بہاولپور میں ’اسلام دشمن‘ پروفیسر کا قتل اور نیوزی لینڈ پارلیمنٹ میں تلاوت قرآن


نیوزی لینڈ میں گزشتہ جمعہ کے سانحہ کے بعد حکومت نے متعدد ایسے اقدام کئے ہیں جن سے معاشرے میں باہمی احترام کو فروغ دینے کا اہتمام کیا جائے گا۔ کرائسٹ چرچ حملہ میں ایک سفید فام دہشت گرد نے پچاس مسلمانوں کو شہید کردیا تھا۔ فوری طور پر نیم خود کار ہتھیاروں پر پابندی لگانے کا قانون منظور کرنے کے علاوہ گزشتہ روز سانحہ کے بعد ملک کی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس منعقد ہؤا تو نیوزی لینڈ میں مقیم مختلف مذاہب کے نمائیندوں کو اس موقع پر مدعو کیا گیا تھا۔ ملک میں مقیم مولانا نظام الحق تھانوی کو خاص طور سے اس سیشن کے آغاز پر تلاوت قرآن پاک کے لئے بلایا گیا تھا۔

وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈن نے اس سانحہ کا ایک ہفتہ مکمل ہونے پر جاں بحق ہونے والوں کے احترام اور مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے ملک بھر میں نماز جمعہ کے وقت دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کے علاوہ، یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ اس موقع پر قومی ٹیلی ویژن سے اذان نشر کی جائے گی۔ اس اقدام کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ملک میں آباد ہر عقیدہ اور رنگ و نسل کے لوگوں کا احترام نیوزی لینڈ کی بنیادی اقدار کا حصہ ہے۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران واضح کیا تھا کہ اس حملہ میں ملوث نسل پرست شخص نے شہرت اور توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ گھناؤنا اقدام کیا تھا لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی۔ ملک کا قانون اپنی پوری قوت کے ساتھ اس شخص کو کیفر کردار تک پہنچائے گا۔

دنیا بھر میں نیوزی لینڈ کی نوعمر مگر بہادر وزیر اعظم کی سیاسی جرات کی توصیف ہورہی ہے۔ جیسنڈا ایرڈن نے مساجد پر حملوں کے فوری بعد براہ راست اس دہشت گردی کے بارے میں قوم کو مطلع کیا اور اس کے بعد سے وہ مسلسل عوام اور ملک میں آباد اقلیتوں کو یہ یقین دلانے کے لئے متحرک رہی ہیں کہ ان کی حکومت ملک کے سب لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔ ان کی باتوں اور عملی اقدامات نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متاثر کیا ہے ۔ پاکستان میں بھی نیوزی لینڈ حکومت کے اقدام کو خوش آمدید کہا گیا ہے اور عام مباحث اور گفتگو میں اس کی مثالیں دی جارہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے آج فون پر اپنی ہم منصب سے بات کی ۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جیسنڈا ایرڈن کو بتایا کہ انہوں نےانسانی ہمدردی کے جس جذبہ کے تحت کرائسٹ چرچ کے سانحہ کے بعد مسلمانوں کی دل جوئی کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔

نیوزی لینڈ میں ایک مذہبی اقلیت کو تشدد اور دہشت کا نشانہ بنانے پر دنیا بھر میں مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں مباحث کا آغاز ہؤا ہے ۔ متعدد یورپی ممالک میں آباد مسلمان اقلیتوں نے اس اندوہناک واقعہ کے بعد مسلمانوں سے نفرت یا اسلامو فوبیا کے خلاف کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایسی تجاویز سامنے لائی جارہی ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے مختلف عقائد کے لوگوں کے درمیان مواصلت اور احترام کا رشتہ استوار ہوسکے۔ اس مقصد کے لئے ایسے فورمز کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے جہاں مختلف پس منظر رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے مل سکیں اور باہمی مذاکرہ کے ذریعے ایک دوسرے کا مؤقف جان سکیں۔ ان ممالک میں بعض مساجد نے بھی مقامی آبادیوں کو مدعو کرنے اور ان کے ساتھ ڈائیلاگ شروع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔

اس بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اسی وقت اپنے سب لوگوں کی حفاظت کا بنیادی مقصد حاصل کرسکتا ہے جب سب لوگوں کو اپنے عقیدہ اور ثقافتی روایت کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو اور سب لوگ مقامی قوانین کا احترام کریں ۔ کوئی مسلمان کسی ایسے ملک میں جہاں اکثریت کا عقیدہ مختلف ہو، صرف اسلام کا نام لے کر یا قرآن کا حوالہ دے کر مقامی قانون کو مسترد نہ کرے ۔ اسی طرح مقامی اکثریت بھی مسلمانوں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی ضرورت کا خیال رکھنے کے علاوہ، ان کے بارے میں تعصب پھیلانے اور نفرت کا پرچار کرنے کی اجازت نہ دے۔ اس مقصد کے لئے قوانین کو بھی مؤثر کیا جائے لیکن سیاسی اور سماجی سطح پر کام بھی کیا جائے۔

گویا نیوزی لینڈ میں کثیر تعداد میں مسلمانوں کی المناک شہادت کے بعد صرف اس ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے حوالے سے گفتگو کی جارہی ہے۔ پاکستان میں اس سانحہ پر افسوس اور دکھ کا اظہار تو سامنے آیا ہے لیکن اس سے سبق سیکھ کر اپنے معاشرہ میں تبدیلی لانے کی کوئی بحث شروع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ سوشل میڈیا مباحث ہوں یا نجی محافل کی گفتگو، حکومتی اہلکاروں کے بیانات ہوں یا مذہبی اور گروہی نمائندوں کے تبصرے، زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا رہا ہے کہ یہ دہشت گردی تھی یا قتل عام اور مغربی حکومتوں اور میڈیا نے اس پر کس طرح ردعمل دکھا یاہے۔

مثال کے طور پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ضروری سمجھا ہے کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے نیوزی لینڈ کی دہشت گردی پر جاری ہونے والے مذمتی بیان کو مسترد کریں اور یہ نکتہ اٹھائیں کہ بھارتی وزیر اعظم نے اس سانحہ کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری نہیں سمجھا کہ یہ حملہ مساجد پر ہؤا تھا اور اس میں پچاس مسلمان جاں بحق ہوئے تھے۔ ہو سکتاہے کہ خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر سے وزیر خارجہ بھارتی لیڈروں کے ہر اقدام پر رائے دینا ضروری خیال کرتے ہوں۔ لیکن قومی سطح پر کوئی ایسی رائے دیکھنے میں نہیں آئی کہ نیوزی لینڈ میں ایک مذہبی اقلیت پر ہونے والے حملہ پر غورکرتے ہوئے ملک میں آباد دیگر مذاہب کی حفاظت کے نقطہ نظر سے رائے ہموار کی جائے۔

یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ غیر مسلم آبادیوں والے ممالک میں مسلمان تب ہی محفوظ ہوں گے اور سر اٹھا کر مقامی سطح پر نفرت پھیلانے کے رجحان کا سامان کرسکیں گے، اگر پاکستان جیسے مسلمان اکثریتی ممالک میں مذہبی اقلیتوں کے احترام کا رویہ عام ہو اور حکومت بھی ان کے بنیادی حقوق یقینی بنانے کے لئے قوانین میں تبدیلی کرے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اپنے ملک میں اقلیتوں کے حقوق اور مساوی سماجی، سیاسی اور مذہبی حق کو تسلیم کئے بغیر مسلمان لیڈر دوسرے ممالک سے اسلاموفوبیا کے خلاف کام کرنے اور مسلمانوں کو مساوی حقوق دینے کا مطالبہ کریں۔

اسی طرح پاکستان جیسے ممالک میں بنیادی مسائل پر غور کرنے کی بجائے اس بات پر نکتہ آفرینی ضروری سمجھی جارہی ہے کہ یہ حملہ ایک نسل پرست کی بجائے ایک ’عیسائی انتہاپسند‘ نے مسلمانوں پر کیا تھا۔ گویا اسے اقلیتوں اور اکثریت کے تناظر میں سمجھنے اور سماجی انصاف کے حوالے سے دیکھنے کی بجائے، اس پر خالص مذہبی نقطہ نظر سے غور ضروری سمجھا جارہا ہے۔ اسی لئے عام پاکستانی مسلمان کے لئے یہ بات اہم ہے کہ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں تلاوت قرآن کا اہتمام کیا گیا، یا وہاں ٹیلی ویژن پر اذان نشر ہوگی یا اس سانحہ سے پیدا ہونے والی ہمدردی کی لہر سے متاثر ہو کر کتنے مقامی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ یہ جاننا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اپنے معاشرہ میں مذہب کے نام پر پھیلنے والے منفی اور خطرناک رجحانات سے نمٹنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔

اس دوران بہاول پور سے یہ افسوس ناک خبر موصول ہوئی ہے کہ ایک نوجوان طالب علم نے اپنے مذہبی خیالات اور مذہب کی ذاتی تفہیم کی بنیاد پر ایک پروفیسر کے اقدامات کو پرکھتے ہوئے چاقو کے وار کرکے عمر رسیدہ استاد کو قتل کردیا۔ گرفتاری کے بعد اس نوجوان نے اپنے اقدام پر شرمندہ ہونے کی بجائے یہ دعویٰ کرنا ضروری سمجھا کہ ملک کے قوانین مذہب کے گستاخوں سے نمٹنے میں ناکام ہیں ۔ اس لئے اسے خود یہ ’نیک کام‘ کرنا پڑا۔ مبینہ طور پر تنازعہ ایک تقریب کے انعقاد پر تھا جس کا اہتمام مقتول پروفیسر کررہے تھے اور جس میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی شریک ہونا تھا۔ قاتل اس سماجی و ثقافتی میل جول کو غیر اسلامی سمجھتا ہے۔ اور اس کے خیال میں جو شخص بھی سماجی طور پر خواتین اور مردوں کو ملنے کا موقع فراہم کرے وہ ’اسلام دشمن‘ ہے۔

جیسنڈا ایرڈن کے اقدامات اور خیالات کی توصیف کرنے والے کسی سرکاری یا مذہبی لیڈر کو بہاول پور میں مذہبی کوتاہ نظری اور شدت پسندی کی وجہ سے رونما ہونے والے اس سانحہ پر غور کرنے، اس کی مذمت کرنے اور یہ واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ کسی زندہ معاشرہ میں مذہب کی من مانی توضیح کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہماری کان اور آنکھیں اس حقیقت کو سننے اور سمجھنے سے قاصر ہوچکی ہیں کہ کرائسٹ چرچ میں برینٹن ٹیرنٹ نے بھی سماج اور مذہب کی من پسند تفہیم کو درست مانتے ہوئے یہی سوچا ہوگا کہ نیوزی لینڈ کی حکومت اور قانون ان مسلمانوں کا راستہ روکنے میں ناکام ہورہا ہے جنہیں وہ معاشرہ کے لئے مہلک سمجھتا تھا۔ اس لئے اسے خود اقدام کرنا چاہئے۔ اگر اس نکتہ کو سمجھ لیا جائے تو بہاولپور میں ہونے والا سانحہ پاکستانی حکومت اور عوام کے لئے ویسا ہی چیلنج لے کر آیا ہے جو کرائسٹ چرچ کا دہشت گرد نیوزی لینڈ کی حکومت کے لئے بنا ہے۔

صدر پاکستان عارف علوی نے البتہ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا ہے کہ ملک میں جمہویت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جمہوری نظام کے استحکام کی بات کرنے والے صدر مملکت کو اس سماجی توڑ پھوڑ اور انتشار کا کوئی ادراک نہیں جسے تبدیل کئے بغیر سماجی احیا اور انسانی جانوں کی حفاظت کا اہتمام نہیں ہو سکتا۔ جس معاشرہ میں انسانی جان کی قدر معدوم ہوجائے اس میں جمہوریت کیوں کر پروان چڑھے گی۔

پتہ نہیں مذہب کو نافذ کرنے کے لئے کہ ایک نوجوان طالب علم کے ہاتھوں اپنے پروفیسر کو قتل کے واقعہ پر خاموش رہنے والے عمران خان نے جیسنڈا ایرڈن کو کرائسٹ چرچ سانحہ کے بعد انسان دوستی پر شاباش دیتے ہوئے خود کوئی شرمندگی محسوس کی ہوگی یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali