واحد بلوچ کی گمشدگی اور دلیل کی مانگ


وجاھت مسعود صاحب اک محبت کرنے والے انسان ہے لیکن دلیل کی استدعا ان سے کی ہے جنہیں محبت چھو کر بھی نہیں گزری۔ انہوں نے\"0001\" (جنگ اخبار کے 30جولائ کےکالم میں) واحد بلوچ کے لئے زندہ رہنے کی ایک اپیل کی کہ اسے زندہ رہنے دیاجاے تاکہ دفاع کرنے والوں کے پاس کوئ دلیل باقی رہے اگر چہ واحد بلوچ فقط واحد بلوچ نہیں جو گم ہے بلکہ بقول صابر ظفر

ایک تم ہی نہیں ، ہم سارے کے سارے گم ہیں

گم ہیں مائیں تو کہیں ماؤں کے پیارے گم ہیں

کوئی محفوظ سر دشت نہ گھر میں کوئی

اے وطن دیکھ ! ترے عشق کے مارے گم ہیں

ایک مدت سے ہمیں اپنا  کوئی ہوش نہیں

ایک مدت سے کئی یار ہمارے گم  ہیں

دلیل کی بات اپنی جگہ کیونکہ کچھ احباب کے پاس دلیل کی بجاے فقط روایات ہیں جو اسطور کو بنیاد بنا کر ریاستی جرم و جبر کو جواز دے رہے ہیں لیکن کچھ لوگوں کا اصرار تھا کہ ان کے پاس دلیل ہے، وہ مکالمہ پہ یقین رکھتے ہیں اور وہ درویش صفت لوگ ہیں پس روایات بھیجنے والوں کو منہ نہیں لگایا اور دلیل والوں سے دلیل مانگی گئی۔ یوں اک سلسہ اور تعلق شروع ہوا لیکن ہمیں کیا خبر تھی کہ دلیل والوں کے دلائل (لاشوں) کو مسخ کرکے یوں و یرانوں میں پھینکنے کا سلسلہ نہیں رکے گا گھروں کو(دلائل) نذرآتش کرکے رعونت بھرے چہروں سے پھولوں کو مسلنے کا سلسلہ نہیں تھمے گا اور آخر کار اہل علم ان سے دست بستہ عرض کریں گے کہ واحد بلوچ کو زندہ رہنے دیا جاے تاکہ ان کے پاس دلیل تو باقی رہے۔

گھروں کو نذر آتش کرنا، مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنا، اجتماعی قبروں اور عورتوں کی آہ بکا کو دیکھ کے یہی لگا تھا کہ اب ان کی دلیلیں اک اک کر کے دم توڑ چکی ہے لیکن کمال دیکھیے کہ اب بھی وہ دلیل رکھتے ہیں۔ روایات والوں کو منہ نہ لگانا اپنی جگہ لیکن اہل علم سے دلیل کی بات اس لیے چھیڑی کہ گر سارتر نہیں تو کوئ جالب ضرور ملے گا۔ لیکن کیا خبر تھی کہ یہاں پر بھی تاریخ، مطالعہ پاکستان کی تنگنائے سے نکلتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ان کی محبت بجا کہ وہ دلیل کے نام پہ کم از کم آواز تو دے رہے ہیں کہ\” واحد بلوچ کو زندہ رہنے دیا جاے\”لیکن وہ کب تک ان عناصر کےجرائم پہ پردے ڈال کر ان سے محبت کی بینگیں بڑھائیں گے اور بلوچوں کو زندہ رکھنے کی استدعا کر کےاپنے لیے دلیل کی عمارت بھی کھڑی کریں گے۔ میں ا نہیں یقین دلاتا ہوں کہ اک واحد بلوچ کے جانے سے دلیل گر باقی نہ بھی رہے تو وہ بغیر دلیل کے بھی اپنی بات جاری و ساری رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ دنیا فن تحریر دیکھتی ہے، دلیل نہیں۔ یہ دنیا تعلقات (واہ واہ) کے پیچ و خم کو دیکھتی ہے، دلیل نہیں ، یہ دنیا ناموری دیکھتی ہے، دلیل نہیں۔ یہ دنیا مفادات دیکھتی ہے، دلیل نہیں۔ ا گر یہ دنیا دلیل دیکھتی اور دلیل پہ چلتی تو کیا مبشر لقمان و ڈاکٹر دانش جیسے لوگ دانشوری کے فراہض سر انجام دیتے؟ جیسے کہ اوریا مقبول اینڈ کمپنی اپنی خرافات جاری و ساری رکھ سکتے ہیں تو آپ لوگ کیوں نہیں ؟اور مجھے یقین ہے کہ بغیر دلیل کے بھی آپ لوگ زینہ پہ زینہ مقبولیت کے عروج کو چھو لیں گے کیو نکہ واحد بلوچ فقط واحد بلوچ نہیں جنہیں زندہ رکھ کر وہ آپ لوگوں کو دلیل کی بنیاد فراہم کریں گے۔ وہ دلیل مسخ کرتے رہیں گے اور آپ لوگ دلیل مانگتے رہیں گے۔ دلیل یہاں پہ موت ہے اور فن تحریر و تقریر زندگی۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments