چھوٹ کے لڈو بانٹنا بند کیجئے


\"edit\"یہ بظاہر ایک غیر اہم خبر ہے۔ ملک کا وزیر خزانہ ملک کے دفاع کی ذمہ دار افواج پاکستان کےلئے ایک معمولی سی سہولت کا اعلان کر رہا ہے۔ لیکن یہ چھوٹا سا غیر اہم اعلان اور معمولی سی رعایت ایک اہم اصول سے متصادم ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑی خبر ہے۔ ملک میں مالی بدعنوانیوں کے حوالے سے جو مباحث ہم آئے روز سنتے اور دیکھتے ہیں، اس قسم کے فیصلے انہیں اہم بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ملک کی کالی معیشت یا بلیک اکانومی کو کنٹرول کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ بہت سی ناجائز دولت رئیل اسٹیٹ یا املاک میں لگا دی جاتی ہے اوراس کی فروخت سے سرمایہ دار غیرضروری طور پر زیادہ منافع حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اس لین دین سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اسحاق ڈار اس صورتحال کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے املاک کی قیمتوں کا تعین فیڈرل بورڈ آف ریونیو FBR  سے کروانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ طے کیا گیا ہے کہ اب جائیداد کا انتقال ان مقررہ قیمتوں کے مطابق ہو گا۔ اس کے علاوہ جائیداد کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس وصول کرنے کا نیا طریقہ وضع کیا جا رہا ہے۔ یہ سارے خوش آئند اقدام ہیں۔ تاہم اب وزیر خزانہ کہتے ہیں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ملنے والے پلاٹوں کی فروخت پر ہونے والی آمدنی پر یہ ٹیکس CGT عائد نہیں ہو گا۔ استثنیٰ یا چھوٹ کے اسی قسم کے طریقوں پر ہی بدعنوانی کا نظام استوار ہے۔

کسی کو پاک فوج کی خدمات سے انکار نہیں ہے۔ گو کہ پاک فوج کے چار سربراہان نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 33 برس تک اس ملک پر حکومت کی ہے۔ ان حکومتوں کے بعض ادوار بنیادی حقوق کے حوالے سے بدترین بھی ثابت ہوئے ہیں۔ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو انسانیت سوز سزائیں دی گئیں اور جمہوریت ، آزادی اور عزت و وقار کا مطالبہ کرنے والوں کو مجرموں کی طرح عقوبت خانوں میں بند کیا گیا۔ اس کے باوجود قوم نے کبھی پاک فوج کو بطور ادارہ مورد الزام نہیں ٹھہرایا۔ 1971 میں نصف ملک دشمن کی فوجوں کے حوالے کرنے والے اور بھارت کے جرنیل کے سامنے ہتھیار پھینکنے والے پاکستانی جنرل اور فوجیوں کو آزاد کروانے کےلئے اس ملک کے ایک سیاسی حکمران نے ہی بھارت کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ ان فوجی افسران سے کبھی ان کی کوتاہیوں پر باز پرس بھی نہیں کی گئی اور نہ یہ سوال اٹھایا گیا کہ انہوں نے ہتھیار پھینکنا کیوں گوارا کر لیا۔ پاک فوج سے عوام کی محبت کا تعلق کبھی کمزور نہیں ہوا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک بڑے اور زبردست ہمسایہ ملک کے ساتھ دشمنی کے مسلسل رشتہ کی وجہ سے پاک فوج ہی اس ملک کے دفاع اور حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ تاہم اس کی دوسری اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ پاک فوج کے افسر اور جوان بھی اسی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کسی کے بھائی اور کسی کے بیٹے ہیں۔ وہ ہم میں سے ہی ہیں۔ یہ قوم اس قدر عظیم ہے کہ وہ ایک فرد یا چند لوگوں کی غلطیوں کی سزا سب لوگوں یا کسی ایک ادارے کو دینے کی روادار نہیں ہے۔

پاک فوج کو یہ غریب قوم اپنے قیمتی وسائل فراہم کرتی ہے۔ اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان حدود میں رہتے ہوئے قومی خدمت سرانجام دے گی جو ملک کا آئین اس کےلئے مقرر کرتا ہے۔ اس لئے جب کوئی جرنیل متفقہ طور سے بنائے گئے آئین کو کاغذ کا پرزہ قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہے تو اس کے خلاف احتجاج کی صدائیں بھی بلند ہوتی ہیں اور فوج کو بیرکوں میں واپس جانے اور سرحدوں کی حفاظت کرنے کا فرض ادا کرنے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ اسی تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ جب جنرل راحیل شریف جیسے زیرک فوجی کمانڈر کی قیادت میں فوج ملک و قوم کو درپیش دہشت گردی کے خطرہ سے نجات دلانے کےلئے میدان میں اترتی ہے تو پوری قوم اس فیصلے اور عمل میں اس کے ساتھ ہوتی ہے اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ جنرل راحیل شریف جب یہ بتاتے ہیں کہ ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کرنے کےلئے ان مالی وسائل کا سراغ لگانا اور اس بدعنوانی کو ختم کرنا بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے دہشتگرد گروہوں کو مالی معاونت ملتی ہے تو بھی عوام بیک آواز اس صدا پر لبیک کہتے ہیں۔ اس عمل میں اگرچہ سیاسی انتقام یا غلط بنیادوں پر گرفتاریوں اور مقدمات کے الزامات بھی سامنے آتے ہیں۔ آئین اور قانون کے حوالے بھی دیئے جاتے ہیں لیکن مفاد عامہ میں لوگ اور ان کے نمائندے عام طور سے فوج کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ سندھ کی حکومت اگر رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کرنے میں تاخیر کرتی ہے تو وزیراعظم خود متحرک ہوتے ہیں بلکہ تازہ ترین صورتحال میں تو وفاقی حکومت نے خصوصی اختیارات کے تحت رینجرز کو سندھ میں کارروائی جاری رکھنے کا اختیار دیا ہے۔

ان سب کے باوجود اس ملک کا نظام صرف اس صورت میں کام کر سکتا ہے جب قانون اور قاعدہ کے سامنے سب لوگوں اور اداروں کو یکساں طور سے جوابدہ کیا جائے۔ جب فوج کے جوان اور افسر بھی اسی طرح ملک میں بنائے جانے والے قواعد و ضوابط کو مانیں، جن پر باقی سب لوگوں کو عمل کرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے وزیر خزانہ نے جائیداد و املاک کی خرید و فروخت کے ضمن میں منافع پر عائد ہونے والے ٹیکس سے فوج کو جو خصوصی چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے، وہ ناقابل فہم بھی ہے اور اسے قبول بھی کرنا مشکل ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان کے نظام میں بے شمار خرابیاں ہیں۔ انہیں کسی ایک فیصلہ سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں عدم مساوات اور قانون کے سامنے جوابدہی کے حوالے سے جو عدم توازن موجود ہے ، وہ بھی آسانی سے ختم نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر کسی دکان سے چوری کرنے والا ایک غریب شخص اس جرم پر کئی ماہ یا سال تک جیل میں سڑتا رہے گا کیونکہ اس کے پاس ہوشیار اور عقلمند وکیل کرنے کے وسائل نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس کسی بینک سے کروڑوں کا غبن کرنے والا بینکر یا تاجر شاید گرفتاری سے پہلے ہی ضمانت کروانے میں کامیاب ہو جائے گا کیونکہ اس کے پاس اعلیٰ ترین قانونی صلاحیت کو حاصل کرنے کےلئے دولت موجود ہوتی ہے۔ اس سے کوئی دریافت نہیں کرتا کہ غبن کے جرم سے بچنے کےلئے جو وسائل وہ صرف کر رہا ہے ۔۔۔۔ کیا وہ بھی تو کسی دوسرے غبن کے ذریعے ہی حاصل نہیں کئے گئے۔

اس کے باوصف اگر اس قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں بہتری کی طرف قدم بہ قدم بڑھنا ہے۔ برائیوں کا راستہ روکنے کےلئے چھوٹے چھوٹے اور اہم فیصلے کرنے ہیں تو اس بات کا اہتمام بہرحال ضروری ہو گا کہ ان فیصلوں میں توازن ہو، انصاف کے تقاضے پورے ہوں، غریب اور امیر اس سے یکساں استفادہ کر سکیں اور استثنیٰ یا چھوٹ کے نام پر ایسے امکانات نہ پیدا کئے جائیں جو بعد میں ایک نئی مشکل اور پریشانی کا سبب بن جائیں۔ املاک کی خرید و فروخت پر ٹیکس و محاصل کی ادائیگی کا معاملہ بھی اسی اصول کی بنیاد پر طے ہونا ضروری ہے۔ اس میں استثنیٰ کی گنجائش پیدا کرنا قومی مفاد میں نہیں ہو گا کیونکہ اس طرح معاشرے کو طبقات، عام اور خاص، چھوٹ کے بغیر یا چھوٹ حاصل کرنے والے گروہوں میں تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ طریقہ ماضی کے متعدد فیصلوں کی وجہ سے متعدد شعبوں میں مختلف طریقے سے نافذ کیا گیا ہے۔ لیکن ماضی کے غلط فیصلوں سے ہونے والے نقصان سے سبق سیکھتے ہوئے، اس طریقہ کار کو بدلنے اور اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ ویسے ہی غلط فیصلے کرتے ہوئے عدم مساوات اور عدم توازن کے نئے راستے کھولنے کا رویہ غلط ہے۔

نہ جانے کیوں لیکن ملک میں یہ طریقہ وضع کر لیا گیا تھا کہ فوج کے افسروں کو ایک خاص طریقہ کے مطابق مراعات دی جائیں گی جن میں رہائشی پلاٹوں اور زرعی اراضی الاٹ کرنے کی سہولت بھی شامل ہے۔ اسی طرح صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے سرکاری ملازمین اور پسندیدہ افراد کو رہائشی پلاٹ دینے کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ یہ دونوں نظام کسی نہ کسی طرح سے ابھی تک کام کر رہے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ ملک ابھی بمشکل 70 برس کا ہوا ہے۔ اس کی دسترس متعین حدود میں شامل وسائل اور رقبے پر ہے۔ پلاٹ بانٹنے اور زرعی اراضی دینے کا طریقہ ہمیشہ کےلئے جاری نہیں رہ سکتا۔ ملک کا رقبہ خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ حکومت خواہ کتنی ہی بااختیار کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔ آخر وہی وسائل تقسیم کر سکتی ہے جو اسے میسر ہوں۔ جب یہ وسائل دستیاب نہیں ہوں گے تو آنے والی نسلوں کے فوجیوں کو پلاٹ اور اراضی کہاں سے دی جائے گی۔ تاہم یہ ایک علیحدہ اور گنجلک بحث ہے۔ یہ اس پر گفتگو کرنے کا موقع نہیں ہے۔ لیکن وزیر خزانہ کے بیان کی روشنی میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بڑے مقاصد حاصل کرنے کےلئے چھوٹے قدم اٹھانے پڑتے ہیں۔ تب ہی فرد ہو یا قوم ۔۔۔۔۔ منزل مقصود تک پہنچ پاتے ہیں۔ اگر اس عزم کا مظاہرہ نہیں ہو گا۔ اگر منزل کی طرف قدم اٹھانے کے عمل کا آغاز نہیں ہو گا تو منزل تو ہمیشہ دور ہی رہے گی۔

استثنیٰ یا چھوٹ دینے سے انکار کا اصول بھی ایک ایسا ہی اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے جو اس قوم کو اپنی منزل کی طرف گامزن کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ لیکن حکومت نے اگر اس اصول کر سمجھنے سے گریز کیا اور نئے محاصل عائد کرتے ہوئے استثنیٰ حاصل کرنے والوں کی فہرستیں الگ سے تیار کر لی گئیں تو ہمیشہ کی طرح دوڑ قوم کی ترقی اور بہبود کےلئے نہیں ہوگی بلکہ اس قسم کی خاص فہرستوں اور طبقوں میں شامل ہونے کی تگ و دو جاری رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments