مرحوم پولیس افسر پر اچھالے گئے کیچڑ کے جواب میں


\"husnainآج ایک معروف صحافی کی تحریر پاکستان کے صف اول کے روزنامے میں چھپی۔ ان کے پڑھنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے اور وہ جو بھی لکھ دیں اس پر کامل ایمان لے آنا ان کا فرض ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے، انہوں نے یہ مقام اپنی لگاتار محنت سے حاصل کیا ہے جس کا ذکر وہ بارہا کر چکے ہیں۔ ان کی تحریر میں خوبی یہ ہے کہ وہ تمام واقعات کو ایک قصے کہانی کی طرح انتہائی سادہ الفاظ میں بیان کرتے ہیں اور اسے کسی اچھے سے نتیجے تک پہنچا کر کالم ختم کرتے ہیں۔ ان کا یہ جذبہ نیک ہے اور قابل قدر ہے۔

آج کی تحریر میں انہوں نے ایک پولیس افسر کی کہانی لکھی جو بری صحبت کے نتیجے میں انتہائی برے حالوں پر پہنچے اور اس کے بعد انہوں نے خود کشی کر لی۔ مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس کیس کی تحقیقات کے دوران ایک مرحلے پر یہ کہا گیا کہ پولیس افسر نے خودکشی نہیں کی بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے، اور یہ ان کی فیملی کا بیان تھا۔ ان کے مطابق چھوٹو گینگ کی گرفتاری اور اسی کیس کے دوران بااثر افراد تک پہنچ جانا اس پولیس افسر کا قصور تھا۔ اس بیان کے کچھ عرصے بعد ایک اور خبر آئی کہ مذکورہ کیس کی تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں اور یہ بات طے ہو چکی ہے کہ انہوں نے خودکشی کی، ہاں خود کشی کی وجوہات یہ کہہ کر بیان نہ کی گئیں کہ ان کو میڈیا کے سامنے پیش کرنے سے مرحوم کے خاندان والے برا محسوس کریں گے۔

 پھر دس بارہ روز قبل ایک انگریزی اخبار میں اسی کیس کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی۔ اس اخبار کے مطابق یہ رپورٹ انتہائی باوثوق ذرائع سے معلوم ہوئی تھی اور مرحوم کے ایک دوست کو بھی تحقیقات میں نامزد کیا گیا تھا۔ نامزد شدہ دوست بھی ایک اعلی افسر ہیں۔ خبر کے آخر میں یہ بات بھی صاف صاف لکھی ہے کہ جب ان اعلی افسر سے اس بات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے واضح طور پر ایسی کسی بھی کہانی کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔

اب یہ صرف ایک نیوز سٹوری تھی جو ایک انگریزی روزنامے میں چھپی، ذرائع کا نام پتہ بھی نہیں بتایا گیا اور جس دوسرے دوست پر الزام لگا اس کی تردید بھی ساتھ موجود تھی۔ یہ اخبار چند ہزار کی تعداد میں چھپا ہو گا، انٹرنیٹ پر بھی اس خبر کو چند لوگوں یا مرحوم کے قریبی حلقوں نے پڑھا ہو گا، افسوس کا اظہار کیا ہو گا، یا غصے میں آ گئے ہوں گے، بہرحال دس بارہ روز گزر گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔

اچھے لکھنے والے کے پاس موضوعات کبھی بھی کم نہیں ہوتے۔ جب تک تازہ خبر موجود ہے، تب تک ان پر تبصرہ کرنے والا بھی زندہ ہے، شرط صرف یہ ہے کہ بات اس خبر پر کی جائے جو واقعی خبر ہو اور جس کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اطمینان کیا جا چکا ہو کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ دوسرے، اس میں ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ اگر آپ تھوڑا سا درد دل رکھتے ہیں جو یقینا ہر اچھے لکھاری میں وافر ہوتا ہے تو آپ کبھی بھی کسی مرنے والے کی بری یا شرم ناک حرکات پر کہانی نہیں بنائیں گے، اس کے بارے میں زیادہ بات نہیں کریں گے، یا کریں گے بھی تو سرسری سا کہہ سن کر آگے گزر جائیں گے۔ یہ سب بھی تب کیا جائے گا جب وہ خبر باقاعدہ انکوائری کمیٹی نے کیس کلوز کر کے دی ہو اور اسے پبلک کیا گیا ہو۔

کسی مردے کی مٹی پلید کر کے اگر آپ کو ریٹنگ مل جاتی ہے تو یہ شاید آپ کی صحافتی زندگی کی غلط ترین سوچ ہے۔ مرنے والا پولیس کا ایک اعلی افسر تھا، اس کی نوکری کا ریکارڈ صاف ستھرا تھا، اس کی باقاعدہ ایک فیملی تھی۔ ماں تھی، باپ تھا، بھائی تھا، بیوی بچے ہوں گے، ان سب کے سامنے جب اس طرح کی سبق آموز کہانی پڑھائی جائے گی تو وہ کیسا محسوس کریں گے، کیا ایک لمحے کے لیے بھی آپ نے سوچا؟ فقیر کی تحریر ہو یا کسی بڑے سے بڑے لکھاری کی ہو، اخبار میں چھپی ہے تو اگلے دن اس پر نان چنے یا پکوڑے ہی کھائے جانے ہیں۔ وہ تحریر جس کی زندگی ہی بارہ گھنٹے ہو اس کے لیے آپ ایک ماں کا لحاظ بھی نہیں کرتے جس کا جوان بیٹا مرا ہے؟ اس باپ کا کوئی غم نہیں جس کے بڑھاپے کا سہارا مٹی میں مل گیا، اس بھائی کی کوئی پرواہ نہیں جس کا بازو کٹ گیا اور اس اولاد کا رنج تو آپ کو ہو گا ہی نہیں جس کے آئیڈیل اس کے بابا تھے، نہ اس بیوہ کے بین آپ کے کانوں تک آئیں گے جس کے جوانا مرگ شوہر کی ساری زندگی کی نیک نامی آپ نے اپنے ایک کالم میں ادھیڑ کر رکھ دی؟

جسے آپ گناہ اور غلط صحبت کا نتیجہ کہتے ہیں وہ کئی انسان روز کرتے ہوں گے۔ ان میں سے کئی سول سوسائٹی میں ہوں گے، کئی کاروباری ہوں گے، کئی نوکری پیشہ ہوں گے اور کئی سیکیورٹی اداروں سے وابستہ ہوں گے۔ جس کی خبر ملے گی اس کے چیتھڑے اڑانا ایک صالح صحافی کا فرض ہو گا، لیکن جس ادارے کے آگے صحافی کے پر جلتے ہوں گے اس کے کسی عہدے دار کا موت کے پچاس برس بعد بھی ذکر قلم کی نوک پر نہیں آئے گا، یہی شاید جدید صحافتی اخلاقیات ہیں۔

ہر انسان کی چند ذاتی ترجیحات ہوتی ہیں۔ زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کے چکر میں آپ بھی کئی دفعہ گناہ و ثواب کے دائرے سے آگے بڑھے ہوں گے، نشہ نہ سہی، اس میں دھت ہو کر ناچنا نہ سہی، بند کمرے میں کوئی گناہ تو آپ نے بھی کیا ہو گا جو صرف آپ جانتے ہیں۔ اگر ہم میں سے کسی کی بھی ایسے کسی واقعے کی ویڈیو بن جائے اور وہ کبھی بھی دوسرے لوگوں تک نہ پہنچے تو بھی ساری زندگی دھڑکا لگا رہے گا یا نہیں؟ تو مذکورہ رپورٹ کے مطابق اگر اس غریب پولیس افسر سے ایک غلطی ہو گئی اور اس کا کفارہ بھی اس نے اپنی موت کی صورت میں ادا کر دیا اور انکوائری کمیٹی ممبران نے بھی رپورٹ پبلک نہیں کی تو ایک صحافی کو یہ کس حد تک زیبا ہے کہ وہ انسانی کردار کی عظمتوں کے تخت پر براجمان ہو کر ایک مرنے والے کی کہانی سے سبق آموز نتیجے نکالتا پھرے، اس کی نسلوں کو اپنی ریڈر شپ کے زور پر بدنام کر دے، فیصلہ آپ کا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments