محمد رفیع کی یاد میں


\"muhammad-adil2\"چھپن سال بھی بھلا کوئی عمر ہے یہ دنیا چھوڑ دینے کی؟ 31 جولائی 1980 کو ہندوستانی فلمی موسیقی کا ایک ایسا چراغ گل ہوا کہ جس کی روشنی سے کئی لوگوں کی زندگی تو منور ہو گئی لیکن کوئی اس کی جگہ نہ لے سکا، بھلا ہزاروں شمعیں مل کر بھی سورج کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کی جائے پیدائش کوٹلہ سلطان سنگھ امرتسر، میں ایک فقیر صدائیں بھی سریلی لگاتا تھا۔ محمد رفیع جو کہ اپنی گلی محلے والوں میں اس وقت فیکا یا فیکو کے نام سے پہچانا جاتا تھا، یہ اس فقیر کے بھجن اونچی آواز میں گنگناتا رہتا۔ سننے والے اس کی آواز سن کر مبہوت سے رہ جاتے، لیکن کسی کو یہ اندازہ بھی نہ تھا کہ ایک فقیر کی نقل اتارنے والا یہ لڑکا مستقبل میں کتنے لوگوں سے اپنی نقل اتروائے گا اور اس کے گائے ہوئے گیت گا گا کر نہ جانے کتنے لوگوں کے پیٹ بھرنے کا سامان ہوگا۔

لاہور کے بھاٹی گیٹ کے پاس ایک نائی کی دکان پر کام کے دوران بھی فیکو اپنی آواز کا جادو جگگاتا رہتا۔ بعد میں بمبئی شفٹ ہو کر فیروز نظامی، استاد عبدالواحد خان اور پنڈت جیون لعل سے کلاسیکل موسیقی سیکھنے کے بعد 1941 میں اس وقت کے سپر سٹار کندن لعل سہگل کے ساتھ پہلی مرتبہ عوام کے سامنے محمد رفیع نے پہلی پرفارمنس دی اور داد وصول کی۔

ہندی فلم ’گاؤں کی گوری‘ کے لیئے آپ نے پہلا فلمی گیت ’اجی دل ہے قابو میں‘ ریکارڈ کروایا۔ اور اس کے بعد پھر لاتعداد گیت آپ کی آواز میں امر ہوتے چلے گئے۔ اسی دوران اس وقت کے عظیم موسیقار نوشاد کے ساتھ پہلا گیت ’ہندوستان کے ہیں ہم‘ فلم ’پہلے آپ‘ کے لیئے ریکارڈ کروایا۔ 1947 میں فلم ’جگنو‘ کے لیئے نورجہاں کے ساتھ گائے گئے گیت ’یہاں بدلہ وفا کا‘ نے آپ کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔

اس وقت کے موسیقاروں نوشاد، مدن موہن، روی، سلیل چوہدھری، روشن، ایس ڈی برمن، او پی نئیر، شنکر جے کشن، لکشمی کانت پیارے لعل، آر ڈی برمن، کلیان جی آنند جی، راجیش روشن اور دوسرے کئی چھوٹے بڑے موسیقاروں کے لیئے مشکل دھنوں کا ایک ہی حل تھا جس کا نام محمد رفیع تھا۔ او۔ پی نئیر تو یہاں تک کہہ گئے کہ ’اگر محمد رفیع نہ ہوتا تو او پی نئیر بھی نا ہوتا‘۔
\"Rafi_splash\"

اونچے کھؔلے سروں کے گیت ہوں جیسے ’زندہ باد اے محبت زندہ باد‘ یا دھیمے سروں کے گیت جیسے ’چودھویں کا چاند ہو‘ یا ’بوندیں نہیں ستارے‘ جیسا مدھر گیت، اداس ںغمے ہوں ’غم اٹھانے کے لیئے میں تو جئے‘ یا ’ہم تو چلے پردیس کہ ہم،‘ یا ’کھلونا جان کر تم ‘ یا خوشیوں بھرے گیت جیسے ’بہارو پھول برساؤ ‘، ’بڑی مستانی ہے میری ،‘، ’آنے سے اس کے آئے بہار ‘، صوفیانہ انداز ہو جیسے ’ہر جلوہ تیرا جلوہ، تیری یہ دنیا ساری ،‘ یا بھجن ہو ’ہو رام رے سب سے بڑا تیرا نام ،‘ قوالی ہو ’پردہ ہے پردہ پردے کے پیچھے ‘ ٹھیٹھ شاستریا میوزک کمپوزیشن ہو جیسے ’مدھ بن میں رادھیکا،‘ یا جدید انداز کے گیت یعنی ’کیا ہوا تیرا وعدہ ‘ اور ’تم جو مل گئے ہو ‘ یا ’دردِ دل دردِ جگر دل میں جگایا ،‘ – کیا کیا مثال پیش کی جائے اور کس کس انداز کی تعریف کی جائے۔

لتا منگیشکر کے ساتھ آپ کی جوڑی کا توڑ تو شاید اب رہتی دنیا تک ممکن نہیں۔ ’تصویر تیری دل میں ‘، ’جھلمل ستاروں کا آنگن ،‘، ’تیرے حسن کی کیا‘، ’تو گنگا کی موج میں‘، ’کوئل بولی دنیا ڈولی‘، ’اٹھرا برس کی تو ،‘ اور لاتعداد دوسرے گیت جن کا کوئی جواب نہیں۔ 2010 میں کیئے گئے ایک پول میں لتا۔رفیع کی جوڑی کو مقبول ترین جوڑی کا خطاب بھی ملا۔ اس کے علاوہ آشا، گیتا دت، ثمن کلیان پوری، شمشاد بیگم اور بہت ساری دوسری گلوکارائیں بھی ڈوئیٹس میں آپ کی ساتھی رہیں۔

1950 سے 1980 تک کم از کم شاید ہی ایسا کوئی اداکار ہوگا جس پہ رفیع کی آواز میں گایا ہوا گیت نہ فلمبند کیا گیا ہو۔ لیکن میں خاص طور پہ دو اداکاروں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

شمی کپور ایک الگ انداز کا ہیرو تھا، پگلا سا، دیوانہ سا، بے ہنگم اچھل کود اور بے ساختہ اداکاری کرنے والا۔ محمد رفیع کی آواز اس کی مجبوری تھی، کیوں کہ اس کی حرکتوں کے مطابق رفیع اپنی آواز میں ایسا ایکسپریشن پیدا کرتے کہ لِپ سنک کرتے ہوے وہ شمی کپور کی ہی آواز لگتی۔ اس وقت کے دوسرے گائیک جیسے مکیش کی آواز کسی صورت ان پہ سوٹ نہ کرتی تھی۔ مثلآ ’تعریف کروں کیا‘، ’تم سا نہیں دیکھا‘، ’چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے،‘۔

اسی طرح دیو آنند بھی اپنے الگ انداز کی بدولت 1950 سے 1970 کے درمیان رفیع کے ہی محتاج رہے، مثال کے طور پر ’کھویا کھویا چاند،‘، ’دیوانہ مستانہ ہوا دل‘۔ بعد میں کشور کمار نے بھی دیو آنند کے لئے کافی گیت گائے۔

محمد عزیز، شبیر کمار، سانو نگھم اور انور جیسے مشہورِ زمانہ فلمی گائیک محمد رفیع کی آواز و انداز کو ہی کاپی کرکے عوام میں توجہ حاصل کرسکے۔ اِن میں سے خاص طور پر محمد عزیز اور سانو نگھم تو شہرت کی بلندیوں پہ جاپہنچے۔

ایک نیشنل فلم ایوارڈ، چھ فلم فئیر ایوارڈ جیتنے والا یہ گلوکار شراب نوشی اور دوسرے نشوں سے دور تھا، لیکن شرابی گانوں میں جذبات ایسے انڈیلتا جیسے پیمانہ خود بول رہا ہو، مثال کے طور پہ ’چھلکائے جام، آئیے آپ کی‘۔ فلمی پارٹیوں سے زیادہ شغف نہیں تھا۔ کیرم بورڈ، ٹینس اور پتنگ بازی کو بہت پسند کرتے تھے۔ مذہبی رحجانات بھی تھے۔ کسی نے آپ سے پوچھا کہ کوئی ایسی خواہش جو پوری نا ہوئی ہو تو جواب دیا، ’میں نے ایک سے زائد مرتبہ حج کیا ہے، اور میری بڑی خواہش تھی کہ میں حرمِ کعبہ میں اذان دوں۔ لیکن یہ خواہش پوری نہ ہوسکی‘۔

اللہ خوبصورت ہے، وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ محمد رفیع نے اپنی آواز سے اس دنیا میں رنگ بکھیرے ہیں، خوبصورتی پیدا کی ہے۔ صفتِ داؤدی کے اِس عظیم مظہر کو یقینآ دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی اور محمد رفیع ہمیشہ زندہ رہے گا۔

نہ فنکار تجھ سا تیرے بعد آیا
محمد رفیع تو بہت یاد آیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments