کسی دن چلیں گے کراچی
کراچی
سمندر میں آنکھیں بہا کر
اُسے دیکھنے کی تمنا کریں گے
جو بچپن میں گھر سے چلا تھا
کہ شپ یارڈ دیکھوں گا
بحری جہازوں میں دنیا کے چکر لگاؤں گا
پیسے بناؤں گا
لیکن فلیٹوں، پلازوں کی دنیا میں
بجری اٹھاتے اٹھاتے
کسی ریت کے ڈھیر میں کھو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کسی دن چلیں گے
سمندر کنارے
اسے پھینکنے کے لیے
شہر کے زیرِ تعمیر سارے مکانوں کا کچرا
مِرے دل میں بھرتا چلا جا رہا ہے!
Latest posts by نصیر احمد ناصر (see all)
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).