کس کا انتظار ہے؟ گوڈو نہیں آئے گا


\"bty\"سموئیل بیکٹ ( Samuel Beckett ) کے20 ویں صدی میں لکھے تجریدی کھیل ویٹنگ فار گوڈو (Waiting for Godot ) کو جب بھی پڑھا، مجھے ہمیشہ اپنی پاکستانی قوم ہی کا خیال آیا۔ کہ ہمیں بھی جیسے کسی ناخدا، کسی مسیحا کا انتظار ہے۔ کسی ایسے نجات دہندہ کا جو ہماری مدد کو ایک دن ضرور آئے گا اور بس ۔۔۔سب ٹھیک ہو جائےگا۔

چار ہی کردار ہیں اس کھیل میں۔ جن میں سے دو تو ہیں۔۔۔ آپ اور میں! مصنف انھیں ولادمیر اور استراگون کے نام دیتا ہے۔ یہ دو کردار صبح ہی سے رستے پر نظریں جما کر بیٹھ جاتے ہیں (Godot) گوڈوکے انتظار میں۔۔ ۔ ہمارے پاس بھی ان کرداروں کی طرح انتظار کے سوا کرنے کو کچھ نہیں۔ جس طرح اس کھیل کا ایک کردار اپنا بوٹ جھاڑ کر دیکھتا ہے دوسرا اپنے ہیٹ کے اندر نظر ڈالتا ہے اور پھر ناکردہ کاری (nothing to be done) کے احساس میں گھرے دو نوں بے مقصد سی حرکتیں کرتے ہیں، ہم بحیثیت قوم ایسی ہی بے مقصدیت کا شکار ہیں۔اور گوڈو (Godot) ہے کہ آ کے نہیں دیتا۔

ولادمیر اور استراگون دونوں ہی کردار بولتے بولتے چپ ہو جاتے ہیں۔ ایک بولتا ہے تو دوسرا کچھ اور ہی سمجھتا ہے۔ چلتے چلتے رُک جاتے ہیں۔ \”چلو، چلتے ہیں\’ کہتے ہیں اور اپنی جگہ سے ہلتے نہیں۔ کبھی کہتے ہیں اس سے تو موت بہتر ہے، پر مرتے بھی نہیں۔ ن م راشد نے کہا تھا نا، اجل ان سے مل۔۔۔ اپنے(Godot) گوڈو کے انتظار میں پھر کل تک جینے لگتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال آپکا اور میرا بھی ہے۔ ہمیں بھی اپنی کہی باتیں بسا اوقات بے معنی لگنے لگتی ہیں۔ کچھ کہا بھی تو کیا فائدہ۔۔سُن کون رہا ہے۔ اور اگر کوئی سُن بھی رہا ہے تو جانے سمجھ کیا رہا ہے؟

\"by

 تیسرا کردار پوزو (Pozzo) آتا ہے اس کھیل میں، اُسی رستے سے جہاں آپ اور میں گوڈو (Godot) کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ وہ رسّی سے ایک غلام کو گھسیٹ رہا ہے ۔۔۔جس کا نام Lucky ہے، شاید اسی لئے اس کا نام لکّی ہے کہ اس کا کوئی والی وارث ہے اور وہ آپ کی اور میری طرح انتظار کے کرب سے آزاد ہے۔ اس کا مالک اُسے مارتا ہے، گھسیٹتا ہے، اپنا بوجھ اس پہ لادے رکھتا ہے۔ خود گوشت کھا کر ہڈیاں اس کے آگے پھینکتا ہے۔۔۔ یہی اس کی خوراک ہے ۔جسمانی طور پر جھکا ہوا یہ Lucky  اپنی مجبوریوں کی رسّی سے بندھا ہر وقت یہ بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے۔۔۔۔کتنے ہی ایسے لکّی مجھے اپنے مُلک میں بھی دکھتے ہیں جو ایسے حاکموں کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کے جوتے اور ٹھڈے کھا رہے ہیں۔ مگر انھیں کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ انھیں کا بوجھ ڈھو رہے ہیں ۔

 ولادمیر اور استراگون غلط سمجھے۔ یہ پوزو pozzo بھی ان کا گوڈو (Godot) نہیں ہے۔ وہ آ کر گزر گیا۔۔۔ آپ اور میں بھی نا! ہر آنے والے کو گوڈو (Godot) سمجھ لیتے ہیں۔ یہ وہ نہیں جس کا ہمیں انتظار ہے۔ پوزو pozzo توبس ایک سرمایہ دار ہے۔ وہ خریدتا ہے اور پھر بکنے والوں کو ریوڑھ کی طرح ہانکتا ہے اور وہ ہانکے جانے ہی میں خود کو lucky سمجھتے ہیں،غلام کہیں کے!

اس کھیل کے دوسرے ایکٹ میں پوزو  pozzoاندھا اور لکی  Luckyگونگا ہو جاتا ہے ۔میرے ہاتھ یہاں مجبور کے لئے تو کوئی عذر ہاتھ نہیں آتا پر یہ بات میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ جب انسانی گروہ کے یہ دو طبقے ۔۔۔ ایک مجبور اور دوسرا خُود غرض ۔۔۔ اپنے خواب ذاتی مفادات کے لئے بیچ دیا کرتے ہیں تو ایسا ہی معاشرہ جنم لیتا ہے جہاں حاکم اندھے اورمحکوم گونگے ہو تے ہیں۔

پر آپ اور میں لکّی نہیں۔۔۔ ہم شاید اُس سے بھی بدتر ہیں۔ بے مقصدیّت کا شکار، بے سمت سفر پہ گامزن، چلتے ہیں تو کہیں پہنچتے نہیں۔ \"Alexander_Dow\"رکتے ہیں تو بے سکونی کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کبھی بھوک سے تنگ ایک دوسرے پر بھونکنا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی مر جانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی قومی شناخت کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہوتا دیکھتے ہیں، پل بھر کو اس پہ سوچتے ہیں، پر کچھ کرنے کی ذمہ داری اٹھانے کی سکت ہم میں نہیں۔۔ بس ہمیں تو کسی گوڈو  (Godot) کا انتطار ہے۔ ایک بے نام سی کوفت کا شکار، ہم بھی ولادمیر اور استراگون کی طرح بس زندگی گزارنے کے حیلے کر رہے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جو یادداشت کی شدید کمزوری اور گہری مایوسی کا شکار ہے۔۔۔ ہماری قوّتیں جانے کب اور کیسے سلب ہویئں؟ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ اور اب تو بس بے حسی ہے کہ رگ رگ میں سرایت کر گئی ہے۔ پیچھے مڑ کر ماضی دیکھنے کی ہمّت ہے نہ مستقبل کی کوئی اُمنگ آگے بڑھنے کا جواز بنتی ہے۔ مایوس لمحوں میں بس جئے جا رہے ہیں۔اور انتطار کئے جا رہے ہیں کسی خدائی اوتار کا۔۔۔

 کبھی کبھی ہوش کی کیفیت آپ اور مجھ جیسے لوگوں پہ آیا کرتی ہے۔ جس میں ہم صرف سودا کرتے ہیں لفظ اور خیال کا۔ ابھی کچھ دیر کو میرا بھی ذہن جاگ رہا ہے اور پوری قوّت سے کام کر رہا ہے تو اس حقیقت کا ادراک کرنے کے قابل ہوں کہ گوڈو (Godot) کبھی باہر سے نہیں آیا کرتا۔۔ ہمیں میں سے اٹھتا ہے، مزدک کی طرح۔۔۔ ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر۔۔۔ پر ہم تووہ قوم ہیں جو ہر آگے بڑھنے والے کو، اپنی اجتماعی لاغر قوّت سے گھسیٹ گھسیٹ کر بے بس کر ڈالتے ہیں۔ اس کے خوُن میں وہ زہر اُتار دیتے ہیں کہ آخر وہ بھی ہم جیسا ہو جاتا ہے۔

اس ڈرامے میں کچھ آوازیں ہیں جو ان کرداروں کے لا شعور میں چلتی رہتی ہیں اور ھماری آپکی طرح وہ کردار بھی اُنھیں  نظر انداز کرتے \"aacchhkk\"رہتے ہیں ۔ ۔ایک آواز میں بھی سُنتی ہوں بڑی صاف۔۔۔۔

’قوم کو اب جاگ جانا چاہئے ۔ باد شاہی نظام ختم ہونا چاہئے۔ اپنے حق کی بات کرو۔ جاگو۔۔۔ پوُچھو۔حساب لو‘

 اور بس۔۔۔پھر ایک بے کیف سی غفلت ہمیں بے حس کر دیتی ہے۔ ایک غنودگی ہے جو پوری قوم پہ طاری ہے۔ اس قوم کو کس طرف جانا ہے؟اور کیوں جانا ہے؟ کوئی منزل بھی ہے ہماری؟ کوئی ضرورت ہے ہمیں اپنی شناخت کو معتبر کرنے کی؟ اپنے جوہر دنیا سے منوانے کی؟ دبئی کے ملٹی کلچرل معاشرے میں جب دوسری قوموں کے اجتماعی خواب سنتی ہوں اور ان کی تکمیل ہوتے دیکھتی ہوں۔۔۔انڈیا کو سپر پاور بننا ہے۔ ہر معاشرت پہ اپنے کلچر کی گہری چھاپ لگانی ہے۔۔۔ چائنا نے دنیا کی بڑی سے بڑی اور نت نئی ایجادات کو جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی میں ڈھال دینا ہے۔ دبئی کے حکمران کا خواب کہ زندگی کے ہر ہر شعبے میں بہترین کا ریکارڈ بنانا ہے ۔۔۔ سب اپنی اپنی لگن میں آگے بڑھ رہے ہیں، ہاتھ میں ہاتھ تھامے۔۔۔۔ تو اپنی قوم کا خواب جاننا چاہتی ہوں ۔۔۔پر یہاں خواب نہیں۔۔ نیند ہے۔۔ اس بات کا ادراک کرتی ہوں کہ پاکستان کے ہر تعلیم یافتہ شخص کی طرح، میں بھی شاید صرف بھاشن ہی دینے کے قابل ہوں۔ آپ اور میں یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی  گوڈو (Godot) کا یہ انتظار قطعی لا حاصل ہے ۔۔۔ پر ہم ہیں کہ انتظار کئے جا رہے ھیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments