ہیں وہ ذہن پر مرتّب نہ ہوں۔

س۔ آپ نے بڑی بھرپورادبی زندگی گذاری ہے اس حوالے سے اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے کا کیا کوئی ارادہ ہے؟

ج۔ میں نے لکھی ہیں ۔ مگر اس کا ایک فیصلہ میں نے یہ کیا ہے کہ میں اس کو چھپواو ¿ں گی نہیں وہ صرف میں نے اپنے بچوں کے لئے لکھ دی ہیں اور ان پر یہ لکھ دیا ہے کہ بھئی اس کو پڑھ لینا اگرتمہیں فرصت ہو اور اس کے بعد اس کو جلا دینا۔ اس لئے کہ آج کل یاد داشتیں فیشن کی طرح لکھی جا رہی ہیں اور ہر اس آدمی کے لئے جو چاہتے ہیں وہ بات لکھ دیتے ہیں جو نہ اس کی تائید کر سکتا ہے نہ تردید۔ اس سے بہتر نہیں کہ آدمی اپنا قلم ذرا روک کر لکھے۔ اور وہ ذاتی بہت ہے اس کو چھپوانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ تو وہ میں نے اپنے بچوں کے لئے لکھی ہیں ۔

   شریکِ گفتگو:۔ سجاد پرویز۔ نیوز ایڈیٹر۔ ریڈیو پاکستان بہالپور

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments