خون سے رنگے ہاتھوں کی رنگولی


\"zafarسوچا تھا کسی اچھی خبر سے آغاز کرتے ہیں۔ اخبار کے ماتھے پر اچھی خبر تلاش کرنا اب ایسا آسان بھی نہیں رہا۔ ایک امید بندھتی ہے۔ ٹوٹتی ہے اور پھر بندھ جاتی ہے۔ دکھوں کے سیل رواں ہیں کہ اس دھرتی سے منہ موڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ گھوٹکی میں توہین مذہب کے الزام میں مندر پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی اور ایک معصوم ہندو بچے کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اس پر مکیش میگھواڑ نے سوال پوچھا ہے کہ بھائی، ’ کیا تمہارا خون لال ہے اور میرا خون سفید ہے؟ خون ایک ہے، دھرتی ایک ہے، آسمان ایک، اوپر والا ایک، لوری ایک، زبان ایک، رنگ ایک، وطن ایک، تہذیب ایک، ثقافت ایک، پھر کیسے میں تمہارا دشمن بن گیا‘۔ یہی کرب حسن معراج کے لہجے میں ہے۔ اسے ڈر ہے کہ مٹھی کے انیل اور مہیش جو سب کو اپنا سمجھتے تھے۔ شکر الحمد اللہ سے کلام کرتے تھے۔ ان کو اس بات کا پتہ نہ چلے۔ وہ کیا سوچیں گے کہ یہ کیسے اپنے ہیں۔ اب فرنود عالم کامریڈ واحد بلوچ کا دکھ روتا ہے۔ دیکھنے والی آنکھ غور کرے تو زندگی کی گاڑی کسی فاسٹ فارورڈ فلم کی طرح دوڑتی چلی جا رہی ہے۔ دھرتی پر دکھوں کا سورج مگر سرخی مائل ہے اور آہستہ خرامی سے غروب ہوتا جا رہا ہے۔ لاشوں کا حساب البتہ بے حساب ہے۔ انسانی لاشوں پر پلنے والے وطن عزیز کی مٹی میں سرکنڈوں کی طرح خودرو ہو چکے ہیں۔ جس طرف نظر اٹھاﺅ بندوق اور بارود پر پلنے والے لاشیں نوچ رہے ہیں۔ مذہب، زبان، وطن، سیاست، امارت ، غیرت ایسا کونسا اجتماعی لاحقہ یا سابقہ رہ گیا ہے جو لاشیں گرانے کا عنوان نہ بنا ہو؟ ہتھیار، باردو، تشدد اور دکھ کا کونسالمحہ ہے جو اس خانہ انوری پر نہیں گرا۔ لڑنے والے بے خبر ہیں کہ انہوں نے بندوق کیوں اٹھائی ہے؟ انہیں صرف اپنے فرقے، اپنی زبان، اپنے وطن، اپنی جماعت کی بالادستی کا خواب دکھایا گیا ہے۔

محمد رسول ہزارہ ٹاﺅن میں خودکش حملے کے بعد اسلام آباد ہجرت کر چکے ہیں۔ ایک دن پوچھنے لگے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا عقیدہ درست ہے یا غلط لیکن یہ عقیدہ مجھے اپنے پرکھوں سے میراث میں ملا ہے۔ پچھلے تیرہ صدیوں سے میرے پرکھوں کے یہی عقائد رہے ہیں۔ گزشتہ تیس برس سے ایسا کیا نیا جڑ گیا میرے عقائد میں جس نے میرے بچوں کو واجب القتل ٹھہرایا؟ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہ ہو لیکن تیرہ صدیوں کے پرانے اختلافات پر ابھی تک دلائل کا بازار گرم ہے۔ ایک دوسرے کو راہ راست پر لانے کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ دلائل کے انبار ہیں جو ایک دوسرے پر پھینکے جا رہے ہیں لیکن نتیجہ نکل نہیں رہا ۔ لسانیت کی مکروہ سیاست کتنی جانیں کھا چکی ہے؟ ہزاروں لاشیں گر گئیں۔ کیا کراچی پر کسی ایک لسانی گروہ کا قبضہ ہوا یا کوئٹہ میں ایک گروہ کے جھنڈے پھڑپھڑا رہے ہیں؟ صالحین نے کس کس کے سنگ افغانستان میں جنگ نہیں لڑی؟ اگر یہ افغانستان کے آزادی کی جنگ تھی تو معلوم کرنا چاہیے کہ افغان قوم کس

\"A

آفاقی کج فہمی کی بنیاد تیس سال پہلے بھی اور آج بھی پاکستان کا نام نفرت سے لیتے ہیں۔ معلوم کرنا چاہیے کہ کابل کے بازاروں میں سبز ہلالی پرچم کیوں برسر بازار نذر آتش کیا جاتا ہے؟ خلافت کے بندوق برداروںکو معلوم ہونا چاہیے کہ وطن عزیز کے سینے میں انہوں نے کتنے خنجر گھونپے لیکن باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد قوم کے ستر سالہ بوڑھے اپنی زنگ زدہ 303 کی برطانوی رائفل لے کر سکولوں کے دروازے پر کیوں پہرہ دینے لگے؟ عزت داروں کو معلوم کرنا چاہیے کہ صائمہ سرور سے لے کر صائمہ شاہد تک کتنی بچیوں کو انہوں نے مارا اور زندہ جلایا۔ کل عاصمہ جہانگیر چلا رہی تھی۔ پھر سبین محمود چلائی۔ آج بھی اسلام آباد پریس کلب کے سامنے تین بچیاں ایک پوسٹر لئے کھڑی تھیں۔ سینے میں دل ہو تو پھٹ جانا چاہیے کہ آج ہماری بچیاں برسربازار کھڑی دہائی دے رہی ہیں ’ ہم انسان ہیں۔ ہمیں جینے کا حق دے دیں‘۔ قوم کی بچیاں اکیسویں صدی کو جینے کا حق مانگ رہی ہیں اور منبر پرمقررین فرماتے ہیں صدیوں پہلے لوگ بچیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ نذیر عباسی سے مولا بخش دشتی تک کتنے سیاسی کارکنوں کی لاشیں گرائی جا چکی ہیں؟ کیا عاصمہ جہانگیر اور افراسیاب خٹک نے آواز اٹھانی چھوڑ دی ہے؟دعا کرتے ہیں کہ کامریڈ صحیح سلامت اپنے گھر پہنچ جائے۔ دعا ہی کر سکتے ہیں۔ ہمارے بہت سے بھائی یوں غائب ہوئے اور پھر پلٹ کر نہ آئے۔ ہمارے دل دہلتے ہیں۔ مولا بخش دشتی یوں سر شام غائب ہوئے اور ان کی لاش ویرانے سے ملی ۔ مارنے والوں نے کتنی لاشیں گرائیں لیکن سوال کا حوصلہ چھین نہ سکے۔ گڑھی خدا بخش کے قبرستان کے ساتھ اب بھی لاکھوں دل دھڑکتے ہیں۔ طعنہ کا طنطنہ برا ہے لیکن عبرت کو ایک نظر جا کر دیکھ تو لیں کہ فیصل مسجد کے احاطے میں ایک قبر کتنی ویران پڑی ہے۔

 ریاستی منصب داروں کو مان لینا چاہیے کہ سچ پر کسی ایک فریق کا قبضہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ تقدیس کے ثنا خوانوں کو ماننا پڑے گا کہ اس ملک کا ہر شہری برابر کا انسان ہے اور مساوی حقوق رکھتا ہے۔ یہ بات ہم نے اپنے پرکھوں کی دانش سے سیکھی ہے۔ ہمارے پرکھوں نے ہمیں سکھایا تھا کہ علم جہالت سے افضل ہے۔ زندگی موت سے خوبصورت ہے۔ امن زندگی کی علامت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے لئے سانس لینے کی آزادی درکار ہے۔ ہمارا دشمن اندھا ہے لیکن ہمیں اپنے بچوں سے محبت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے لئے امن اور خوشی کے چند\"meraj-muhammad-khan-3\" پل خریدنے ہیں۔ خوشی کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے لیکن اس کے وقوع کے لئے امن لازم ہے۔ دیکھیے پروفیسر موہن سنگھ نے بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں اپنی نظم ’ امبی دے بوٹے تھلے‘۔ میں خوشی کی کیسے تصویر کھینچی ہے۔ نظم کیا ہے بس کلا کی مانگ میں سیندور بھرنا اسی کو کہتے ہیں۔ راوی کی محبتوں میں پلی ایک سہاگن صحن میں لگے آم کے پیڑ کے نیچے اپنے محبوب شوہر کی یادوں میں کھوئی ہوئی ہے جو جنگ عظیم میں سپاہی ہے۔ ہجر کے دکھ میں آم کے پیڑ کے سائے میں اس کابدن سلک رہا ہے۔ وہ یاد کرتی ہے کہ امن کے پلوں کیسے اس کا سوہنا بنجارا اسی پیڑ کے سائے میں اس کے پاس بیٹھا کرتاتھا۔ وہ چرخی کات رہی تھی۔ جب اس کا محبوب اسے جنگ کی باتیں بتاتے بتاتے سو گیا تھا۔ نظم بہت لمبی ہے لیکن سوتے ماہی کے بعد کی کیفیت خود پروفیسر موہن سنگھ کے بیان میں۔

تک ستا ماہی نی، چرخی دی چمرخ توں

میں کالکھ لاہی نی، جا ستے سوہنے دے

متھے تے لائی نی، میں کھل کے ہسی نی\"2222\"

میں تاڑی لائی نی، میں دوہری ہو گئی نی

میں چوہری ہو گئی نی، اوہ اٹھ کھلویا نی

گھبرایا ہویا نی، اوہ بِٹ بِٹ تکے نی

میں کِھڑ کِھڑ ہساں نی، اوہ مڑ مڑ پچھے نی

میں گل نہ دساں نی

تک شیشہ چرخی دا، اوس گھوری پائی نی

میں چنگی لائی نی، اوہ پِچھے بھجا نی

میں دیاں نہ ڈاہی نی، اوس مان جوانی دا

میں ہٹھ زنانی دا، میں اگے اگے نی

اوہ پِچھے پِچھے نی، منجی دے گِردے نی

نسدے وی جائیے نی، ہسدے وی جائیے نی

کوئی بڑی خواہش نہیں ہے۔ ہم نے اس دھرتی پرامن خواب دیکھا ہے۔ ہم اس دھرتی پراپنے بچوں اور بچیوں کے لئے ایک ایسی جنت کے آرزو مند ہیں جہاں وہ آم کے پیڑ تلے بیٹھ کر ہنس سکیں۔ نسدے وی جائیے نی، ہسدے وی جائیے نی ۔ راہوار بھلے تھک چکے ہوں لیکن جینے آس باقی ہے۔ پروفیسر موہن سنگھ کی ہیروئن آخر میں ایک پل کے لئے مایوس ہو تی ہے لیکن جینے کی امنگ اس کی امید قائم رکھتی ہے۔

اوہ کیہا دیہاڑا سی؟ اوہ بھاگاں والا سی\"FB_IMG_1469702500182\"

اوہ کرماں والا سی، جس شبھ دیہاڑے نی

گھر میرا لاڑا سی

اج کھان ہواواں نی، اج ساڑن چھاواں نی

ترکھان سداواں نی، امبی کٹواوِان نی

توبہ میں بھلی نی، ہاڑا میں بھلی نی

جے امبی کٹاں گی، چڑھ کِس دے اتے

راہ ڈھول دا تکاں گی؟

آم کا پیڑ کٹ جائے گا تو کس منڈیر پر چڑھ کر خوشی کے سروں کی راہ دیکھی جائے گی؟ اپنے بھائیوں، اپنے بیٹوں، اپنی بچیوں کو مار کر جینے والے زندگی کی بہاریں کس کے ساتھ بتانا چاہتے ہیں؟ ایسا کیونکر ممکن ہو گا کہ کسی کے آنگن کو خون سے نہلا کر اپنے آنگن میں رنگولی بنائی جائے گی؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments