برہان وانی اور کشمیر ۔۔۔۔ ڈاکٹر نائلہ خان سے گفتگو (2)


\"lubnaمیں‌ ایک اینڈوکرنالوجسٹ‌ ہوں۔ اینڈوکرنالوجی ہارمونز سے متعلق بیماریوں‌ کے بارے میں‌ تعلیم کو کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ نفسیات میں‌ بھی ہاؤس جاب کی تھی۔ آج کل دنیا میں‌ جو بدامنی کی وبا پھیل گئی ہے اس سے میں‌ نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ہم اپنے بچوں‌ کو اس طرح‌ کے انجام سے کیسے بچائیں۔

دشمن بڑے بھی ہیں اور طاقت ور بھی۔ ایک چڑیا بھی اپنے بچے بچانے کے لئے بڑے اژدہے سے الجھ جاتی ہے تو ہم اپنے بچوں‌ کو بچانے کے لئے کیوں‌ کھڑے نہیں‌ ہوسکتے؟

انسانی زندگی میں‌ ایک مشکل وقت نوجوانی کا ہے۔ 12 سے 18 سال کی عمر کے دوران یہ بچے جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں‌ سے گذر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ایسا بھی محسوس کرتے ہیں‌ کہ کوئی ان کو نہیں سمجھتا۔ یہ وہ وقت ہے جس میں‌ وہ بچپن چھوڑ کر بلوغت میں‌ قدم رکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران ان کے جسم میں‌ ٹیسٹاسٹیرون یا ایسٹروجن ہارمونز کا لیول بہت زیادہ ہوتا ہے اور ان کو بات بات میں‌ غصہ بھی جلدی آتا ہے، وہ چڑچڑے ہوتے ہیں۔ اس فیز میں‌ یہ بغاوت، بد تمیزی، نشے کی علت، ڈپریشن اور بے چینی کا شکار باآسانی ہو سکتے ہیں۔ ان جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں‌ کے دوران وہ اپنی جنسیت کو بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ میری ڈاکٹر نائلہ خان سے گفتگو کا دوسرا حصہ ہے۔ ڈاکٹر نائلہ خان انگلش لٹریچر میں‌ پی ایچ ڈی ہیں، وہ شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں اور اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگریزی ادب کی پروفیسر ہیں۔ انہوں‌ نے کئی کتابیں‌ لکھی ہیں جن میں‌ “لائف آف کشمیری وومن” (کشمیری عورت کی زندگی) شامل ہے جو کہ ان کی نانی کی زندگی سے متعلق ہے۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں‌ شیخ‌ محمد عبداللہ کشمیر کے پہلے مسلمان پرائم منسٹر تھے۔

لبنیٰ مرزا: نائلہ یہ بتائیں کہ جنوب ایشیائی خواتین دنیا میں‌ امن اور انسانی زندگی میں‌ بہتری کے لئے کیا کردار ادا کرسکتی ہیں؟

نائلہ خان: میں‌ یہ سمجھتی ہوں‌ کہ پڑھی لکھی مسلمان خواتین ہونے کے ناتے ہمارا نہ صرف حق ہے بلکہ فرض بھی کہ ہم سماجی، سیاسی اور معاشرتی میدانوں‌ میں‌ قدم بڑھائیں‌ اور اپنے بچوں‌ کو ایک مثبت راہ دکھائیں۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ مذہب اسلام کو برقعہ اور جہاد تک محدود کر دیا گیا ہے اور اس کی مثبت تفہیم میں‌ ترقی کی ضرورت ہے۔ خواتین کو منظم ہو کر ایفسپا (AFSPA) یعنی کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے ظالمانہ قانون میں‌ ترمیم کا مطالبہ کرنا ہوگا جس کے ذریعے متنازع علاقہ جات میں‌ مسلح افواج سزا سے مستثنیٰ قرار دے دی جاتی ہیں۔

\"nylaاس وقت ہمیں‌ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر نے پچھلے 26 سال میں‌ کافی خراب حالات دیکھے ہیں‌ اور وہاں‌ بہت اموات ہو چکی ہیں۔ اس وقت ہمیں‌ ایسی نسل کی ضرورت ہے جو کشمیر کو دوبارہ کھڑا کر سکے۔ اس وقت ہمیں‌ ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوان زندہ اور سلامت رہیں۔ ہمارا مقصد کشمیر کی سلامتی اور بھلائی ہے۔ ہمیں‌ اپنے دشمن سے نفرت سے زیادہ اپنے بچوں‌ سے محبت کرنا ہوگی، ان کی تمام ضروریات اور خواہشات کو سمجھنا ہوگا تاکہ وہ اپنی زندگی سے محبت کریں۔ تمام جنوب ایشیائی ماؤں‌ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے بچوں‌ کی زندگی کو سیاسی تنظیمیں‌ اپنے مقاصد کے لئے ضائع نہ کرسکیں۔

لبنیٰ مرزا: مجھے یہ بتائیں کہ کیا وجہ ہے کہ کافی لوگ گھروں‌ سے نکل آئے اور مظاہرے کرنے لگے جبکہ کشمیر میں‌ بہت فوج ہے اور لوگ جانتے بھی ہیں‌ کہ ایسا کرنے سے اموات ہوں گی؟ ان لوگوں‌ کو کون اکسا رہا ہے؟ اب اگر یہاں‌ اوکلاہوما کیپیٹل بلڈنگ کے پاس مظاہرے ہو رہے ہوں‌ اور مجھے معلوم ہو کہ وہاں‌ جانے سے میرے بچے مر سکتے ہیں‌ تو ہم تو ان کو نہیں‌ جانے دیں گے۔ احتجاج کرنے کے پر امن راستے بھی ہو سکتے ہیں۔

نائلہ خان: ہاں‌ بالکل جو بھی عناصر اپنے فائدے کے لئے شورش پھیلا رہے‌ ہیں‌ ان کو اور عام شہریوں‌ کو ذمہ داری کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تمہاری اور میری طرح‌ نوکری کرنے والے لوگ، محنت کرنے والے لوگ اور ان نوکریوں‌ سے اپنے گھر چلانے والے لوگ پر امن ماحول کو ہی ترجیح دیں گے تاکہ اس میں‌ ہم سکون سے اپنا کام بھی کر سکیں‌ اور اپنے بچے پال سکیں۔ کچھ لوگ ہیں‌ جو معاشرے میں‌ انتشار پھیلا کر فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہمارے بچے کے مر جانے کی کوئی اہمیت نہیں‌ ہے۔ وہ مزید لڑکے بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سے سیاستدان عوام کا موڈ دیکھتے ہیں اور اس کے لحاظ سے بیان بازی میں‌ لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر لوگ جذباتی ہو رہے ہوں‌ تو ان کو ہوش و حواس اور امن قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان تمام تنظیموں‌ پر چاہے ان کا ایجنڈا جو بھی ہو، عام شہریوں‌ کی زندگی محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ہے۔ ان سے میں‌ یہ کہنا چاہتی ہوں‌ کہ آپ لوگوں‌ کو شطرنج کے مہروں‌ کی طرح استعمال نہ کریں۔ ہر انسان کی جان قیمتی ہے اس کے اپنے لئے بھی اور اس کے خاندان کے لئے بھی۔

لبنیٰ مرزا: کافی سارے نوجوان برہان وانی کی تصویر اپنی پروفائل فوٹو بنانے لگے اور کشمیر میں‌ جو حالیہ اموات ہوئیں ان کی تصویریں \"1267078\"شئیر کرنے لگے تو فیس بک نے وہ اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیے۔ اس بات کی وجہ سے کافی غصہ پایا گیا اور لوگوں‌ نے فیس بک کو انڈیا کا حامی بھی کہا اور یہ بھی کہ وہ کشمیریوں پر ہونے والے ظلم اور زیادتی کو چھپا رہے ہیں۔

نائلہ خان: آج کل کے زمانے میں‌ ایسا ہونا ممکن نہیں‌ ہے کہ کسی علاقے کو مکمل طور پر باقی دنیا سے کاٹ دیا جا سکے۔ جو بھی پابندیاں ہیں، معلومات بہرحال نکل رہی ہیں۔ لوگوں کو پتا چل رہا ہے کہ وہاں‌ کیا حالات ہیں۔ ایک وقت ہوتا ہے جب قوم پرست بغاوت کی جاتی ہے لیکن پھر وہ باغیانہ قوم پرستی وقت کے ساتھ تعمیری قوم پرستی میں بدلنی چاہئے۔ کشمیر کسی ایک زبان، ایک نسل یا ایک مذہب کی جاگیر نہیں‌ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ انٹرنیشنل کمیونٹی ہمارا ساتھ دے تو ہمیں اس جدوجہد کو مذہبی نہیں بلکہ انسانی جدوجہد کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔

ہمیں‌ یہ سمجھنا چاہئے کہ کشمیر میں‌ جتنے بھی گروہ ہیں ہمیں‌ ایک دوسرے سے بات کرنی ہے۔ ایک مشترکہ رائے بنانی ہے۔ اس کے بغیر ہم آگے نہیں‌ بڑھ سکتے۔ اس وقت اگر ہم اس باغیانہ قوم پرستی میں‌ پھنسے رہیں گے اور ہمیشہ ہماری ذہنیت قیدی بنی رہے گی تو یہ پرتشدد دائرے کا سفر جاری رہے گا۔ ایک قومی ریاست کو کچھ فرق نہیں‌ پڑے گا، وہ اپنے فوجی بھیجتے رہیں گے۔ ان کا دفاع قائم رہے گا۔

ایک قومی ریاست کو ایک دشمن کی ضرورت رہتی ہے تاکہ وہ اپنی طاقت دکھائے۔ ایک وقت تھا جب امریکہ کو کمیونزم کی ضرورت تھی جس سے وہ جنگ کرے۔ اس دشمن کے رہنے سے قومی ریاست بھی زندہ رہتی ہے اور اپنی موجودگی دکھاتی ہے۔

لبنیٰ مرزا: تو ان بچوں‌ سے اس عفریت کو زندہ رکھا جا رہا ہے؟

نائلہ خان: تو اس لئے انڈیا ہو یا پاکستان، جہاں‌ بھی بغاوت ہو، وہ ان لوگوں‌ کو مار دیتے ہیں اور ان ممالک کو کچھ فرق نہیں پڑتا بس وہ مانسٹر فیڈ ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے پڑھے لکھے لوگوں‌ کی ذمہ داری ہے کہ ان بچوں‌ کی توانائی کو تعمیر میں‌ لگائیں۔

لبنیٰ مرزا: یہ بات انفرادی طور پر سب کو سمجھنی پڑے گی۔ ایک مرتبہ میں‌ نے ٹی وی پر دیکھا کہ لڑکے کراچی میں‌ باہر سڑکوں‌ پر نکلے \"IndiaKashmirProtestہوئے ہیں، پتھر پھینک رہے ہیں ‌اور گاڑیاں‌ جلا رہے ہیں۔ ان میں‌ سے ایک لڑکا مر گیا تو اس کی ماں‌ ٹی وی والوں‌ سے کہتی ہے کہ میرا بچہ مذہب کی ناموس کے لئے قربان ہوگیا؟

نائلہ خان: ہاں‌ بالکل ہمارے لوگوں‌ کو خود بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح‌ زندگی کو سستا نہ سمجھیں۔ ایک سیاسی عمل کو زندہ لوگوں‌ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کافی لوگ اپنی جان دے چکے ہیں۔ کشمیر میں‌ بہت سے قبرستان ہیں، بہت سی اجتماعی قبریں‌ ہیں۔ اب ہمیں‌ ایک زندہ قوم کی ضرورت ہے۔

لبنیٰ مرزا: یہ بتائیں‌ کہ یہ لڑکے ہتھیار اٹھا کر جنگل میں‌ چلے جاتے ہیں تو ان کا لانگ ٹرم کیا پلان ہوتا ہے یعنی کہ وہ کیا سوچ رہے ہوتے ہیں‌ کہ ایسا کر کے وہ کیا حاصل کرلیں گے؟

نائلہ خان: ہماری یہی خواہش ہے کہ ہمارے نوجوان سلامت رہیں۔ جب وہ اپنے غصے، مایوسیت اور توانائی کو تعمیری راستے پر خرچ کرنا سیکھیں‌ گے تبھی ہم ان مشکل حالات سے خود کو باہر نکال سکیں گے۔ ہمیں‌ کوشش کرنا ہوگی کہ ہمارے نوجوان تخریبی راستہ اختیار نہ کریں کیونکہ ایک قومی ریاست کی پہلی ترجیح‌ یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی فوجی طاقت اور سیاسی برتری دکھائے۔ ایک قومی ریاست کو اعداد و شمار سے یا شہیدوں‌ کی تعداد سے کچھ خاص فرق نہیں‌ پڑتا۔ انڈیا اور پاکستان دونوں‌ کو ہی ایک شورش شدہ علاقے میں‌ کچھ لوگوں‌ کو مار دینے سے کچھ نہیں‌ ہوتا۔ اس سے صرف ان گھروں‌ پر ہی اثر پڑتا ہے جن کے بچے چلے جاتے ہیں۔ ان قربانیوں‌ سے ان کی ماؤں‌ کو فرق پڑتا ہے جن کے وارث چھن گئے۔

لبنیٰ مرزا: انڈیا کی آبادی 2۔1 بلین ہے اور پاکستان کی 200 ملین۔ کشمیر میں‌ کل ملا کر تقریباََ 5 ملین لوگ ہیں۔ یعنی کہ سائز اور آبادی کے لحاظ سے نسبتاََ وہ کافی چھوٹا ہے۔ میں‌ سوچتی ہوں‌ کہ ہولوکاسٹ میں‌ بھی 6 ملین بے گناہ لوگ ہٹلر نے باقی دنیا کی مدد کے لئے پہنچنے سے پہلے ہی مار دئے تھے۔ اب بعد میں‌ جو بھی دنیا نے کیا اس سے ان لوگوں‌ کو واپس نہیں‌ لایا جاسکتا۔ کشمیر میں‌ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔

نائلہ خان: کشمیریوں‌ کے لئے یہ سمجھنے کا وقت ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں‌ نیوکلئیر طاقتیں ہیں۔ جب پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے سے \"kashmir\"دوستانہ ماحول میں‌ بات کرنے لگتے ہیں‌ تو وہ کشمیر کے بارے میں‌ بات نہیں‌ کرتے، اس کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور جب لڑائی ہوتی ہے تو کشمیر کے مسئلے کو لے کر ایک دوسرے سے اسکور برابر کرتے ہیں۔ اس سے ان کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ زندگی صرف کشمیریوں‌ کی خراب ہو رہی ہے۔ ان کا سماجی اور تہذیبی تانا بانا بکھر رہا ہے اور تعمیر رک گئی ہے۔ کشمیریوں کے لئے یہ سوچنا بے وقوفی ہے کہ یہ قومی ریاستیں غائب ہو جائیں گی، یا یہ خود کشی کرلیں گی یا پھر اتنی شرمندہ ہوجائیں‌ گی کہ خود ہی کشمیر کو چھوڑ جائیں۔ کشمیر میں‌ بہت سارے مختلف لوگ رہتے ہیں اور بہت ساری زبانیں‌ ہیں۔ ان لوگوں‌ کے مختلف سیاسی نظریات ہیں۔ ان لوگوں‌ کو ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع نہیں‌ ملتا۔ اگر کوئی کانفرنس بلائی بھی جاتی ہے دلی یا اسلام آباد میں‌ تو وہ انٹیلیجنس ایجنسیاں‌ کرواتی ہیں جہاں‌ پر مخصوص افراد کو ہی بلایا جاتا ہے۔ ایک آزاد دانشورانہ مکالمہ جو ہونا چاہئے وہ ابھی تک نہیں ہو پایا ہے۔

کشمیر میں‌ ایک گروہ پاکستان کا حامی ہے، ایک انڈیا کا اور ایک تیسرا جو کہ ان دونوں‌ ممالک سے مایوس ہوچکا ہے اور ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کا طالب ہے۔ کافی سارے نوجوان پاکستان سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اس گروپ کو دبایا جاتا ہے۔ اگر وہ پاکستانی منشور کو قبول نہ کریں‌ ‌ تو ان کے کاغذات رد کر دئے جاتے ہیں اور وہ الیکشن میں‌ ووٹ نہیں‌ ڈال سکتے۔ بیرسٹر حمید بشانی کے ساتھ یہ ہوا۔ وہ کینیڈا میں رہتے ہیں اور واپس نہیں‌ جاتے کہتے ہیں‌ کہ مجھے غائب کر دیا جائے گا اور میں‌ برسوں  کسی سے نہیں‌ مل سکوں‌ گا۔ جاوید عنایت نے لکھا کہ آزاد کشمیر کی آمدنی کا 80 فیصد حصہ پاکستان لیتا ہے۔ اگر وہ انڈیا سے لڑنا چاہتے ہیں‌ تو ان کو خود جا کر انڈیا سے لڑنا چاہئے۔ وہ نہتے کشمیریوں‌ سے اپنی جنگ کیوں‌ کرا رہے ہیں؟

انڈیا کے زیر حکومت کشمیر میں‌ جن لوگوں‌ کو غائب کر دیا گیا ہے ان کا انسانی حقوق کی تنظیموں‌ کا بنایا ہوا کچھ ریکارڈ موجود ہے لیکن پاکستان کے زیر حکومت کشمیر میں‌ اسلام آباد کی حکومت کے خلاف خیالات رکھنے والے افراد کی گرفتاری کا ابھی تک کوئی ریکارڈ نہیں‌ بنایا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں‌ کہ ایسا نہیں‌ ہوا ہے۔

لبنیٰ مرزا: سائیکولوجی کے مطابق نوجوان خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں۔ مطلب جیسا کہ میں‌ اور آپ موت کو جانتے ہیں‌ اور ہمیں‌ یہ بھی پتہ ہے کہ ہم مر سکتے ہیں۔ نوجوان موت کو نہیں‌ سجمھتے، ان کو یہی لگتا ہے کہ ان کو موت کبھی نہیں‌ آئے گی۔ وہ جذباتی بھی جلدی ہو جاتے ہیں‌ اور ان خود غرض عناصر کے ہاتھ چڑھتے ہیں۔ ہمیں‌ کیا اقدامات اٹھانے چاہئے جن سے ان نوجوانوں‌ کو اپنی توانائیاں مثبت راستے میں‌ خرچ کرنے کا موقع ملے؟

نائلہ خان: کشمیری اپنے حالات کی وجہ سے بہت جذباتی ہیں۔ ایک پتھر اٹھا کر پھینکنا ان کی مزاحمت کا علامتی نشان ہے کیونکہ ان کے پاس

\"Kashmiri

اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں‌ کہ ہماری قوم اور جدوجہد زندہ رہے تو اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہمارے بچے زندہ رہیں۔ لوگوں‌ کے بغیر کوئی بھی علاقہ زمین کے ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں‌ ہے۔ قومیں قبرستان کے اوپر نہیں‌ بن سکتیں۔ 1989 سے پہلے کشمیر میں‌ سینما ہوتے تھے، کلچرل شوز ہوتے تھے، تفریح کے راستے تھے، ایک ٹیگور ہال ہوتا تھا جہاں‌ لائیو پلے ہوتے تھے۔ اب نوجوانوں‌ کے پاس کوئی صحت مند ایکٹیوٹی میسر نہیں‌ ہے۔ حالات بہت مایوس کن ہیں لیکن ہمیں‌ امید سے جڑے رہنا ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہمارا ہر بچہ بڑا ہو، اس کو تعلیم ملے۔

لبنیٰ مرزا: فرض‌ کیجئے کہ میرا بیٹا گھر سے بھاگ جاتا ہے اور ہتھیار اٹھا کر کوئی متشدد تنظیم کا حصہ بن جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ اکتا جاتا ہے اور گھر واپس آجانا چاہتا ہے تو کشمیر کی حکومت ایسے کیا اقدامات کر رہی ہے کہ ان بچوں کو ڈی ریڈکلائز کر کے معاشرے کا فعال رکن بنا سکے؟

نائلہ خان: اس طرح‌ کا کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہیں‌ ہے لیکن انڈیا، پاکستان اور کشمیر میں‌ مائیں‌ مل کر ایسی تنظیم کی تشکیل کرسکتی ہیں۔ ہمیں ایسے سیاستدانوں کی ضرورت ہے جن کی نظر طویل عرصے کے مقاصد پر ہو، جو کشمیر کے مستقبل کے لئے ایک وژن رکھتے ہوں۔ ہمیں تنقیدی سوچ کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو توپوں کا بارود بننے سے روکنا ہوگا۔ میری دعا ہے کہ میری بچی سمیت ہماری قوم کے ہر بچے اور بچی کو خدا اپنے حفظ و امان میں‌ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments