کامریڈ واحد بلوچ اور لامکان کے پھیرے


\"farnood01\"سبین محمود کو رات گئے اپنے منطقی انجام سے دوچار کیا گیا تو اگلے روز سر شام استاد وسعت اللہ خان نے نوحہ پڑھا۔ ترنگ میں وہ پوچھا کیے

’’ہے کوئی اور؟ ہے تو سامنے آئے‘‘

کوئی وسعت اللہ خان کو خبر کرے کہ صبین کی تصویر اٹھائے اٹھائے جو واحد بلوچ دہائیاں دیتا تھا، وہ کامریڈ حیدر آباد اور کراچی کے بیچوں بیچ سے اٹھاکر لاھوت و لامکان پہنچا دیا گیا ہے۔

اب دیکھیئے گا۔!

 سو منہ ہوں گے اور سو باتیں۔ کچھ خفیہ اور علانیہ غدار بھانت بھانت کی بولی بولیں گے۔ کچھ ایسے الزامات عائد کریں گے جس سے ملک کا وقار مجروح ہو۔ حالانکہ یہ خود جانتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ غلطی واحد بلوچ کی ہے۔ غلطی واحد بلوچ کی ہے کہ وہ ایک ایسے دور میں کہ جہاں کرنے کو اور بہت کچھ رکھا ہے، وہ کتاب پڑھتا تھا اور سوچتا تھا۔ بات انہی دو جرائم تک رہتی تو کوئی بات تھی، حد دیکھیئے کہ سوال بھی اٹھا تا تھا۔ آگہی ایک ’’آگ ہی‘‘ تو ہے، اور اس آگ میں عشق خود اپنی مرضی سے کودا تھا۔ آگہی تو جون کے صحرا تک پہنچا دیتی ہے۔ چل نہ پڑیئے تو پاؤں جلتے ہیں اور چل دیجیئے تو پر جلتے ہیں۔ یقینا علم اور سچائی سماج کو بہتر نتائج تک پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہوں گے، مگر یہ سماج سماج کی بات ہوتی ہے۔ جس دنیا میں سچ کو جینے کا مکمل حق حا صل ہو وہاں سچ بولا جائے تو بات \"FB_IMG_1469702500182\"سمجھ آتی ہے۔ مگر جہاں ایک ریاست کی بقا ہی اس میں ہو کہ مسلسل جھوٹ بولا جائے وہاں سچ کہنے سے ملک کو شدید ترین خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ کیا مشکل ہے اگر معاشرتی علوم اور پی ٹی وی کی تاریخ پر صبر شکر کر لیا جائے۔ آخر یہ کیونکر فرض کر لیا گیا ہے کہ وہ حقیقت بیان کرنا ضروری ہے جس کے نتیجے میں ملک کو تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزرنا پڑتا ہو۔ سمجھ نہیں پایا کہ قادر بلوچ کس بنیاد پر خود کو کامریڈ کہتا تھا؟ یہ کیسا کامریڈ ہے جس کی سماعتیں فیض احمد فیض کے ان الفاظ سے آشنا نہ ہوئیں

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظر چرا کے چلے، جسم وجاں بچاکے چلے

رسم کا احترام یہ ہے کہ اسے پامال نہ کیا جائے۔ رسم یہ ہے کہ سر جھکا کے چلا جائے کہ سامنے کا منظر دکھائی نہ دے۔ سر اٹھا ہی لیا ہے تو نظریں چرا کے چلا جائے کہ دیوار کا نوشتہ آنکھ میں سمائی نہ دے۔ آنکھ میں کچھ پڑ ہی گیا ہے تو لازم ہے کہ اس کی دہائی نہ دے۔ دہائی دے ڈالی ہے تو پھر رات کے آخری پہر حیدر آباد اور کراچی کے بیچ کسی ویرانے میں خراماں خراماں چلنے کا مطلب؟ رسم و روایت کی اس درجے میں بے توقیری کرنے والوں کی کم سے کم سزا یہ ہے کہ مشکیں کس کر لامکان کے کسی تاریک گوشے میں سر بزانو بٹھا دیاجائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ شہادت کے اعلی مرتبے پر فائز کر کے سڑک کنارے لٹا دیا جائے۔

کہاں تک سنیں گے۔؟\"0001\"

بتانے والے نے بتایا کہ واحد بلوچ دلیل سے بات کیا کرتا تھا۔ اس پر میرے پاس لاحول پڑھنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آخر ایک شخص ایک وقت میں کتنے جرائم کا مرتکب ہو سکتا ہے۔؟ سچ آپ کہیں، کتاب آپ پڑھیں، کھوج آپ لگائیں، اور پھر ان سب سے بڑھ کر یہ کہ دلیل سے بات بھی کریں؟ یعنی آپ کو کہاں تک اور کب تک برداشت کیا جائے؟ ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ سارے جرائم ہضم کیے جا سکتے ہیں مگر یہ جرم کیسے برداشت کر لیا جائے کہ آپ سوال بھی اٹھاتے ہیں۔؟ آپ پتھر اٹھا لیجیئے، بندوق اٹھا لیجیئے، سوال کیوں اٹھاتے ہیں صاحب۔؟

حضور۔!

کیجیئے، سچائی اور دلیل کا دعوی ضرور کیجیئے مگر اس سے پہلے اپنی علمی اوقات ضرور ناپ لیجیئے۔ کامریڈ کہلوانا پسند کرتے ہیں اور فیض کے عارفانہ کلام سے لاعلمی؟ زندگی کراچی میں بسر کی اور جون ایلیا کی معرفت سے بے خبری۔؟ نہیں سنا کہ کیا کہا تھا اس الہڑ بنجارے نے؟ کہتا تھا

’’اگر میں اپنے جھوٹ کے ساتھ خوش ہوں تو پھر تم مجھ پر اپنا سچ مسلط کرنے والے کون ہوتے ہو؟‘‘

اب اتنی سی بات سمجھنے کے لیے کیا ضروری ہے کہ جون ایلیا کی زبان سے ہی بات کہلوائی جائے؟ عقل اگر سلامت ہے تو سامنے کی حقیقت دکھائی کیوں نہیں پڑتی؟ اگر کسی کو سچ کی اتنی ہی پڑی ہے تو پھر سچ سننے کا جگرا بھی ہونا چاہیئے۔ سننا چاہیں گے سچ؟

تو سنیئے پھر۔!

سچ یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پہ جھوٹ پر زندگی بسر کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ محب وطن شہری کبھی متفقہ امور یعنی \"FB_IMG_1469702439419\"سیٹلڈ ایشوز کو نہیں چھیڑتے۔ اس قوم نے اگر پوری سچائی کے ساتھ کسی جھوٹ پر اتفاق کر رکھا ہے، تو پھر دل پہ ہاتھ رکھ کر بتلایئے کہ ایسے میں سوال اٹھانے والے کسی واحد بلوچ کو کیا تمغہ امتیاز سے نوازا جائے؟

استاد وسعت اللہ خان۔!

آپ آواز لگایئے، ہم دیکھتے ہیں اور کون ہے ایسا ماں کا جنا جو اب قادر بلوچ کی تصویر اٹھا کر سامنے آئے۔ جو بھی آئے اس سے کہہ دیجیئے کہ وہ احتیاطا اپنی تصویر لواحقین کو دیتا آئے۔ کچھ نہیں پتہ کب ضرورت پڑ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments