پاکستانی پولیس کو سلام


\"masoodپاکستان سے دور رہنے والے تارکینِ وطن اور سابق پاکستانی، جو پاکستان کی شہریت سے بھی محروم ہیں ، دور دیشوں میں بیٹھے اپنے سابق وطن پاکستان کی خیر مانگتے رہتے ہیں ۔ اُن کا جی چاہتا ہے کہ اسلام آباد کے مکّے سے ہمیشہ خیر کی خبر ہی آیا کرے ۔ اور میرے جیسے لوگ جو پاکستان میں بد امنی اور دہشت گردی کے واقعات کی خبریں سُن کر کُڑھتے ہوئے بد امنی، سرِ راہ ڈاکہ زنی، شر انگیزی اور کرپشن پر تنقید کر دیتے ہیں، اچھا نہیں کرتے۔ اُنہیں تو کرپشن اور دہشت گردی کو پاکستانی معاشرت کے انمٹ خدو خال سمجھ کر اُن سے محبت کرنی چاہیے.

ان دنوں پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر محکمہ پولیس کی جانب سے دو اشتہارات چل رہے ہیں، جن میں پاکستان کے دو فنکار خوانین جناب قوی خان اور مہا خان وسعت اللہ خان لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کی پولیس آپ کی اپنی ہے ، اسے سلام ہی کر لیتے کبھی ۔ یعنی پولیس کو دیکھ کر سلیوٹ مارنا عوام کی ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے سبحان اللہ ! اور پولیس کا کام کیا ہے ؟ وہی جو اُس نے گُلّو بٹ کی اعانت سے ماڈل ٹاؤن لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ کیا ۔ اور وہ جو ہر روز سڑکوں پر کرتی ہے ۔ کیا کرتی ہے؟ پولیس گردی ۔ سب مل کر کہو پولیس گردی ۔ یہ قانون کی آڑ میں چھینا جھپٹی ہے جو قانونی کارروائی کہلاتی ہے۔

محبت کا جواب محبت سے دینے کی روایت پاکستان میں کبھی رائج ہی نہیں رہی ۔ وہ کیسے ؟ عرض کرتا ہوں :

ان دونوں متذکرہ بالا خوانین کا اگر کبھی پولیس سے گرما گرم پالا پڑا ہوتا تو شاید وہ سوچتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں مگر اشتہار بازی کی صنعت میں سوچنا ہوتا ہی نہیں ۔ بس بولنا ہوتا ہے ۔ اداکاری کرنی ہوتی ہے ۔ قوی خان تو ہیں ہی اداکار ہیں مگر کالم نگاری بھی لفظوں کی اداکاری ہی ہوتی ہے جسے کالم نگار بطور ہدایت کار لفظوں سے کرواتا ہے۔

معاف فرمائیے ! میں ہر گز یہ نہیں کہ رہا کہ ایک دوسرے کو سلام نہیں کرنا چاہیے۔ ضرور کرنا چاہیے بلکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ لوگ سلام کا جواب وعلیکم السلام سے دینے کے بجائے سلام علیکم کے جواب میں سلام علیکم کہہ کر ایک دوسرے کا سلام من و عن اور جوں کا توں واپس لوٹا دیتے ہیں ۔ گویا تیرا سلام تیرے گھر اور میرا سلام میرے گھر ۔ کوئی ایک دوسرے کا احسان لیتا ہی نہیں ۔ بلکہ لوگ حساب برابر کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔

لیجیے میں لاہور کی پُرانی انارکلی پہنچ گیا ہوں :

ہمارے ایک بہت ہی ذہین دوست ، جنہیں کنگ ایڈورڈ کالج میں اپنے زمانہ طالب علمی میں نشے کی لت لگ گئی تھی ، دوستوں کے حلقے میں ڈاکٹر کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ مارکس اور اینگلز کی تحریروں پر اُن کی نظر بہت گہری تھی ۔ قدرِ زائد کا نظریہ ایسی سہولت سے بیان کرتے تھے گویا دونی کا رٹا ہوا پہاڑا پڑھ رہے ہوں ۔ ایک شام میں ملک واصف علی واصف کے لاہور انگلش کالج سے کلاس ختم کر کے نکلا تو ڈاکٹر موصوف نشے میں ٹُن ایک دیوار سے لگے کھڑے تھے اور تھانہ پُرانی انار کلی کا ایک پولیس بہادر اُن کو گلے سے پکڑ کر کہہ رہا تھا :

\” اوئے ڈاکٹر ( بہن کی گالی دے کر ) توں روز نشے وچ ہونا ایں تے سانوں کجھ دیندا وی نہیں\” ۔

یعنی نشے میں ہونے کے لیے قانون کو بھتہ دینا ضروری ہے یعنی پولیس کو سلام کرنا لازمی ہے ۔

ایک اور دفعہ کا ذکر ہے :

کچھ ترقی پسند دوستوں نے بے روزگاری کے زمانے میں انجمن بے روزگاراں بنائی کہ بے کار سے اس طرح کی سرگرمی کی بیگار بھلی ۔ مگر ترقی پسند فلسفیوں نے نُکتہ چینی کی کہ چونکہ بے روزگاروں کا استحصال نہیں ہوتا اس لیے اُن کی ٹریڈ یونین بن ہی نہیں سکتی اور اگر بن جائے تو سوائے ہلّہ گُلہ کے کچھ کر نہیں پاتی حالانکہ بےروزگاروں کا اپنا خیال یہ تھا کہ نوجوانوں کو بے روزگار رکھنا معاشی استحصال کی بد ترین صورت ہے ۔

اُن دنوں فیلڈ مارشل ایوب خان بیماری سے صحت یابی کے بعد بذریعہ ٹرین لاہور آرہے تھے ۔ دوستوں نے متا پکایا ( سازش کی ) کہ صدر کی آمد پر لاہور ریلوے سٹیشن پر ایک مظاہرے کا اہتمام کیا جائے لیکن ایک فتنہ گار مُخبر نے جو اب پاکستان کے ایک معتبر ٹی وی چینل میں اینکری کرتا ہے ، تب پولیس کی مُخبری کرتا تھا، پولیس والوں کی گاڑی میں پولیس والوں کی رہنمائی کرتا بےروزگاروں کی ٹولی تک پہنچا اور ہم چند دوست دھر لیے گئے ۔ اور پھر پولیس والوں نے ہم سے جس جس نوعیت کے سلام کروائے، کبھی وسعت اللہ خان ملیں گے تو اُنہیں بتاؤں گا ۔

 ان کے مکالمے سُن کر شیطان بھی کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے تھے کیونکہ پاکستان میں پولیس اور گالی لازم و ملزوم ہیں ۔ یہ پی پی پی یعنی پاکستان پولیس پارٹی کے آئین کی تیسری شق ہے۔ اگلے وقتوں کے پولیس والے بتاتے تھے کہ جب وہ پولیس کے محکمانہ امتحانات پاس کرتے تھے تو انہیں گالی کے مضمون میں بھی ٹیسٹ دینا پڑتا تھا ۔

ایک تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لاہور کے ریگل چوک میں کتابوں کی ایک دکان پر کھڑا تھا جو ایک منفرد پبلشر بھی تھے ۔ ناگہاں پولیس کا ایک سب انسپکٹر کہیں سے وارد ہوا اور دکان کے مالک پر ایک سرسبز گالی کی شاخِ تازہ لہرائی ۔ گالی کھانے والے نے تحمل سے کہا کہ آپ شریف آدمی ہیں ، آئیے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ تب اُس سب انسپکٹر کو دفتر میں بٹھا کر ، مونہہ میں سموسہ ٹھونس کر ہاتھ میں چائے کی پیالی دی گئی تو ماحول بدل گیا ۔ ہاں یہ بھی ایک سلام ہی تھا ۔ پولیس کی لُغت میں سلام کے معنے مُٹھی گرم کے نکلتے ہیں ۔

پاکستانی معاشرے میں گالی شجرِ ممنوعہ ہونی چاہیے کیونکہ گالی قرآن کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ \” قولو للناس حُسنا \” کا حکم ہے کہ لوگوں سے حُسنَ اخلاق سے بات کرو ۔ مگر پولیس کو کیا ، اُسے تو سلام چاہیے کیونکہ وسعت اللہ خان اور قوی خان کہہ رہے ہیں ۔

کہانیاں بہت سی ہیں۔ لیکن کالم کہانی لکھنا اور کہانی کا کردار ہونا دو الگ الگ مظاہر ہیں ۔ ہم سب اُس کہانی کے کردار ہیں جس میں کوئی بھی مطلب کے بغیر کسی کو سلام نہیں کرتا۔ سلام کروانے کی خواہش انا کا مطالبہ ہے ، خدمت عجز اور انکساری کا نہیں ۔ ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کے اشتہارات لوگوں کے قلب و ذہن کو تبدیل نہیں کر سکتے ، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ کئی صدیوں کے مذہبی خطبات اور تبلیغی مواعظ ہمیں نہیں بدل سکے ۔ ہمیں شریعت نہیں بدل سکی ۔ ہمیں خوفِ خُدا نہیں بدل سکا تو اِن دونوں کا اشتہاری پیغام کیا کرے گا ۔ ہونہہ !

مسعود منور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مسعود منور

(بشکریہ کاروان ناروے)

masood-munawar has 19 posts and counting.See all posts by masood-munawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments