سب اپنے ہیں۔۔۔


\"hasam مٹھی، ان دنوں ارباب غلام رحیم کی وجہ سے مشہور تھا۔ سنہ دو ہزار تین تھا اور ہم چار لوگ تھے۔ کسی غیر نصابی سلسلے میں ہمیں تقریبا بیس ہزار روپے اور سات دن ملے تھے۔ ہم رحیم یار خان سے پرے پرے اور گڈانی سے ادھر ادھر، کہیں بھی جا سکتے تھے۔ بس واپسی پہ چند تصاویر اور پاور پوائنٹ کی خوبصورت سلائڈز سے اس آزادی کا حساب دینا تھا۔

کچھ لوگوں نے ساحلی پٹی کا انتخاب کیا تو کچھ نے حیدرآباد کو چنا ، ایک گروہ بدین کو نکلا تو ایک نے جیکب آباد کا رخ کیا۔ میں نے ہاکڑہ کا بہت نام سنا تھا اور چچ نامہ بھی تازہ تازہ پڑھ رکھا تھا سو نقشے پہ ایک لکیر کھینچی اور ہم سب، اس دریا کے پرانے راستے کی کھوج پہ نکل پڑے ، جس کا اب شاید نام بھی نہیں کسی کو یاد نہیں۔

گجو سے ماکلی اور شاہجہانی مسجد سے کینجھر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ وہ تعارفی خط، جو بریگیڈ ہیڈکوارٹر نے دیا تھا، وہ شاید ملیر تک ہی کار آمد تھا۔ سٹیل مل کے بعد سب کی اپنی اپنی دوڑ تھی۔ ہمارے ساتھ آنے والے کپتان صاحب کے بڑے بھائی پولیس میں تھے اور ان کے دوست ٹھٹھہ کے ڈی پی او۔ سو انہوں نے کمال خوش اسلوبی سے ہمیں سندھ پولیس کا مہمان قرار دیا اور یہ مہمان نوازی ہمارے بہت کام آئی۔

ہو سکتا ہے تعارفی چٹھی سے عمر کوٹ میں کوئی پانی بھی نہ پوچھتا، مگر ڈی پی او صاحب کے ریڈر کا فون، نہ صرف قلعے کے اندر بنے سرکٹ ہاﺅس کو کھلوانے پہ قادر تھا بلکہ اندر موجود واٹسن کی خوابگا ہ میں لگے ، ڈیڑھ ٹن کے اے سی کو بھی ساری رات لائن حاضر کر سکتا تھا۔

\"afzaal

سفر شروع ہوا تو پتہ چلا کہ دھانو ڈھانڈھل، بھالواہ، نگر پارکر، کاسبو۔۔۔ صرف نام نہیں تھے بلکہ ریت کی خوبصورت روایات تھیں۔ دھانو ڈھانڈھل کی مسجد میں ہر روز ، کوئی من چلا گھنٹوں پیدل چل کر پانی کا سلسلہ کرتا تھا۔ بھالواہ میں ماروی کا وہ کنواں تھا جہاں سے عمر سومرو نے اسے اٹھایا تھا۔ نگر پارکر کے پہاڑ، صحرا کی ریت میں خدا معلوم کس دلیل پہ کھڑے تھے اور کاسبو، پاکستان کا آخری نخلستان تھا، جو صحرا کے عین بیچ، ایک ایسا باغ تھا جس میں صرف ہریالی تھی۔ سارے میں مور، پی ہو پی ہو کر رہے تھے اور لوگ ان سے بے نیاز زندگی کا بوجھ ڈھو رہے تھے۔

پولیس کی جیپ چھوٹی تو پرچی جا ویری کی طرف چلنے والے کیکڑے ملے، جو دیکھنے میں تو حشرات نظر آتے تھے مگر تھر کے صحرا میں اونٹوں کے بعد ، یہی سفر کا ذریعہ تھا۔ ایک راستے پہ بھگت نینو رام کی درگاہ تھی جس میں مسلمان اور ہندو دونوں صرف ضرورت کی شریعت نافذ کر رہے تھے ۔ نینو رام کی تصویر کے آگے وہی چھوٹی بتیاں اور پلاسٹک کے پھول لگے تھے جو گجرات ، نکیال، ایبٹ آباد اور کوئٹہ میں مزارات پہ نظر آتے تھے۔ لنگر کا اہتمام کرنے والوں نے وہی سبز پلاسٹک کی جالی دار ٹوپیاں پہن رکھی تھیں ، جو ڈیرہ بابا نانک کے سیواکاریوں نے پہنی تھیں اور جنہیں پہن کر خود میں نے ، کئی ختم بھگتائے تھے۔

اب یہ سارا سفر، ایک البم میں قید ہے اور البم، کسی کارٹن کا نسبتا بے معنی حصہ ہے ، کیونکہ اسی کارٹن میں سیاچن کے خطوط بھی ہیں اور\"1267078\" ہزارہ قبرستان کی پتھریلی مٹی بھی ہے۔ ایک ہارڈ ڈسک ہے جس میں روم کی تصویریں ہیں اور نیو میکسیکو کی ویڈیو ہے۔ یہ سب سامان، لائل پور کی ایک ویونگ فیکٹری کی چھت پہ پڑا ہے۔ مگر اب کچھ ادھورا سا ہے کہ گھر کے جس کمرے میں یہ البم رکھے تھے، وہیں، ساتھ ہی، کونے میں کچھ مجسمے بھی دھرے تھے۔

مجسمے کیا تھے، زندگی کے کچھ عکس تھے جنہیں سرور مشتاق نے ذہن سے نکال کر پلاسٹر آف پیرس میں قید کر دیا تھا۔ کوئی ٹیکساس کے کسی قبائلی کسان کی شبیہہ تھی تو کوئی ایک جاٹ کا فکر انگیز مگر پر جلال چہرہ، کوئی پنجاب کی زمین سے جڑی بڑھیا تھی تو کوئی کپل واستو کا رخصت مانگتا راج کمار۔۔۔یہ سب یار لوگ بھی اسی سامان کے ساتھ ہوتے مگر جب کارٹن رکھنے کی باری آئی تو فیکٹری کے منشی نے میاں صاحب کو اپنے تئیں سمجھا دیا، ٬میاں صاحب۔۔۔ اوہ حسن صاحب کہہ رہے سی، کہ کوئی مورتیاں وی آن گیاں۔۔۔ تے ایتھے لوکاں نے نماز پڑھنی ہوندی ہے۔۔۔۔ میاں صاحب لہجہ بھی جانتے تھے اور ویونگ میں نقص امن سے بھی ڈرتے تھے، سو مٹی کی ان کسان مورتیوں کو وہ شہر نصیب نہیں ہوا جو زراعت کے نام پہ آباد ہوا تھا۔

بات سندھ کے سفر کی ہو رہی تھی ۔۔۔ عمر کوٹ کے قلعے میں ہمارے میزبان نے قلعے میں موجود چھوٹا سا عجائب گھر کھلوایا۔ عجائب گھر سے زیادہ دل چسپ، مگر جتوئی صاحب تھے جو اس کے نگران تھے۔ اکبر کی تاریخ بتاتے بتاتے انہوں نے بھٹائی کی سات عورتوں کی کہانی سنائی۔ مومل رانو، نوری جام طماچی، سسی پنوں، سوہنی میہار، سورٹھ رائے ڈیاچ، لیلا چنیسر اور عمر ماروی۔۔ بھٹائی کی وہ سات خواتین ہیں جنہیں سورمیں کہا جاتا ہے۔

مٹھی، اس سارے میں ایک الگ تھلگ شہر تھا۔ رات کو ہم میں سے ایک منگنی والے کا پنجاب میں انتظار جاری تھا اور موبائل کے سگنل ناپید\"2222\" تھے۔ کچھ تو منگنی والے صاحب سینئر تھے اور کچھ ہمارے شعبے میں لوگ کہیں اکیلے نہیں جاتے سو مجھے بھی پی سی او کی جستجو میں شریک ہونے کا حکم ملا۔ رات کے تقریبا گیار ہ بج چکے تھے اور بس کے اڈے سمیت سارا مٹھی سو چکا تھا۔ مگر کافی تلاش کے بعد ایک میڈیکل سٹور مل گیا جس کے باہر گتے کا ایک بورڈ، اس کے پی سی او ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔

سٹور دیکھنے میں بالکل ویسا تھا جیسے شہر کے بیچ میں، پرائیویٹ کلینک کے ساتھ کھلے، میڈیکل سٹور ہوا کرتے ہیں۔ ایک طرف کسی ویکیسن کا اشتہار تھا۔ ایک طرف ایک فارما سوٹیکل کمپنی کا کیلنڈر اور چھت کے نیچے ایک پوسٹر لگا تھا جس میں سبز چادر اوڑھے ایک باریش بابا جی مسکرا رہے تھے اور کونے میں چار قل لکھے تھے۔ کاﺅنٹر پہ دو بھائی موجود تھے، اور شاید محبت کی اس واردات سے آگاہ تھے۔ ۔سو نمبر ملانے کے بعد سٹاپ واچ، کپتان صاحب کے ہاتھ میں دے کر خود باہر آ گئے۔

”آپ کا نام“۔۔ میں نے وقت کٹی کی خاطر پوچھا۔

”انیل“۔۔۔ پہلے نے یہ کہہ کر دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔

”مہیش“ ۔۔۔دوسرے نے جواب دیا۔

حیران ہونے کی باری اب میری تھی۔

 ”یہاں اس شہر میں کام کیسا چلتا ہے“۔؟

”الحمد للہ۔۔ اللہ کا شکر ہے ۔۔اچھا گزارا ہو جاتا ہے“۔

”اگر آپ کا کام بڑھ جائے تو حیدر آباد شفٹ ہو جائیں گے“ ۔

”خدا نے یہاں اتنا رزق دے رکھا ہے تو حیدر آباد جانے کی کیا ضرورت ہے۔۔وہاں کوئی اور خدا ہے کیا۔۔۔“

”کبھی کسی نے تنگ نہیں کیا“

”تنگ ۔۔۔؟ ۔۔کیسے تنگ“

”یہی مذہب کی وجہ سے۔۔؟“

”ارے نہیں بھائی۔۔۔سب اپنے ہیں۔۔٬“

اتنے میں کال ختم ہو گئی اور ہم واپس آ گئے۔

اب جب بھی کوئی رنکل کماری ، مذہب تبدیل کرے، ہندو یاتری، ہندوستان جا کر واپس نہ آئیں، گھوٹکی میں دنگے چھڑ جائیں یا چاچا گوکل داس کو پولیس والا احترام رمضان میں مار مار کر لہو لہان کر دے۔۔۔میں صرف اتنی دعا مانگتا ہوں کہ اے خدا، باقی سب ٹھیک ہے بس انیل اور مہیش کو اس بات کا بالکل پتہ نہ چلے۔ وہ کیا سوچیں گے کہ یہ کیسے اپنے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments