انسانی معاشرہ: تاریکی سے روشنی کا سفر


\"muhammadانسانی معاشرے کا ظہور انسانی دماغ کی نشو و نما کا نتیجہ ہے۔ اس عمل کا جب قدرت نے آغاز کیا ہے تو یہ جاری بھی رہے گا اور چونکہ سماج اور انسانی دماغ کا سفر متوازی اور متعلق ہے تو یہ توقع بھی بے جا نہیں کہ معاشرتی ارتقاء کا جاری رہنا ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ جب لوگوں نے باہمی تعاون کی ضرورت کو محسوس کیا تو پھر گروہی زندگی کی ابتدا ہوئی۔ آج کا انسان ماقبل تاریخ کے آدمی سے کیسے مختلف ہے؟ کیا یہ فرق صرف شکل و صورت کا کوئی فرق ہو سکتا ہے یا پھر کوئی مزید پیچیدہ فرق بھی ہے؟ جدید طرز تعمیر سے استفادہ حاصل کرنے والا انسان اس غار کی زندگی والے انسان جیسا نہیں ہے۔ مگر آج کے انسان کا مقام اس انسان کی ابتدائی کوشش کا نتیجہ ہے۔

یہ تمام فکری ارتقاء کے مراحل تھے جنہیں طے کرنے کے بعد انسان کی رسائی اس عہد تک ممکن ہوئی۔ انسان کی بقا کی جدو جہد ہی در اصل اس کی سماجی زندگی کی نشوو نما میں مددگار ثابت ہوئی۔ یہ سب زندگی کو آگے بڑھانے کی ضرورت کے تحت ہی ممکن ہوا۔ انسانی نفسیات کا علم جسے رجعتی معاشروں میں زیادہ اہمیت نہ دی گئی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ نفسیاتی عوارض کو پسماندہ سوچ نے ایسے تصورات کے ساتھ جوڑ دیا جو کبھی حل دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ نفسیاتی علم کے بارے ہزاروں سال پہلے جو خیالات تھے کہ یہ کوئی بدروحانی یا جادوئی معاملہ ہے آج بھی کسی نہ کسی طرح اسی فکر کے پیروکار موجود ہیں۔ ارتقائی نفسیات کا انسانی ذہن کو جاننے کے لئے اس کے نشوونما کی تاریخ و توارث سے واقفیت حاصل کرنا ضروری رہا ہے۔ فکر کے فروغ میں ذہنی بالیدگی کے کردار کے ساتھ ساتھ \”جینیات\” پہ زیادہ زور اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کا تعلق نسل بہ نسل خواص کے ساتھ ہے۔

گروہی زندگی کا تجربہ کوئی انوکھا کام نہیں تھا کیونکہ بہت سی انواع اس تجربے سے گزر رہی ہیں مگر انسان کو قدرت نے ایسی صفات سے نواز رکھا ہے کہ جنہوں نے اس جاندار کو ممتاز ہونے کا شرف عطا کیا۔ سماج کو جوڑ کر رکھنے جیسی صلاحیت سے لے کر انسانی فلاح جیسی اجتماعی سوچ اور حتیٰ کہ اس سے بڑھ کے کچھ کرنے کا حوصلہ انسان کو ہی حاصل ہوا ہے۔ انہیں انسانی صفات نے \”ثقافت\” کو جنم دیا اور یہی فرق دوسری انواع اور انسانی گروہی زندگی کو جدا کرتا ہے۔ اسی کی بدولت ہم سماجی زندگی اور انسانی سماج کی نوعیت کو سمجھ سکتے ہیں۔

جس سماج کا ہم حصہ ہیں اس میں جن معاشرتی رویوں کا سامنا ہے زیادہ تر وہی رویئے ہم پلٹا دیتے ہیں یا پھر ویسے ہی رویوں کو موافق سمجھ کے اختیار کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح جو ہم حاصل کرتے ہیں لگ بھگ ویسی ہی ترسیل کر رہے ہیں۔ اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ رویوں کی نشوونما میں ہماری شعوری کو ششیں جس قدر ہونی چاہئے اس قدر نہیں ہیں اب ہم وقت پہ انحصار کر رہے ہیں کہ کوئی جنیاتی تبدیلی نسلی ارتقاء میں کہیں وقوع پزیر ہو تو نئی سماجی شکل ابھرے جو غیر متشدد اور برداشت جیسے رویوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اعتراضات کا جواب دینے میں ہماری بے رحمی اس قدر ہے کہ ہم قطعی گوارا نہیں کرتے کہ کوئی ہماری علمی حیثیت پہ سوال اٹھائے اور یہ شدت ایک پڑھی لکھی اکثریت سے لے کے ان پڑھ سوچ تک ایک ہی موقف اور رجحان کی شکل میں ملتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہم تنقید کے اتنے خوگر واقع ہوئے ہیں کہ دعوت ملنے کی دیر ہے یوں تیا پانچا کریں گے کہ دوبارہ کچھ کہنے، کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ ہمارے اندر سیکھنے کی کمی انہی \”رویوں\” کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ یا تو ہم نے دماغ کے در بند کر کے کنڈی لگا دی کہ اس میں جو کچھ ہے اس کی بہتات اتنی ہے کہ مزید گنجائش نہیں یا پھر گنجائش ہو نے کے باوجود اپنی علمی فضیلت کے جھنڈے کو بلند مقام پہ لگانا ہے۔ جن معاشروں نے علمی میدان میں اپنے جو ہر منوائے ہیں ان کے کارناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے سماجی دریافت سے سیکھا اور اہمیت دی اس کے علاوہ یہ کہ باقاعدہ تحقیق کو جاری رکھ کے اس پہلو کو مزید سمجھا۔ ہم گھنٹوں کے حساب سے \”فن ٖ\”Fun کرنے جیسے مغربی رویئے کو اپنانے میں پہل کرتے ہیں بلکہ اس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے کہ وہ ہمارا رواج بن جاتا ہے مگر مغرب کی تحقیقی عادت کو اختیار کرنے میں ہمیں بوریت محسوس ہوتی ہے یا پھر ان کے سماجی ارتقاء کے محرکات کو جاننے کا ہمارے پاس وقت نہیں اس میں دلچسپی کا وہ سامان نہیں جو ہمیں مقصود ہے۔ تفریح طبع کے لئے ہم ہر کو شش کر سکتے ہیں لیکن علمی اور عملی کاموں میں ہماری وہ لگن نہیں۔ سماجی شعور کو ہم نے وقت کے مرہون منت کر دیا ہے کہ جب حالات ساز گار ہوں گے تو شعور پختہ ہو جائے گا۔

دو حقائق جنہوں نے انہی رویوں کی بدولت اپنی جگہیں اور مقام بدلے آٹھویں صدی سے تیرھویں صدی تک \”اسلام\” کا پھیلائو ایک حقیقت ہے، بلاشبہ اسلامی معاشرت و ثقافت کو اس زمانے میں بہت فروغ ملا۔ تین بر اعظموں تک کی وسعت ایک بہت بڑی طاقت شمار کی جا سکتی ہے۔ بغداد تجارتی او ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل کر چکا تھا۔ اس دور کی علمی حاصلات میں، حساب، الجبرا، علم جیومیٹری، سائنس، میڈیسن، فلک شناسی، تشریح الا عضاء جیسے علوم کا شمار ہوتا ہے۔ فنی تعلیم ہندی عربی ہندسے اس دور میں متعارف ہوئے۔ ادب اور شاعری اور موسیقی کے میدان میں بھی کامیاب پیش رفت ہوئی۔ تمام علوم کے مقامی زبان یعنی عربی میں ترجمے ہو رہے تھے۔

یہی عہد یورپ کا تا ریک دور کہلاتا ہے اور اس کی وجہ جہالت، پسماندگی اور علمی و فکری سرگرمیوں کی باقاعدہ شکل موجود نہ تھی۔ جنگی جنون اور چرچ کی طرف سے خوف کے ہتھیار کے استعمال نے فکر پہ پہرہ لگا رکھا تھا۔ رومن سلطنت کے زوال سے لے کر صلیبی جنگوں کے اختتمام تک یورپی پسماندگی نے اس عہد کو روشنی سے دور رکھا۔۔ یورپ اور جاپان دونوں میں جاگیر داری کا ڈیرہ تھا۔ اس وقت بھی ایک خاص طبقےکو نوازنے کا بندبست تھا تا کہ وہ نچلے درجے کے کسانوں سے کام لے سکیں اور فوجی خدمات کو یقینی بنا سکیں۔ چرچ کی نت نئے انداز سے تعمیر ہو رہی تھی جبکہ علمی تر جیحات کی طرف دھیان نہیں گیا۔

پھر یہ دونوں حقائق اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں اور منگولوں کے بغداد پہ حملے کے بعد اس سنہرے دور کا اختتمام ہوتا ہے اور یورپ کی علمی و فکری بڑ ھوتری کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ اس سب میں ایک پہلو سب سے زیادہ اہم ہے کہ تغیر و تبدل سماجی ترقی میں ایک حتمی حیثیت رکھتا ہے اور جو قومیں اپنے رویوں کو لچک دار نہیں بناتیں یا بدلتی حقیقت کو اپنے روائیتی انداز سے رکھنا اور دیکھنا چاہتی ہیں وقت ان کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتتا کیونکہ وقت نے تو ضرور بدلنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments