ایک کروڑ پاکستانی بچوں کے قد اور دماغ چھوٹے ہیں؟


پاکستان بری خبروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور ہم “کمفرٹیبلی نمب” (comfortably numb) ہو چکے ہیں اور بری سے بری خبر بھی ہمیں کچھ زیادہ متاثر نہیں کرتی۔ لیکن یہ خبر کہ پانچ سال سے کم عمر کے ہمارے ایک کروڑ بچے اور بچیاں قد میں چھوٹے اور جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہیں، بہت ہی غیر معمولی ہے اور اس خبر نے بھی اگر ہمیں متحرک نہ کیا تو مستقبل کے اندھیرے ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ گہرے اور لمبے ہو جائیں گے۔ کیونکہ یہ ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ ان کمزور بچوں میں سے جو زندہ بچ جائیں گے وہ مستقل جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور اور بیمار رہیں گے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو سنبھالنا کسی بھی ملک کے لئے ممکن نہیں۔

اس بات کا اعلان کہ پاکستان میں ایک کروڑ بچے سٹنٹڈ (stunted) ہیں، ایک بین الاقوامی تنطیم واٹر ایڈ نے اپنی ایک رپورٹ (Caught Short) میں کیا ہے۔ یہ رپورٹ کچھ عرصہ قبل دہلی میں ریلیز کی گئی۔ خبردار کرتا چلوں کہ دہلی میں ریلیز ہونے کی وجہ سے ہم اس رپورٹ کو نامعتبر نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ رپورٹ کے مطابق انڈیا کی حالت بھی کچھ خاص اچھی نہیں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سال یا اس سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں میں آدھے چھوٹے قد اور کمزوری کا شکار (stunted) ہیں۔ ایسے بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر انڈیا اور دوسرے نمبر پر نائجیریا ہے۔ یاد رہے کہ سٹنٹڈ (stunted) بچوں کے تناسب کے اعتبار سے انڈیا ہم سے بہتر ہے مگر بڑا ملک ہونے کے ناطے سے سٹنٹڈ بچوں کی کل تعداد کے حوالے سے وہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

اس رپورٹ میں 132 ممالک کے سٹنٹڈ (stunted) بچوں کے متعلق اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں۔ بچوں میں اس پرابلم کے تناسب کے حوالے سے پاکستان بدترین ملکوں میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے دس بد ترین کارکردگی والے ممالک میں کوئی بھی ہمارا جنوبی ایشیائی ہمسایہ نہیں ہے۔ اور ہاں یہ تو بغیر بتائے بھی آپ کو پتا ہی ہو گا کہ پہلے دس بد ترین کارکردگی والے ممالک میں صرف ہم ہی ایک عظیم نیوکلیر قوم ہیں۔

اس مسئلے کی اہک فوری وجہ تو خوراک کی کمی، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور ٹائیلٹ اور صفائی ستھرائی کا مناسب نظام نہ ہونا ہے۔ ان معاملات کو تو فوری طور ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو بچے اس وقت اس پرابلم کا شکار ہو چکے ہیں ان کی مدد کر کے مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ اور ہر روز جو نئے بچے اس مسئلے کا شکار ہو رہے ہیں ان کو بچایا جا سکے۔ لیکن اس مسئلے کا دور رس اور قابل عمل حل نکالنے کے لئے ہمیں معاملات کو اس سے کہیں آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی ایک کروڑ بچیاں اور بچے پیدائش کے وقت اپنی روزی اپنے ساتھ لانا بھول گئے۔ لہٰذا اب ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ اور جو بچے اپنے خوراک کا پیک ساتھ لے آئے ہیں وہ بھی شاید پینے کا صاف پانی، ٹائیلٹ اور نکاسی کا پورا بندوبست ساتھ نہ لا سکے ہوں۔ کھیل کود، صحت اور تعلیم کی ضروریات بھی شاید روزی پیکج کا حصہ نہیں تھیں۔ بحیثیت معاشرہ ہم نے اس تصور کو غلط سمجھا کہ ہر بچہ اپنی روزی اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اس بات کے کچھ نئے معانی نکالنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم یونہی اپنے وسائل کو مدنظر رکھے بغیر بچوں کی تعداد میں اضافے پر جتے رہیں گے اور پھر ان کے لئے خوراک، رہنے کی معقول سہولیات سے آراستہ گھر، کھیل کود، صحت، تعلیم، اور دوسری ضروریات پوری کرنے کے لئے آسمانوں کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ دراصل یہ بنیادی ضررتیں بچوں کے بنیادی انسانی حقوق ہیں اور انہیں مہیا کرنا کسی نہ کسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس میں سب سے پہلا فرض والدین کا ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پا رہے تو پھر یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ کوئی بھی سٹیٹ اتنے زیادہ بچوں کی ذمہ داری نہیں پوری کر سکتی جتنے ہم پاکستان میں پیدا کر رہے ہیں۔ عملاً، سٹیٹ ان بچوں کی ذمہ داری لے سکتی ہے جن کے والدیں موت، حادثے یا کسی اور ان دیکھی مصیبت کہ وجہ سے بچوں کو پالنے کی ذمہ داری پوری نہ کر پا رہے ہوں۔

ایسی صورت حال جس میں لوگوں کے پاس اپنے موجودہ بچوں کو پالنے کے لئے وسائل نہ ہوں اور مزید بچے پیدا کرتے جا رہے ہوں تو سٹیٹ کی ذمہ داری کچھ اور بنتی ہے۔ ایسی صورت حال میں سٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی تعلیم و تربیت کرے اور انہیں سہولیات مہیا کرے تاکہ وہ اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اپنے فیملی سائز کو کنٹرول کر سکیں۔ ہماری جکومت یہ ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔ اس سلسلے میں ایک اہم کام عورتوں کو بااختیار بنانا ہے۔ اس پرابلم کا زیادہ بوجھ انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے اس لئے وہ بہتر سوچتی ہیں اور تبدیلی کی طرف آسانی سے اور جلدی راغب ہوتی ہیں۔ یہ پالیسی ترقی اور تبدیلی کی رفتار کو تیز کرتی ہے۔ اور ویسے بھی اگر انسانی حقوق کو مدنظر رکھا جائے تو عورت کی بچہ دانی کی ملکیت اور اس پر اختیار تو ہر عورت کا اپنا ہی ہونا چاہیئے۔

اگر ہم اپنی اگلی نسل کو اپنے سے بہتر زندگی جینے کا موقع دینا چاہتے ہیں تو اس معاملے کو ایمرجنسی کے طور پر لینا ہو گا ورنہ ہر اگلے دن اندھیرے امیدوں کو چاٹ رہے ہیں اور ہر طرح کی آسودگی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments