عبادت گذار مشرق، فحش مغرب سے کیا سیکھے؟


کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں نمازیوں کے قتل عام کی خبر آنے کے بعد سوال ہوا ”کیا اب دہشت گردی کو عیسائیت سے ویسے ہی جوڑا جائے گا جیسے اسلام سے جوڑا جاتا ہے؟ “ اس سوال کا جواب دیا جائے گا لیکن اس سے پہلے ذرا نیوزی لینڈ کا ایک پھیرا مار آئیے۔

مساجد میں قتل عام جمعہ کو ہوا تھا، ہفتہ بھر بعد اگلے جمعہ کو ہزاروں لوگ مارے گئے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے متاثرہ النور مسجد کے بغل میں واقع ہیگلے پارک میں اکٹھا ہو گئے۔ خود وزیراعظم سیاہ پوش ہوکر نماز جمعہ میں پہنچیں۔ جس شہر کی آبادی ہی چار لاکھ سے کم ہے وہاں کے ہزاروں شہری کام دھندہ چھوڑ کر آ گئے۔ کسی کے ہاتھوں میں اظہار یکجہتی کی تختیاں تھیں تو کوئی مارے گئے لوگوں کی تصاویر پر پھول چڑھا رہا تھا۔ ٹی وی اور ریڈیو پر جمعہ کی نماز کی اذان براہ راست نشر کی گئی۔ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی علامت کے طور پر وزیراعظم سمیت بہت سی خواتین اپنے سروں پر اسکارف اور اوڑھنیاں ڈالے ہوئے تھیں۔ اذان ختم ہوئی تو سوگوار چہروں نے دو منٹ خاموش رہ کر متاثرین کو خراج عقیدت پیش کیا۔

وزیراعظم خطاب کرنے کھڑی ہوئیں اور بنا لاگ لپیٹ بولیں ”نیوزی لینڈ آپ کے ساتھ سوگوار ہے، ہم سب ایک ہیں“۔ کہنے لگیں ”جب جسم کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا بدن درد محسوس کرتا ہے۔ “ امام جمعہ نے خطبہ میں کہا کہ ”آج اسی جگہ میں محبت اور صلہ رحمی دیکھ رہا ہوں۔ “ امام نے کہا ”ہمارے دل شکستہ ضرور ہیں لیکن ہم ٹوٹے نہیں ہیں۔ ہم زندہ ہیں، ہم ایک ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ کوئی ہمیں نہیں بانٹ سکتا۔ “۔

یہ سارے مناظر جس وقت براہ راست نشر ہو رہے تھے اس وقت یہاں دہلی میں صبح کے 6 بجے تھے۔ میں نے الجزیرہ کے یوٹیوب چینل کے ذریعہ یہ ماجرا دیکھا۔ میری نظر ویڈیو باکس کے ساتھ ساتھ برابر میں موجود لائیو چیٹ بار پر بھی بار بار جا رہی تھی جہاں تواتر سے لوگوں کی رائے فلیش ہو رہی تھی۔ اس میں بہت سے حضرات بار بار سوال کر رہے تھے ”کیا مسلم دنیا میں عیسائیوں کے لئے ایسا ہمدردانہ رویہ دیکھنے کو مل سکتا ہے؟ “۔ لیجیے اب بات اس سوال سے جڑ گئی جہاں سے ہم نے بات شروع کی تھی اور وہ یہ کہ ”کیا اب دہشت گردی کو عیسائیت سے ویسے ہی جوڑا جائے گا جیسے اسلام سے جوڑا جاتا ہے؟ “۔

میں امید کرتا ہوں کہ ان سطور کو پڑھنے والوں نے ہم سب پر حال ہی میں شائع فرنود عالم کا مضمون ’دنیا دہشت گردی کو مسلمان یا اسلام سے آخر جوڑتی کیوں ہے؟ ‘ پڑھ رکھا ہوگا۔ اس میں موجود حوالوں کو انٹرنیٹ پر سرچ کرکے تفصیل سے پڑھئے۔ فرنود عالم نے طوالت سے بچنے کے لئے صرف واقعات کے نام لئے ہیں میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ ان کو تفصیل سے پڑھیں گے تو کئی طبق روشن ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اس وقت دنیا کے زیادہ تر مسلمانوں کی آنکھوں کا تارہ بنی ہوئی ہیں۔

ہم ان کے گرویدہ ہو گئے ہیں کہ انہوں نے دوسرے مذہب کے شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعہ کے بعد اگر مگر نہیں کی اور ایک زندہ ضمیر فرد کی طرح اس کی مذمت کی، وہ کالا لباس پہن کر مرنے والوں کے لواحقین کو پرسہ دینے پہنچیں اور مسلمانوں سے اپنائیت کا ہر ممکن ڈھنگ سے اظہار کیا۔ اب ذرا وہ منظر ملاحظہ ہو جس کی طرف فرنود عالم نے اشارہ کیا تھا یعنی احمدیوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد نواز شریف کا بیان کہ احمدی ہمارے بھائی ہیں۔

میاں صاحب کے اس بیان پر بزرگ کتنے نالاں ہوئے اس کی جھلک نوائے وقت کی ویب سائٹ پر آج بھی موجود 6 جون 2010 کی اس رپورٹ میں دیکھئے جس کے مطابق ”مذہبی رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی جانب سے قادیانیوں کو بھائی، بہن قرار دینے کے بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ قادیانی کافر ہیں انہیں بھائی قرار دینا گہری سازش کا نتیجہ ہے، نواز شریف کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور مسلمانوں سے معافی کے ساتھ اللہ سے توبہ کرنا چاہیے۔ “ رپورٹ میں سرکردہ علمائی کے بیانات درج ہیں جن میں انہوں نے نواز شریف کے بارے میں مندرجہ ذیل خیالات ظاہر فرمائے ہیں :

یکم:نواز شریف نے یہ بیان دے کر اُمت کے جذبات مجروح کیے ہیں انہیں اپنا بیان واپس لینا ہوگا اور مسلمانوں سے معافی اور اللہ کے حضور توبہ کرنی ہوگی۔

دوم:قادیانیوں کے حق میں بیان کسی گہری سازش کا نتیجہ ہے۔

سوم:نواز شریف امریکہ کو خوش کرنے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کو خوش کریں۔

چہارم:قادیانیوں کے بارے میں نواز شریف کا اس قدر نرم گوشے کا اظہار مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے مترادف ہے۔

پنجم:اقتدار کے لئے بے قرار میاں نواز شریف نے قادیانیوں کو بھائی کہہ کر کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے۔

اب ذرا یہیں ٹھہر جائیے اور دو میں سے ایک بات مان لیجیے۔ یا تو کہئے کہ یہ بیانات غلط تھے اور انسانی بنیادوں پر ظاہر کی گئی ہمدردی جرم نہیں ہے۔ یا پھر یہ مان لیجیے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم غیر مذہب کے لوگوں کے لئے جس طرح دل کھول کر اظہار ہمدردی کر رہی ہیں وہ غلط ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نواز شریف دوسرے مکتب فکر کے ساتھ یکجہتی کے لئے اپنائیت کے دو بول کہہ دیں تو ہمارے دلوں پر تیر بن کر لگے اور جب ہمارے ساتھ اسی جذبے کا شدت سے عملی اظہار کوئی اور کرے تو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے؟ اس عمل کو شاید منافقت کہا جاتا ہے۔

نواز شریف کے احمدیوں سے متعلق مذکورہ بیان کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے۔ کبھی فرصت ہو تو اسے چلاکر سنیئے۔ اس میں میاں صاحب بات یہیں سے شروع کرتے ہیں ”یہ جو قادیانی ہیں۔ “ پھر تصحیح کرکے کہتے ہیں ”یہ جو احمدی ہیں۔ “۔ میاں صاحب کے اس عمل سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ ان کی بھی زبان پر قادیانی لفظ ہی چڑھا ہوا تھا جو کہ احمدی برادری کے ساتھ اظہار حقارت کے لئے ہم اکثر استعمال کرتے ہیں۔ احمدی برادری کو مسلمان نہ ماننے کے حق کو میں چیلنج نہیں کرتا۔

یوں بھی وہ مسالک جو احمدیوں کو کافر ماننے پر متحد ہیں وہی آپس میں ایک دوسرے کو کون سا مسلمان مان رہے ہیں؟ لیکن کسی کے احمدی ہونے سے اس کے ساتھ انسانی بنیادوں پر ہمدردی کا حق ختم ہوجاتا ہے، مجھے اس اصول سے سخت اختلاف ہے۔ اگر یہی رسم بن جائے تو کرائسٹ چرچ کے مقتول نمازیوں کے گھر والوں کو پرسا دینے کون آئے گا؟

کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کے بعد وہاں جو کچھ ہوا اس نے ہمیں خوداحتسابی کا عمدہ موقع دیا ہے۔ مغرب جس کے بارے میں ہم میں سے زیادہ تر کا ایمان ہے کہ وہاں اخلاقی قدریں ناپید ہو چکی ہیں اور ہر طرف خرابی ہی خرابی ہے، اسی مغرب نے اپنی اخلاقی قدروں کی جو مثال پیش کی ہے وہ ہم سب کے لئے تحریک کا باعث بننی چاہیے۔ اگر ہم واقعی یقین رکھتے ہیں کہ فیصلے کو ایک دن معین ہے تو ہمارا کیا بگڑتا ہے جو ہم اپنی دانست گمراہ لوگوں کا مقدمہ اسی روز کے لئے اٹھا رکھیں اور اخلاقی قدروں کا ایسا ہی عمدہ اظہار کریں۔

کسی کو اچھائی کی دعوت دینے میں مضائقہ نہیں لیکن دعوت قبول نہ کرنے والے کے انسانی وجود کا ہی منکر ہو جانا انصاف نہیں ہے۔ اس مرحلہ پر یہ وضاحت کر دوں کہ مسلم معاشروں میں بھی انسانی ہمدردی کے بہت سے نظارے دیکھے جاتے ہیں لیکن اس وقت ہمارا روئے سخن ان حلقوں کی طرف ہے جہاں ابھی ایسی قدروں کا اظہار نہیں ہو سکا ہے۔

اب ذرا اس سوال پر چلے آئیے جہاں سے ہم چلے تھے۔ کرائسٹ چرچ کے واقعہ کے بعد دہشت گردی کو عیسائیت سے بالکل جوڑا جا سکتا ہے لیکن اس کے مندرجہ ذیل شرائط ہوں گے :

پہلا: اگر حملہ آور اپنے عمل کی تاویل کسی مذہبی متن سے کرنے کی کوشش کرتا۔

دوسرا:اگر مذہبی تاویل کے ساتھ دہشت گردی کی ایسی وارداتیں تواتر سے رونما ہوتیں۔

تیسرا:اگر مذہبی حلقہ کا ایک حصہ اس واردات کی حمایت کرتا یا کم از کم حملہ آور کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا اور اسے لفظوں سے ظاہر بھی کردیتا۔

اب چونکہ مندرجہ بالا تینوں ہی چیزیں نہیں ہوئیں اس لئے عیسائیت کو دہشت گردی سے جوڑنا اتنا ہی غلط ہے جتنا کسی واردات کے بہانے اسلام کی شبیہ کو مسخ کرنے کی کوشش قابل مذمت ہے۔ کرائسٹ چرچ میں جو کچھ ہوا یا نائن الیون کے دوران جو کچھ پیش آیا اس کا تعلق انسان کی انفرادی گمراہی، اس کے ذہن میں پلنے والی نفرت اور کج فہمی سے ہے۔ مہذب معاشروں میں انسان کے بھیس میں بھیڑیے بھی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی انسانوں کو پھاڑ بھی کھاتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ جب بھی انسان نما بھیڑیے انسانوں کو پھاڑ کھانے کی کوشش کریں تو سارے انسان، انسانیت کے رشتے کو نبھاتے ہوئے اس حیوانیت کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہو جائیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter