کالا دوپٹہ، نیا پاکستان اور پرانا نیوزی لینڈ


کرائسٹ چرچ سانحہ دہشت گردی کی کوئی پہلی مثال نہیں ۔ آئے دن دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان سانحات پر لوگ اپنے اپنے انداز میں رد عمل کا اظہار کرتے ہیں ۔نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملوں پر ہر صاحب دل اداس ہے وہاں سے موصول ہونیوالی تصویروں اور خبروں نے ہر حساس آنکھوں کو نم کردیا ہے ۔ دہشت گردی کی اس لرزہ خیز واردات نے اس جانب بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ اب وقت آگیا ہے سفید فام نسل پرستی کو بھی ایک عالمی مسٔلہ تسلیم کیا جانا چاہیے ۔

تاریخ میں جب بھی اس سانحے کی یادیں رقم کی جائیں گی شہید ہونے والے پاکستانی نعیم راشد کو یاد رکھا جائے گا۔ ان کی بیوہ کے ہمت اور حوصلے کو یاد رکھا جائے گا ۔ جہانداد کی معصوم بیٹیوں کی پاپا کے لئے پکار کو یاد رکھا جائے گا۔ سہیل شاہد کی ماں کا انتظار رکھا جائے گا۔افغان شہری کی بہادری کو یاد رکھا جائے گا۔ جبکہ پیچھے بچ جانے والوں کی کہانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لیکن ان سب سے اوپر تاریخ کے صفحات میں یاد رکھا جائے گا۔ ایک کالا دوپٹہ جو اس عورت کے سر پر تھا جو اس وقت نیوزی لینڈ کی منتخب وزیر اعظم ہے اور اس کا مذہب اسلام نہیں ہے ۔ اس عورت نے اپنے سر پر یہ دوپٹہ اوڑھ کر پوری دنیا کو بتادیا کہ اس کے ملک کے مسلمان اس کے اپنے ہیں ۔ روتی تڑپتی مسلمان بیواؤں کو گلے سے لگاکر تسلیاں دیتیں ، زخمی اور یتیم سسکتے بچوں کو حوصلہ دیتی جسینڈرا آرڈرن نے ہر آنکھ کو پرنم کر دیا۔ ان کا یہ اقدام محض کوئی فوٹو شوٹ نہیں تھا نہ ہی ان کے آنسو گلیسرین کا نتیجہ تھے ۔ان کا یہ کالا لباس اس سوگواری میں برابر کا شریک رہا ہے جس میں اس وقت ان کے ملک کے مسلمان مبتلا ہیں ۔ ان کے کالے دوپٹے اور آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوؤں نے نیوزی لینڈ میں اسلحے کا ترمیمی بل پاس کرادیا ۔اسمبلی کی کارروائی سے پہلے تلاوت قران نے ان کے سچے سوگ کی گواہی دی۔ نیوزی لینڈ میں جمعے کی اذان ریڈیو ٹی وی سے نشر کی گئی اور مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔ ایک بار پھر کالے دوپٹے والی اس عورت کے کردار وعمل نے ثابت کیا کہ وہاں بسنے والے مسلمان انہی کا حصہ ہیں اور وہ سب ایک ہیں اور یہ سب ایک پرامن مگر پرانے معاشرے کا خاصہ ہے ۔ اس کالے دوپٹے نے ثابت کیا کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے اور جب اس میں بسنے والا کوئی بھی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو کاروبار ریاست چلانے والے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں ۔

دوسری جانب ظرف کی یہ مثال دیکھ کر اپنے نئے پرانے زخموں میں ٹیسیں سی اٹھنے لگتیں ہیں۔ جہاں کچھ معصوم دن دہاڑے پولیس کی اندھی گولیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے معصوم بچے ٹکر ٹکر خون بہتے دیکھ کر کھڑے رہ جاتے ہیں ۔ان کے لواحقین انصاف کی تلاش میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں لیکن ریاست مدینہ کے والی کا احساس تک نہیں جاگتا ۔ کہیں کوئی پولیس والا اس لیے دربدر کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے اپنا فرض نبھانے کی کوشش کی ہوتی ہے ۔ کیا تھا کہ اگر نئے پاکستان میں بھی کوئی اعلی ظرفی کی ایسی مثال قائم کی جاتی ؟ اگر ساہیوال کے معصوم یتیموں سے وزیر اعظم مل لیتے ۔صرف ٹوئٹر پر بیان جاری کرنے اور پنجاب حکومت کو سرزنش کرنے سے آگے بھی کچھ سوچ لیتے ۔ تو شاید ہم کو بھی تسلی ہوجاتی کہ پرانے پاکستان میں نہ سہی مگر نئے پاکستان میں ہماری ریاست ماں جیسی ہے۔کچھ بھی تو نہیں بدلا نئے پاکستان میں۔

اس کالے دوپٹے میں ملبوس عورت کے منہ سے نکلے تسلی آمیز الفاظ نئے پاکستان میں چرکے لگتے زخموں کو نئے سرے سے ہرا کررہے ہیں ۔ کچھ سوال کرتی ترستی آنکھیں نئے پاکستان کے والی سے پوچھ رہی ہیں وہ تو غیر ہوکر بھی دل جیت رہی ہے آپ اپنے ہوکر بھی مرہم نہ رکھ سکے؟

 بس یہی فرق ہے نئے پاکستان اور پرانے نیوزی لینڈ کے درمیان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).