علم و شعور خنجرکی نوک پر



انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گزارتا، وہ کئی رشتوں ناطوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ان میں کچھ رشتے اور تعلق خونی ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روحانی، اخلاقی اور معاشرتی طور پر بنتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک رشتہ استاد کا بھی ہے۔ استاد کو معاشرے میں روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے۔ اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں جینا اور رہنا سکھاتا ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا : بیشک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا: اگر تم بادشاہ ہو تب بھی اپنے والد اور استاد کی تعظیم کے لیئے کھڑے ہو جاو۔
سکندرِاعظم آدھی دنیا کا فاتح ہمیشہ اپنے استاد کو اپنے باپ پر ترجیح دیا کرتا تھا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا،میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور میرا ستاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ عباسی سلطنت کا خلیفہ ہارون الرشید بڑا متکبر بادشاہ تھا۔ ایک دن نمازِجمعہ کے بعد اس نے دیکھا کہ اس کے بیٹے مامون الرشید اور امین الرشید اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ اپنے استاد کے جوتے میں اُٹھاوں گا، آخر استاد کے کہنے پر وہ ایک ایک جوتا اُٹھا لائے۔اگلے دن خلیفہ ہارون الرشید نے دربار میں یہ سوال پوچھا کہ آج سب سے زیادہ عزت کس کی ہے؟سب نے کہا خلیفہ کی عزت سب سے زیادہ ہے۔لیکن خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ نہیں سب سے زیادہ عزت استاد کی ہے جس کے جوتے اُٹھانے کے لیئے خلیفہ کے بیٹے بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔مشہور یورپی مفکر آسکروائلڈ نے کہا تھا کہ جن قوموں میں استاد کو احترام کا درجہ دیا جاتا ہے وہ اقوام عالم کی رہبری کرتی ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت اور شدت پسندی کی لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ہر شخص اپنی مرضی اور خواہش دوسرے پر تھونپنے پر بضد ہے۔علم،شعور اور محبت کو ایسے لگتا ہے جیسے خنجر کی نوک پر رکھ دیا گیا ہے۔اگر کوئی آپ کی بات سے اختلاف کرے تو اُسے دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ مکالمہ اور دلیل تو ختم ہی ہو گئی ہے اس کی جگہ گالم گلوچ اور تشدّد نے لے لی ہے۔بہاولپور میں پروفیسرخالدحمید کا قتل بھی اِسی عدم برداشت اور خود منصف بن کر فیصلے اور سزا دینے والی سوچ کا ہی نتیجہ ہے۔بظاہرپروفیسر صاحب کو اس وجہ سے قتل کر دیا گیا کہ اسی کالج کے طالبعلم قاتل خطیب حسین کو کالج میں ہونے والی تقریب پر اعتراض تھا جو کہ ابھی منعقد بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ تقریب اُس قاتل کی نظر میں غیر اسلامی تھی اور اس بنا پر پروفیسر کو ایک دن پہلے قتل کر دیا جاتا ہے۔کسی بھی تعلیمی ادارے میں تقریبات کا انعقاد کسی ایک استاد کی خواہش اور مرضی سے نہیں ہوتا ، یہ تو ایک انتظامی معاملہ ہوتا ہے جس میں انتظامیہ،تمام اساتذہ اور طلباء کی رائے شاملِ حال ہوتی ہے۔
قاتل کا بیان جو کہ میڈیا پر دِکھایا گیااس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل نفرت اور عداوت کے جذبات سے بھرپور تھا، اسے کوئی رنج یا پچھتاو ا نہیں بلکہ خوشی تھی کہ اس کا استاد پروفیسر اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔ وہ ظالم اور انسانیت کا قاتل انسان تیس سال تک علم ، شعور اور محبت کا درس دینے والے عظیم انسان کو دفن کرکے خوش تھا۔ایک بیس سال کے لڑکے میں اتنی نفرت کی وجہ آخر کیا ہو سکتی ہے؟ادارے اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔غالب گمان ہے کہ یہ نفرت وہی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں چند انتہاپسند اور شر پسند عناصر اپنی مرضی کا دین اور مذہب نافذ کرنے کے لیے معصوم لوگوں کے دِلوں میں بھرتے ہیں۔اِن معصوم اور حقیقی علم سے محروم لوگوں کی تربیت بھی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ صرف یہی لوگ حق پر ہیں اور سارے کا سارا معاشرہ غلط ہے۔خدا بھی صرف اِن ہی لوگوں کا ہے اور باقی سارے لوگوں کا خدا سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اِن کو لگتا ہے کہ ساری دنیا منکرِخدا ہے۔
ایک وقت تھا کہ خلیفہِ وقت کے بیٹے اپنے استاد کا جوتا اُٹھانے پر فخر محسوس کرتے تھے اور آج یہ وقت ہے کہ ایک استاد کا خون بہا کر فخر محسوس کیا جا رہا ہے۔معاشرے میں اتنی بڑی تبدیلی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔میری تمام والدین، اہلِ علم، دانشور اور اساتذہ کرام سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیّت پر زیادہ توجہ دیں۔اپنی نسلوں اور بچوّں کو خدا کا درست پیغام پہنچائیں، قرآن کو خود بھی سمجھیں اور اپنے بچوں کا بھی سمجھائیں۔خدا کا پیغام تو خالق کی معبودیت اور مخلوق سے محبت کے سِوا کچھ بھی نہیں۔معاشرے میں نفرت اور تعصّب پھیلانے والے لوگوں سے خود بھی دور رہیں اور اپنے بچوں کو بھی دور رکھیں۔ابھی بھی وقت ہے فساد پھیلانے والوں کو پہچانیں یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔یہ صرف ایک استاد کا قتل نہیں بلکہ پوری انسانیت اور علم کا قتل ہے اور اس کی قاتل جہالت ہے ۔
عارف امام نے شاید اِ سی لیے کیا تھا:
سروں سے بارِتمدن اُتار کر خوش ہیں
یہ لوگ اپنے معلم کو مار کر خوش ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).