ایدھی …. کون ایدھی؟


سلطان حسین

\"SULTAN ابراہیم بن ادھم ایک بادشاہ تھے ایک دن دربار میں موجود تھے ‘تمام وزرا، امرا، خوشامدی، درباری اور محافظ باادب اپنے اپنے مقام پر بیٹھے اور کھڑے تھے کسی مسئلے پر مشاورت ہورہی تھی ہر فرد اپنی اپنی ماہرانہ رائے دے رہا تھا کوئی خوشامد میں رطب اللسان تھا کوئی بادشاہ کی خیر خواہی کا دم بھر رہا تھا غرض ہر ایک بادشاہ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اس دوران ایک فقیر دربار میں بے دھڑک داخل ہوگیا محافظ بھی اسے نہ روک سکے فقیر دربار کے درمیان میں پہنچ کر رک گیا بادشاہ اس فقیر کی دلیری پر حیران رہ گیا جو بے دھڑک دربار میں چلا آیا تھا دربار میں موجود ہرفرد کویقین تھا کہ فقیر کی اب باقی زندگی مصائب اور آلام میں گزرے گی اور وہ قید بند میں ہی سسک سسک کر مرے گا بادشاہ ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ اس دوران چند محافظ آگے بڑھ کر اسے گرفتار کرنے لگے تو بادشاہ نے ہاتھ اٹھا کر محافظوں کوآگے بڑھنے سے روک دیا محافظ جہاں کھڑے تھے وہیں رک گئے دربار پر ایک سناٹا چھایا ہوا تھا تھوڑی دیر بعد بادشاہ کی آواز گونجی ابراہیم بن ادھم نے فقیر سے اس کے آنے کا مدعا پوچھا تو فقیر نے بے دھڑک کہ دیا ”مجھے ایک رات گزانے کے لیے یہاں کمرہ چاہیے “دربار میں موجود ہر فرد کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا فقیر دربار کو سرائے سمجھ کر داخل ہوا تھا درباریوں کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ بادشاہ اب تو ان کی گرفتاری کا حکم ضرور دیں گے ابراہیم بن ادھم نے فقیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”یہ بادشاہ کا دربار ہے کوئی سرائے نہیں “فقیر بھی اپنی بات پر اڑا رہا ” آپ سے پہلے یہاں کون تھا “بادشاہ نے جواب دیا ”میرے جد امجد“ ان سے پہلے کون تھے“ فقیر نے اگلا سوال کر دیا”ان کے جد امجد“ بادشاہ نے تحمل سے جواب دیا۔ فقیر نے پھر سوال داغ دیا ”اور آپ کے بعد یہاں کون ہوگا “ بادشاہ گویا ہوئے ”میری اولاد“ فقیر نے بے خوفی سے کہا ”بادشاہ سلامت آپ سے پہلے آپ کے جد امجد تھے ان سے پہلے ان کے جد امجد تھے آپ کے بعد آپ کی اولاد یہاں رہے گی جو بھی آیا اس نے کچھ وقت گزارا اور چلا گیا جوآئے گا وہ بھی کچھ وقت گزار کر چلا جائے گا تو پھر یہ سرائے نہ ہوئی تو کیا ہوئی “

دربار میں ایسی خاموشی چھاگئی کہ سوئی بھی گرتی تو آواز پیدا ہوتی ۔ سب کو اس بات کا انتظار تھا کہ فقیر کی قسمت کا فیصلہ کیا ہو گا بادشاہ پریشان ہوکر سوچ میں پڑ گیا۔ فقیر جس بے خوفی سے آیا تھا اسی بے خوفی سے بے دھڑک واپس چلا گیا کسی کو اسے روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بادشاہ نے دربار برخاست کر دیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اسی پریشانی میں چند دن گزر گئے فقیر کی آمد کے بعد سے بادشاہ پریشان اور سوچوں میں گم رہنے لگا تھا پھر چند دن بعد اس کی رعایا نے یہ بات بھی سنی کہ بادشاہ نے تخت و تاج چھوڑ کر فقیری اختیار کرلی اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہوگئے۔

پھر یہ وہی بادشاہ تھا جس سے ہزاروں لوگوں نے فیض اٹھایا اور اسی بادشاہ کو پھر دنیا ولی اللہ کے طور پر حضرت ابراہیم بن ادھم کے نام سے جاننے لگی جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو بہت لوگ غمزدہ تھے بہت سے دل دکھی تھے ہزاروں لوگ ان کے لیے رو رہے تھے ہر ہاتھ دعا کے لیے اٹھ رہا تھا ۔ یہ دنیا ایک سرائے ہے۔ یہاں ہر روز ہزاروں وارد ہوتے ہیں اور ہزاروں رخصت ہوتے ہیں لیکن جن سے خلق خدا کو فائدہ پہنچا ہو پھر وہ لوگوں کے دلوں میں امر رہتے ہیں دنیا سے جانے کے بعد بھی دنیا اسے یاد رکھتی ہے اگر اس دنیا میں انسان سو سال بھی زندہ رہے تو اس نے اس دنیا سے جانا ہی ہوتا ہے اگر زندگی مال و زر سے ہوتی تو سب امیر اپنے لیے زندگی خریدتے اور صرف غریب ہی مرتے لیکن سب کے لیے یکساں یہ اس ذات کا نظام ہے جس نے پوری دنیا کو پیدا کیا ۔امیر ہو یا غریب ‘ بادشاہ ہو یا گدا سب نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔زندگی ون وے ہے اس پر انسان جا تو سکتا ہے واپس آ نہیں سکتا اگر واپس آنا انسان کے بس میں ہوتا تو لوگ عبدالستار ایدھی جیسے لوگوں کو واپس لے آتے جس کے لیے پوری دنیا غمزدہ ہے جس کے بارے میں سب کہتے ہیں کہ وہ انسانیت کے محسن تھے ‘سادگی ‘محبت ‘خلوص ‘ کے پیکر تھے ‘فخر پاکستان اور فخر انسانیت تھے جن کے اس دنیا سے جانے پرنہ صرف پاکستانی بلکہ پوری دنیا کے لوگ دکھی ہیں‘جن کی رخصت پر ہر مذہب کے لوگوں کی آنکھیں پرنم ہیں وہ ایک پڑھے لکھے انسان نہیں تھے لیکن انہوں نے بڑے بڑے پڑھے لکھوں اور دولت مندوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا کیونکہ ان کے سینے میں ایک درد مند دل دھڑکتا تھا۔ جہاں بھی انسانیت دکھ اور مصیبت میں مبتلا نظر آتی وہ وہاں پہنچ جاتے ان جیسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں

وہ ایسے انسان تھے جہنوں نے جانے کے بعد بھی دو انسانوں کو اپنی آنکھیں دے کر دنیا کی رنگینیوں سے روشناس کرا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالستار ایدھی ہم سب کے کچھ نہیں تھے ا ن سے ہمارااکوئی رشتہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ ہم سب کے لیے بہت کچھ تھے اور ہم سب ان کے لیے دکھی ہیں‘ ہماری انکھیں پرنم ہیں‘ ہم ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ان کی زندگی کی خدمات سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں حالانکہ لوگ پہلے سے ہی اس سے آگاہ ہیں ان پر فخر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ یہ ہماری سرشت میں شامل نہیں ہے ہم ان کو خراج تحسین اور خراج عقیدت تو پیش کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور ان سے عقیدت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن کبھی بھی ان کی طرح بننے کاجذبہ ہم میں پیدا نہیں ہو گا اور اگر ایسا جذبہ پیدا ہو بھی جائے تو یہ وقتی ہوتا ہے ‘ہم بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن پھر یہ دعوے صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں ‘ ہم سب دوسروں سے اس جذبے کی توقع تو کرتے ہیں لیکن خود کو اس سے مبرا سمجھتے ہیں اس لیے اگر کہا جائے کہ ان کی انسانیت کے لیے خدمات کے ہوتے ہوئے بھی جذبے سے خالی اس قوم کے لیے اجنبی ہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ”ایدھی ۔۔۔کون ایدھی؟“ انسانیت کے اس محسن کی زندگی ہمارے لیے اس وقت مشعل راہ ہوگی جب ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں ان کی طرح نہ سہی کم از کم ان کی راہ پر چل کر کچھ لوگوں کے دکھ درد تو دور کرسکتے ہیں کسی کے کام تو آسکتے ہیں ۔ عبدالستار ایدھی کے لیے دنیا غمزدہ ہے وہ لوگوں کے عزیز تو نہیں تھے پھر لوگ کیوں اتنے غمزدہ ہیں لوگ صرف اس لیے غمزدہ ہیں کہ انہوں نے دکھی انسانوں کی خدمت کی یہ وہ جذبہ ہے جو ہر جذبے پر بھاری ہے اسی لیے دنیا ان سے محبت کرتی ہے اورکرتی رہے گی یہ صرف ہم سب کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں ‘امرا، بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور عوامی خدمت کے بڑے بڑے دعوی کرنے والے سب رہنماؤں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ انسانیت کے اس محسن کی دنیا سے رخصتی اور لوگوں کی ان سے محبت ہم سب کے لیے ایک سبق ہے جو اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ دنیا فانی ہے فرعون بھی گیا جس نے خدائی کا دعوی کیا تھا ۔ پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والے سکندر اعظم اور ایران کے پہلے شہنشاہ سارس اعظم بھی گئے جنہوں نے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کر لی تھی ۔ظلم و بربریت کا بازار گرم کرنے والے چنگیزخان اور ان کی اولاد کو بھی جانا پڑا ۔یہ تو طاقت کے گھمنڈ پر اترانے والے اور غرور و تکبر والے انسان تھے اللہ کے محبوب پیغمبر بھی اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے ہم اور آپ تو ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ہم سب نے بھی جانا ہے۔ محلات اور یہ مال دولت یہیں رہ جائے گی پھر کوئی یاد کرنے والا بھی نہیں رہے گا لیکن جو لوگ خلق خدا کی خدمت کرتے ہیں وہ منوں مٹی تلے جا کر بھی امر رہتے ہیں اور تاریخ اس کی شاہد ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ نہ تو ہم تاریخ پڑھتے ہیں اور اگر پڑھتے بھی ہیں تو اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments