پاکستان کی کشمیر پالیسی آخر ہے کیا


\"anas\"21 سالہ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلسل مظاہروں، ہڑتالوں، شہادتوں، قربانیوں اور کرفیو کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کے اس نئے باب میں جو مثالیں قائم کی گئیں ہیں اس کی ماضی قریب میں نظیر ملنا مشکل ہے۔ ایک طرف نہتے مظاہرین کو \”پیلٹ\” گن سے بینائی سے محروم کرنے کا سلسلہ ہے تو دوسری طرف مظاہرین کی طرف سے آزادی کے حق میں مسلسل نعرہ بازی ہے، ایک طرف ابرہہ کے ہاتھیوں کی صورت سیکورٹی فورسز کے جتھے ہیں تو دوسری طرف نوجوان ابابیلوں کے جھنڈ کی صورت ہاتھوں میں کنکر پتھر اٹھائے ہوئے ہیں۔ دونوں طرفین کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن ابابیلیں ہاتھیوں کے لشکروں پر پتھر برسائے چلی جارہی ہیں۔ انتظار صرف فیصلے کی گھڑی کا ہے۔

ریاست جموں کشمیر کے ایک حصے میں کشمیری حریت پسندوں کی قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم ہو رہی ہیں تو دوسری طرف اب الیکشن کی گہما گہمی ختم ہو کر حلف برداری کے سلسلے ہیں۔ ادھر پاکستان میں اگرچہ ہر طبقہ ہائے زندگی نے کشمیریوں پر تازہ ترین مظالم کی پر زور مزمت کی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان مظفر آباد جا کر پرجوش خطاب بھی کر چکے ہیں اور ان کے حکم پر یوم سیاہ بھی پرجوش انداز میں منا لیا گیا ہے۔ کابینہ کے اجلاس بھی مسئلہ کشمیر پر منعقد ہو چکا ہے، کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے کور کمانڈرز کانفرس بھی ہو چکی ہے۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بھی کروانے کا شرف حاصل کیا ہے۔ ہر روز اخبار میں کسی نہ کسی تنظیم، فرد، ادارے کی طرف سے کشمیریوں کے حق میں مظاہرہ کی ایک /دو کالمی خبریں بھی اخبارات کی زینت بن رہی ہے۔ لیکن ایک چیز جو کم از کم میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان کی کشمیر پر پالیسی ہے کیا؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے قانون ساز ادارے کی قائمہ کمیٹی برائے کشمیر کے گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل چئیرمین مولانا فضل الرحمن منظر عام سے بالکل غائب ہیں۔ دھرنا ہو یا پانامہ لیک، مارشل لاء ہو یا NRO موصوف اپنی سیاسی \”بصیرت\” کے باعث ارباب اقتدار میں یکساں مقبول ہیں لیکن جس مسئلہ پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی سربراہی سنبھالے ہوئے ہیں اس حوالے سے آج تک ایک لفظ بھی پالیسی کی صورت میں پاکستانی عوام اور خواص کے سامنے نہیں آ سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان میں اور پاکستان سے باہر سب سے زیاد نقصان پہنچانے والی شخصیت بدقسمتی سے مولانا فضل الرحمن کی ہے۔

ہمارے کچھ دوست شاید قائداعظم محمد علی جناح کےاس مشہور قول \”کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے\” اس کو دہرانے سے گھبراتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالسیی کی بنیاد قائد اعظم کا یہ فرمان ہی ہونا چاہئے۔ غالبا گزشتہ سال آرمی چیف نے 6 ستمبر یوم دفاع کے موقع پر اپنے خطاب میں کشمیر کے بارے میں لازوال الفاظ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ \”مسئلہ کشمیر برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے\”۔ ویسے تو وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ مظفر آباد کا خطاب بھی تاریخی تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک ان بیانات کی روشنی میں کوئی پالیسی کشمیر پر وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہماری ادھوری کوششوں، نامکمل سوچون اور عارضی کاوشوں نے سب سے زیادہ نقصان مسئلہ کشمیر کو پہنچایا ہے۔ ہم کشمیر کے مسئلہ پر گومگو کیفیت کا شکار ہے اور اس سے نکلنے کے لئے تیار بھی نہیں۔ اسی وجہ سے جب ہم مسئلہ کشمیر پر دوست ممالک سے حمایت کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کی طرف سے بھی پس و پش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کی طرف سے کشمیر پر واضح پالیسی کا عدم وجود برہان وانی کے بعد کی صورتحال نے بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ مسلسل مظاہروں کا چوتھا ہفتہ شروع ہے اور پاکستان کی طرف سے نمائشی بیانات، روایتی پریس ریلیز اور رٹے ہوئے الفاظ ہی دہرائے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکومت اور ادارے باہم مشاورت کر کے کشمیر پر واضح پالیسی مرتب کریں جس کی روشنی میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو تقویت پہنچائی جا سکے۔ ایسی پالیسی جو موجودہ عالمی حالات کے ساتھ میل کھاتی ہو اور جس کے نتیجے 7 دہائیوں سے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے کشمیریوں کو سکھ کی سانس میسر آ سکے۔ اگر خدانخواستہ ہم کشمیر پر ہم بحیثیت قوم کوئی پالیسی مرتب کرنے میں ناکام رہے تو اس کے دور رس اثرات نہ صرف کشمیریوں پر بلکہ پاکستان پر بھی مرتب ہونگے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments