کیا شادی گناہ ہے؟


\"Umairبزرگوں سے سنا تھا کہ ان کے زمانے میں شادیاں اتنی سادگی سے ہوتی تھیں جس کی مثال عصر حاضر میں ملنا تو درکنار تصور بھی محال ہے۔ اس تصور کا فقدان ہی اتنا بڑا جرم ہے جس کی پاداش میں آج کم و بیش پوری قوم ایک شدید مصیبت سے دوچار ہے۔ آج کی نشست میں احقر اسی مسئلہ کے حل کے طور پر کچھ معروضات پیش کرے گا۔ لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ایک دو عبرت انگیز اور افسوس ناک واقعات ملاحظہ فرمالیے جائیں:

\”بھائی صاحب! زکوۃ کی رقم کی مد میں آپ کچھ مدد کردیجے۔\”، \”خیریت کیا مسئلہ درپیش ہے؟\” مکالمے کی ابتداء سلام دعا کے بعد کچھ اس قسم کے الفاظ سے دو باہم شناسا نوجوانوں کے درمیان ہوئی۔ آگے سنیے! \”خالہ کی بیٹی کی شادی ہے فلاں تاریخ کو۔ (تاریخ یاد نہیں رہی) میرے پاس جو رقم تھی وہ میں نے دے دی ہے، لیکن ابھی بھی کسر باقی ہے اگر آپ تعاون کردیں تو۔۔۔\”

تعاون میں کوئی حرج تو نہیں لیکن اگر ان پیسوں کو مہندی، مایو، خورا، ڈھولک اور اس جیسی لایعنی اور غیر ضروری رسومات میں خرچ کیا تو خود سوچیے اس سے بہتر تو یہ تھا کہ اصل حق دار اس رقم سے چند دنوں کے لیے ہی سہی، اپنی بنیادی ضروریات پوری کرلیتے۔ \”نہیں نہیں بھائی جان! ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اصل میں لڑکی والوں نے نکاح والے دن مہمانوں کو کھانا کھلانا ہے۔ بے چارے غریب لوگ ہیں اتنی استطاعت نہیں رکھتے، اس لیے مانگنے کی نوبت آ پہنچی ہے۔\” اس کی آخری بات سے نوجوان سوچ میں پڑ گیا اور بالآخر مدد نہ کرنے کا فیصلہ کر کے اگلی ملاقات میں اس کو انکار کرنے کا تہیہ کرلیا۔ مگر آپ ٹھہریے! اتنی جلدی اس پر سنگ دل ہونے کا دعوی نہ کیجیے۔ ابھی بات مکمل کہاں ہوئی ہے۔ ایک اور خون جلانے والا واقعہ آپ کا منتظر ہے:

شب عروسی کے لباس میں دلہن بنی وہ بھولی بھالی لڑکی خوشیاں منانے اور اپنی نئی زندگی کے حسین خواب دیکھنے کی بجائے کسی گہرے کرب و فکر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کی ہم جولیاں اس کو مسلسل حوصلہ دینے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!

میں اس وقت کم سِنی کے دور میں تھا، جب میں نے اپنے بڑوں سے اس مجبور لڑکی کی بپتا سنی۔ غربت نے چاروں طرف ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ عمر ڈھلتی جارہی تھی۔ دور دور تک کوئی مناسب جوڑ نظر نہیں آرہا تھا۔ آخر ایک طویل انتظار کے بعد ایک اچھا رشتہ مل ہی گیا۔ جہیز کیے نام پر لباس، زیورات اور دوسری ضروریات کا معقول انتظام گھر سے ہی ہوگیا۔ لیکن ابھی ایک معرکتہ الآراء مسئلہ باقی تھا اور وہ تھا باراتیوں کو کھانا کھلانا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کراچی کے ایک دور دراز علاقے میں ہال کی بکنگ اور کھانا سمیت کل خرچہ ایک لاکھ بیس ہزار یا اس سے کچھ اوپر بنا۔ اس مسکین لڑکی کی شادی کے لیے یہ پیسہ کیسے جمع کیا گیا یہ بتانے کا حوصلہ نہیں مگر حالات کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ اس رقم کا اکثر حصہ صدقہ خیرات اور زکوۃ پر مبنی تھا۔ لوگوں کے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے بریانی، بوتلیں اور دیگر لوازمات رکھے گئے۔ مگر اس کے باوجود اپنی نئی حیات کا آغاز کرنے والی وہ دنیا کے جھمیلوں میں الجھی ہوئی معصوم لڑکی اس غم میں ہلکی ہوئی جارہی تھی کہ اگر کھانا کم پڑگیا اور اسے ہضم کرنے کے لیے مہمانوں کو سبز قہوہ نہ پینا پڑا تو میری عزت کا کیا ہوگا؟ ایک دوشیزہ کے ہاتھ پیلے ہونے کا یہ روح فرسا واقعہ جب میں نے بچپن میں اہل خانہ سے سنا تو اس ناسمجھی کی حالت میں بھی چونکے بغیر نہ رہ سکا۔

مجھے یقین ہے آپ کا چند منٹ پہلے کا وہ غصہ جو سائل کو ٹرخا دینے کی وجہ سے نمودار ہوا تھا رفو چکر ہو گیا ہوگا۔ یہ دو رلادینے والے حقیقی واقعات ذکر کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ کس طرح دنیا داری نبھانے کے چکر نے لڑکی اور لڑکی والوں کو ذلت کی اتاہ گہرائیوں میں اتار دیا ہے۔ اگر صرف مالی امداد کر دینے سے مسئلہ حل ہوجاتا تو ہمیں کیا اشکال؟ لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک غیر ضروری اور غیر شرعی رسم کو پورا کرنے کے لیے اس حد تک گر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا لڑکی والوں کا کھانا کھلائے بغیر نکاح حرام ہوتا ہے؟ یا یہ کوئی نازل شدہ فرمان ہے جس پر عمل کیے بنا اور کوئی آپشن نہیں۔ آپ کہیں گے یہ معاشرت ہے، مانا معاشرت ہے شریعت تو نہیں! اور معاشرت بھی تو ہم افراد سے مل کر ہی بنتی ہے۔ معاشرے کا تانا بانا بھی تو ہمارے ہی ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ جتنا چاہے الجھا دیں جتنا چاہے سلجھا دیں۔ والدین شاید کہیں گے ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی بیٹی کو دھوم دھام سے رخصت کریں اور تو اور لڑکی کی بھی یہی تمنا ہوتی ہے کہ اس کی شادی ایک یادگار کے طور پر لوگوں کے ذہنوں پر نقش رہے۔ مگر آپ نے کبھی یہ سوچا اپنی اس پل دو پل کی خواہش کی تکمیل کے لیے کتنی غریب بچیوں کی شادیاں جوئے شیر لانے کے برابر ہوگئیں ہیں ۔ لاشعوری طور پر نچلے طبقے کے لیے بھی اسی طرح کا نہیں تو اس سے کم پیمانے پر ہی نکاح کی تقریب کا انتظام و اہتمام واجب ہو جاتا ہے۔ آپ نے تو اپنے ارمان جی بھر کر پورے کر لیے۔ لیکن وہ غریب جس کی اپنی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں وہ سو دو سو لوگوں کے کھانے کا انتظام کہاں سے کرے گا؟ پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو وہ زمانے کے اس قبیح دستور کا حصہ نہ بن کر لعنت ملامت اور تھرڈ کلاس تبصروں کا شکار ہوں۔ یا قرض اور چندہ وغیرہ جمع کرکے خود کو لوگوں کے احسان کے بوجھ تلے دبالے اور اپنی ہستی بستی زندگی اجیرن کرلیں۔

لہذا اے اہل ثروت! اس بگڑی ہوئی صورت حال پر آپ ہی کو قابو پانا ہے۔ تقریبات کا دائرہ محدود کرنے میں آپ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بیٹی کی خوشیوں میں اپنے پیاروں کو شریک کرنا ہر ماں باپ کا ارمان ہوتا ہے۔ لیکن گزارش بس اتنی ہے کہ دکھاوا اور شوں شاں سے کلیۃ اجتناب کیا جائے۔ اس تقریب کو اتنی مسلمہ حیثیت نہ دے دی جائے کہ نہ کرنے کی استطاعت یا ارادہ رکھنے والا لوگوں کی طعن و تشنیع کی زد میں آئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے ان اعظم النکاح برکۃ ایسرہ مئونۃ\” سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ اور سادگی ہو\” حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں نے اپنی دعوتِ ولیمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کے کپڑے پر خوش بو کا پیلا رنگ دیکھ کر اندازہ لگا یا اور پوچھا کہ شاید تم نے نکاح کر لیا ہے، لیکن ذرہ برابر نا گواری کا اظہار نہیں فرمایا کہ مجھے ولیمے میں نہیں بلایا۔ بتایے! وہاں تو ولیمے جیسی عظیم سنت کو سادگی سے کرنے کی ترغیب دی جارہی ہےاور یہاں۔۔۔۔اللہ ہی ہم پر رحم فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments