تعلیمی ادارے یا سیاسی جماعتوں کی نرسریاں


دور جدید کے تعلیمی اداروں میں تین سرگرمیاں ہوتی ہیں جو بالکل ناگزیر ہیں اور ایک ادارے کو پہچان عطا کرتی ہیں: نصابی، ہم نصابی، اور غیر نصابی۔ آخری دو میں سے کوئی ایک بھی کم ہو گی تو وہ تعلیمی ادارہ کہلانے کا مستحق نہیں۔ صرف کلاس روم میں لیکچر بازی اور چند سوالات کے جوابات یاد کرکے امتحان پاس کرنے کا نام تعلیم نہیں۔

تعلیمی اداروں میں ہم نصابی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے یونینز کا نظام وضع کیا گیا تھا تاکہ طلبہ ان سرگرمیوں کو از خود انجام دیں۔ اس طرح ان کی مینجمنٹ کی صلاحیتوں کو بھی نشو و نما ملے گی۔ لیکن بنیادی طور پر یہ ڈیبیٹنگ کلب تھے۔ کسی قسم کے طلبہ مسائل حل کروانا ان کے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہوتا تھا۔

میں 1967  میں گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا تو اس وقت ایوب خان کی حکومت تھی۔ ملک میں سیاسی طور پر شدید گھٹن تھی لیکن سماجی طور پر کافی کھلا ڈلا ماحول تھا۔ گورنمنٹ کالج کا ہم نصابی سرگرمیوں بہت بلند مقام تھا۔ سٹوڈنٹس یونین کے ساتھ، میوزک سوسائٹی، فلم سوسائیٹی، ڈریمیٹک کلب، مجلس اقبال، پنجابی مجلس، سوندھی ٹرانسلیشن بہت فعال ہوتے تھے۔

کالج میں منعقد ہونے والی  ہاؤس آف کامن سٹائل ڈیبیٹ کا بہت شہرہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں نقطہ اعتراض، نقطہ اطلاع اور نقطہ استحقاق کی خوب رونق لگتی تھی۔ اس برس ہونے والے ایک مباحثہ کا عنوان تھا: تخلیق کائنات ایک دلچسپ مذاق ہے۔ اس پر کس کس انداز سے گوہر افشانی کی گئی تھی۔ سوچتا ہوں کہ اگر آج کا ماحول ہوتا تو نہ صرف اسلام خطرے میں پڑ چکا ہوتا بلکہ چھریاں بھی چل چکی ہوتیں۔ اسی مباحثے میں پہلی بار عدم کا یہ شعر بھی سننے کو ملا:

تخلیق کائنات کے دل چسپ جرم پر
ہنستا تو ہو گا آپ بھی یزداں کبھی کبھی

اس زمانے میں گورنمنٹ کالج میں ابھی طلبہ تنظیموں کا داخلہ نہیں ہوا تھا اس لیے کالج میں انتخابات کا ماحول مکمل طور پر غیر سیاسی ہوتا تھا۔ امیدوار انفرادی طور پر اپنے دوستوں کی مدد سے الیکشن لڑتے تھے۔ ہر امیدوار اپنی کوالیفیکیشنز بتاتا تھا کہ اس نے مباحثوں میں کتنے انعامات اور ٹرافیاں حاصل کی ہیں۔ اس وقت ایک تفریق ہوتی تھی جسے سینٹ انتھونی بمقابلہ سینٹرل ماڈل کہا جاتا تھا۔ یعنی انگلش میڈیم بمقابلہ اردو میڈیم۔ لیکن اس میں کسی قسم کی کوئی شدت نہیں تھی اور نہ ہم جیسے اردو میڈیم دیہاتیوں کو انگلش میڈیم والوں کو ووٹ دینے میں کوئی مسئلہ ہوتا تھا۔
یونین کے الیکشن بہت سادگی سے ہوتے تھے۔ کسی قسم کا پرنٹڈ میٹیریل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ وال چاکنگ سنگین جرم تھا۔ ووٹ فار کی مہریں سادہ گتے پر لگا کر بیج بنائے جاتے تھے۔ الیکشن سے دو تین روز قبل امیدوار ایک مخصوص لمبائی چوڑائی کے پانچ کینوس بورڈ (جیسے اس زمانے میں فلموں کے ہوا کرتے تھے) بنوا کر کالج کے مختلف مقامات پر رکھ سکتے ہوتے تھے۔ ان پر امیدوار اپنی کوالیفیکیشنز درج کرتے تھے۔

کسی امیدوار کے انفرادی اور جماعتی الیکشن لڑنے میں بہت فرق ہے۔ جو لوگ انفرادی طور پرالیکشن لڑتے تھے ان کا مطمح نظر چند مباحثوں اور مشاعروں کے انعقاد تک محدود ہوتا تھا۔ یونین اس وقت تک طلبہ کی ٹریڈ یونین نہیں بنی تھی، جس کا مقصد طلبہ کے مسائل حل کروانا، ان کو ہوسٹل میں جگہ دلوانا، امتحانات کو ملتوی کرانا ہو۔ لیکن اگر یونین کے انتخاب طلبہ تنطیموں کی بنیاد پر ہوتے ہیں تو تنظیم کا مقصود اگلے برس کا الیکشن جیتنا بھی ہوتا ہے۔ یہ تسلسل تعلیمی اداروں پر مختلف تنظیموں کے قبضے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

کالج میں میرے زمانہ صدارت میں ایک واقعہ پیش آیا۔ فرسٹ ایر اور تھرڈ ایر کے طلبہ نے بغیر ٹیسٹ کے پروموشن کا مطالبہ کر دیا۔ میں نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت ینگ سٹوڈنٹس یونین کے انتخاب کی مہم بھی چل رہی تھی جس کی وجہ سے یہ معاملہ الیکشن کمپین کا بھی حصہ بن گیا۔ کچھ دن یہ رد و قدح چلتی رہی، میں نے کلاسوں میں جا جا کر طلبہ کو ٹیسٹ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ سیکریٹری سٹوڈنٹس یونین سہیل بٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ طلبہ ٹیسٹ دیں، ان میں سے کوئی فیل نہیں ہو گا۔ پرنسپل صاحب نے یہ بات بھی مان لی۔ لیکن ہفتے کے روز طلبہ نے یونین آفس کا گھیراؤ کر لیا۔ سہیل بٹ نے اعلان کیا سوموار کو سب طلبہ اوپن ایر تھیئٹر میں جمع ہو جائیں، وہاں فیصلہ ہو گا۔ سوموار کے روز صبح پرنسپل صاحب نے مجھے بلا کر کہا ساجد کوشش کرو، طلبہ کسی طرح ٹیسٹ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ میں نے جواب دیا سر میں اپنی سی کوشش کر چکا ہوں، اب مجھے ممکن نظر نہیں آ رہا۔

اوپن ایر تھیئٹر میں طلبہ کے نعرے سن کر اور ان کا موڈ دیکھ کر میں نے سہیل بٹ سے کہا اعلان کر دو کوئی ٹیسٹ نہیں ہو گا۔ سہیل بٹ کے اعلان کے بعد جب طالب علم منتشر ہونے لگے تو میں نے کہا جانے سے پہلے آپ میری بات سنتے جائیں۔ میں نے ان سب کو پروموٹ ہونے کی مبارک باد دی، جس پر سب طلبہ نے خوش ہو کر تالیاں بجائیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ اگرچہ پرموشن ٹیسٹ نہیں ہو گا لیکن الیکشن گزر جانے کے بعد ٹیسٹ ضرور ہو گا۔ جب ٹیسٹ کے انعقاد کا وقت آیا تو کچھ طلبہ نے احتجاج کی کوشش کی لیکن میں اپنی بات پر قائم رہا۔ جمعیت والے مجھ سے ناراض ہوتے تھے کہ جب طلبہ ٹیسٹ نہیں دینا چاہتے تو تمھیں کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے۔ میرا ان کو ایک ہی جواب ہوتا تھا میری اولین وفاداری اپنے کالج کے ساتھ ہے؛ مجھے اپنے کالج کا نام ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہے۔ میں کوئی ایسا اقدام نہیں کروں گا جس سے میرے کالج کی عزت اور معیار پر حرف آئے۔ جمعیت والوں کو اس بات کا ڈر تھا کہ وہ آئندہ الیکشن نہ ہار جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اگلا الیکشن واقعی ہار گئے، اگرچہ میرے خیال میں اس کی وجوہ کچھ اور تھیں۔

میں جمعیت کا ساتھ ضرور دیتا تھا لیکن کالج کے باہر۔ ایک بار پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے ایک عہدے دار نے مجھ سے شکایت کی تمھارے کالج میں منسٹر آتے ہیں، جب کہ ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ جس کالج میں جمعیت کی یونین ہے اس میں ہم پیپلز پارٹی کے کسی منسٹر کو نہیں آنے دیں گے۔ میں نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم یہ فیصلہ کب ہوا اور کس نے کیا۔ مجھے اتنا معلوم ہے جاوید ہاشمی نے تقریر کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا۔ میں چونکہ آپ کا ساتھ دیتا ہوں اس لیے میں نے یونین کے کسی فنکشن پر کسی وزیر کو نہیں بلایا۔ لیکن کالج انتطامیہ یا کالج کی کوئی اور سوسائٹی کسی وزیر کو بلاتی ہے تو میں اس پراعتراض نہیں کروں گا۔ جمعیت والوں نے کہا آپ کو اعتراض کیوں نہیں۔ میں نے کہا جب میں اپنا یہ حق تسلیم کرواتا ہوں کہ یونین کے فنکشن پر مہمان میں اپنی مرضی سے بلاؤں گا تو میں دوسروں کا یہ حق بھی تسلیم کر لیتا ہوں کہ وہ بھی مہمان اپنی مرضی سے بلائیں۔

طبہ تنظیموں کی آمد سے سٹوڈنٹس یونین نے ٹریڈ یونین کا رنگ اختیار کر لیا۔ طلبہ تنظیمیں بالعموم سیاسی جماعتوں کا ونگ ہوتی ہیں اس لیے سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا بھی آ گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ساٹھ کی دہائی سے ہی سٹوڈنٹس یونین پر اسلامی جمعیت طلبہ حاوی رہی ہے۔ ابتدا میں یونین میں کلچرل سیکریٹری کی ایک پوسٹ ہوا کرتی تھی جو جمعیت نے ختم کروا دی، کیونکہ میوزک اور ڈرامہ ان کے نزدیک غیر اسلامی ہے۔

پنجاب ینیورسٹی میں اپنے زمانہ تدریس میں جمعیت کے ساتھ ایک مسلسل کش مکش رہی۔ نوے کی دہائی کی بات ہے کہ ہمارے شعبہ میں جمعیت کا ایک ناظم تھا، اس سے زیادہ ماورائے عقل و اخلاق کوئی اور دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس نے شعبہ میں اپنی مرضی کا اسلام نافذ کر دیا، مثلاً طلبہ و طالبات اکٹھے پروگرام کر سکتے ہیں لیکن ایک کمرے میں کھا پی نہیں سکتے۔ ایک دن شعبہ میں ایک طالبہ نے امتحان میں فرسٹ آنے پر تمام شعبے کو دعوت دی۔ اس ناظم نے لڑکوں کو اندر آنے سے منع کر دیا لیکن تین لڑکے اندر آ گئے۔ اس کے بعد وہ ساتھ والے شعبہ میں جا کر جمعیت کے کچھ اور لڑکوں کو بلا لایا۔ پندرہ بیس لوگ دھڑ دھڑ کرتے اندر آئے اور ان لڑکوں کو دبوچ لیا۔ عجیب سی صورت حال تھی۔ شعبہ کے تمام اساتذہ موجود تھے اور ان کی موجودگی میں یہ تماشا ہو رہا تھا۔ خیر میں ہمت کر کے اٹھا اور ان لڑکوں سے کہا یہ تم کیا کر رہے ہو۔ ایک داڑھی والے نے عجیب غراتی ہوئی آواز نکالی۔ اب مجھے بھی غصہ آ گیا اور میں نے آواز بلند کرتے ہوئے انھیں ڈانٹنا شروع کر دیا۔ شاید میری قسمت اچھی تھی کہ ایک لڑکے کی سمجھ میں کچھ بات آ گئی اور وہ باقی لڑکوں کو لے کر باہر چلا گیا۔ اس کے بعد جمیعت والوں نے ہوسٹل میں ہمارے طلبہ کی پٹائی کی تھی۔

اگر ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا مرکز بنانا ہے تو طلبہ تنظیموں پر پابندی عاید کرنا ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کو یہ عہد کرنا ہو گا کہ وہ اپنے طلبہ ونگ قائم نہیں کریں گی۔ تعلیمی ادارے سیاسی جماعتوں کی نرسریاں نہیں ہیں۔ طلبہ کو سیاسی طور پر باخبر اور با شعور ہونا چاہیے، انھیں سیاسی مباحث کا انعقاد بھی کرنا چاہیے لیکن یہ سب کچھ بحیثت طالب علم ہونا چاہیے، سیاسی جماعتوں کے ورکر کے طور پر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).