پختونخوا: پٹواریوں کی سازشیں اور نیا پاکستان


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

پختونخوا میں گزشتہ تین سال سے نیا پاکستان زور و شور سے تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس کے اثرات اب ہر جگہ نمایاں ہیں۔ اس ترقی کو دیکھ کر تمام پٹواری شدید پریشانی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب اسے ناکام بنانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے لیڈر عمران خان اور مولانا سراج الحق مل کر ان کرپٹ پٹواریوں کی تمام سازشیں ناکام بنا رہے ہیں جس کے تمام اخبارات شاہد ہیں۔ اس ضمن میں دو اہم ترین شعبے صحت اور تعلیم کے ہیں جن پر ’نیا پلس صالح پاکستان‘ اپنی تمام تر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

سب سے پہلے صحت کی بات کرتے ہیں۔ نیوز اخبار کے مطابق خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کی سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے کے مراکز صحت کی حالت اچھی نہیں ہے۔ پٹواریوں کی سازش کی وجہ سے اس وقت ڈیڑھ ہزار بنیادی مراکز صحت میں پچاس فیصد لازمی ادویات غائب ہو چکی ہیں۔ اب تو آپ کو ہمارے لیڈر عمران خان صاحب کی بات پر یقین آ جانا چاہیے کہ یہ کرپٹ پٹواری ہر شے کو بیچ کھائیں گے۔

اس کے علاوہ کوئی نہ کوئی چکر چلا کر پٹواری صوبے کے تقریباً ایک سو ساٹھ مراکز صحت بند کر چکے ہیں۔ کچھ کے بارے میں اطلاع ہے کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ڈاکٹر وہاں کا رخ نہیں کرتے ہیں، اور کچھ میں ڈاکٹر بھرتی ہی نہیں کیے گئے ہیں۔ لیکن کچھ شہری علاقوں کے مراکز بھی بند پائے گئے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ لاہور سے بھیجے گئے پٹواری وہاں رات کو تالے لگا کر بھاگ گئے ہیں اور ڈاکٹر اور دوسرا عملہ ان مراکز کے اندر جانے سے قاصر ہے اور وہ مجبوراً بند پڑے ہیں۔

لیکن یہ سازش صرف پٹواری نہیں کر رہے ہیں۔ آپ کراچی کی خبریں پڑھتے ہوں تو آپ کو علم ہو گا کہ وہاں چائنا کٹنگ اور قبضہ گروپ بہت زیادہ ہیں جن کو ایم کیو ایم کے پتنگے اور پیپلز پارٹی کے جیالے چلاتے ہیں۔ یہ بات مصدقہ ہے کیونکہ یہ ہمارے لیڈر عمران خان اور قاضی سراج الحسن کئی مرتبہ بتا چکے ہیں۔ اب یہ گروپ خیبر پختونخوا میں بھی سرگرم ہو چکے ہیں تاکہ ہمارے لیڈروں عمران خان اور سراج الحق کے نئے صالح پاکستان کو ناکام بنا سکیں۔ انہوں نے کاری ترین وار حکومت کے اہم ترین شعبے، یعنی صحت پر ہی کیا ہے۔

\"kpk-hospital\"

اطلاعات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں اٹھاون بنیادی مراکز صحت پر پٹواری دکھنے والے افراد نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے کارکن دکھنے والوں سے مل کر قبضہ کر لیا ہے۔ ان میں سے تیس بنیاد مراکز صحت ہیں، تیرہ دیہاتی مراکز صحت ہیں اور سات اعلی مراکز صحت ہیں جن میں ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال، سول ہسپتال، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال وغیرہ بھی شامل ہیں۔ لیکن ہماری حکومت کی کامیابی کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ سوا سو اعلی مراکز صحت میں سے صرف سات پر قبضہ ہوا ہے، باقی محفوظ ہیں۔

ہمارے لیڈر عمران خان اور سراج الحق صاحبان نے صحت کے شعبے کے علاوہ اپنی مکمل توجہ تعلیم کے شعبے کو بھی دی ہوئی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ دونوں ہی صوبے کے عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے اتنے زیادہ خواہاں تھے کہ حکومت کی تشکیل کے وقت دونوں میں اختلاف ہی تعلیم کی وزارت پر ہوا تھا۔ اسی سے آپ کو ان دونوں کے نزدیک تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہو گا۔

\"rickshaw\"

ادھر پنجاب میں تعلیم کی اتنی بے قدری ہے کہ لاہور کا ایک رکشہ ڈرائیور دکھائی دیا جس نے نہ جانے کتنے ایم اے کر رکھے ہیں، اور ایک کتاب کا مصنف بھی ہے، جسے وہ رکشے کی سواریوں کو صرف پچاس روپے میں فروخت کر دینے پر مجبور ہے۔ ایم اے انگریزی، تاریخ، مطالعہ پاکستان اور ایم ایڈ کی ڈگری رکھنے والا یہ شخص رکشہ چلانے پر مجبور ہے۔ اسی سے آپ کو پتہ چل جانا چاہیے کہ پٹواریوں کی حکومت میں علم حاصل کرنے والوں کا کیا انجام ہو گا۔ وہ رکشے چلائیں گے یا پھر پرائمری سکولوں کے بچوں کی ماسٹری کریں گے۔

ہمارے نئے پاکستان کی حکومت کو تین سال تو لگ گئے ہیں، مگر اب اس کی توجہ کا ثمر عوام کو ملنے لگا ہے۔ کل ہی مالاکنڈ کے بورڈ کا ریزلٹ آیا ہے اور وہاں تیمرگرہ ضلع دیر کے پسماندہ ترین علاقے سے ایک گمنام سے کالج نے ہائیر سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ، یا آسان الفاظ میں ایف ایس سی لیول پر، کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔

بورڈ کی کل بیس پوزیشنوں پر ستائیس بچے براجمان ہیں۔ ان میں سے چودہ اسی پسماندہ علاقے کے اسلامیہ ماڈل کالج بلامبٹ، تیمر گرہ کے ہیں۔ ٹاپ ٹین پوزیشنوں میں سے سات اسی بہترین کالج نے حاصل کی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بھی شاید کوئی ہنزہ جیسا ترقی یافتہ علاقہ ہے جہاں لوگ تعلیم کے دیوانے ہیں۔

\"BISEنہیں صاحب، پہلے یہ صورت حال نہیں تھی۔ سنہ 2012 میں اسلامیہ کالج بلامبٹ تیمرگرہ کے پاس دس میں سے صرف تین پوزیشنیں تھیں۔ سنہ 2014 میں بھی یہی صورت حال تھی۔ سنہ 2015 میں تو دس میں سے صرف دو پوزیشنیں اس کالج نے حاصل کی تھیں۔ مگر انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور محنت جاری رکھی اور سنہ 2016 میں اس کا ثمر پایا اور دس میں سے سات پوزیشنیں یہ کالج لے اڑا۔

ہم اس کالج کے طلبا، سٹاف اور مالک کی جتنی تعریف بھی کریں وہ کم ہے۔ ایسے ہی محنت کرتے رہے تو ایک دن یہ ایک ہزار میں سے نو سو اکانوے نمبر حاصل کرنے کی بجائے ہزار میں سے گیارہ سو نمبر بھی لے سکتے ہیں۔

\"malakand-1\"

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک نجی کالج کے طلبا کے اس طرح بورڈ کی پوزیشنیں کلین سویپ کرنے میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا کیا کارنامہ ہے جو کہ ہم اس کا کریڈٹ ان دونوں جماعتوں کو دے رہے ہیں۔ آپ میں سے جو پٹواری، جیالے یا پتنگے ہیں وہ تو یہی کہیں گے کہ یہ ہماری تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سے محبت ہے جو کہ ایک نجی ادارے کی کامیابی کا کریڈٹ بھی ہم ان جماعتوں کو دے رہے ہیں۔ نا صاحب نا، یہ آپ کا تعصب ہے جو کہ آپ کو حق دیکھنے سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ کیا آپ کو علم ہے کہ اسلامیہ ماڈل کالج بلامبٹ، تیمر گرہ کا مالک کون ہے؟

اسلامیہ ماڈل کالج بلامبٹ تیمر گرہ کا مالک کوئی اور نہیں، بلکہ ہماری ہردلعزیز حکومت کے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ جناب مظفر سید صاحب ہیں۔ مظفر صاحب کی یہی لگن ہے جس کی وجہ سے پٹواری ان کے خلاف پے در پے سازشیں کر رہے ہیں۔ پٹواریوں کو علم ہے کہ اگر مظفر صاحب کو کھل کھیلنے کا موقع دے دیا گیا، تو وہ ایسی مثال قائم کریں گے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد پنجاب، بلکہ پورے پاکستان پر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

\"malakand-2\"

مظفر سید صاحب پر پہلا وار اس وقت کیا گیا جب گزشتہ سال کسی پٹواری نے بینک آف خیبر کی طرف سے اخبارات میں یہ اشتہار چھپوا دیا کہ وہ بینک آف خیبر کے معاملات میں غیر قانونی مداخلت کر رہے ہیں اور ادھر سیاسی بنیادوں پر اپنے عزیز رشتے داروں کو بھرتی کروانا چاہتے ہیں جبکہ بینک ایک خود مختار ادارہ ہے اور صرف اس کا بورڈ ہی اس کو چلا سکتا ہے اور وہ صوبائی وزیر خزانہ کا ماتحت ادارہ نہیں ہے۔ یہ بھی کہا کہ بینک کے خرچے پر وزیر خزانہ جلسے کرتے ہیں۔

انتہائی غلط موقف ہے اس بینک آف خیبر کا۔ کاغذ جو بھی کہتے رہیں مگر اس بینک کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کا بینک ہے اور اس لحاظ سے صوبائی وزیر خزانہ اس کے مائی باپ ہیں۔ اور اگر وہ سیاسی لوگوں کی بھرتیاں کروانا چاہتے ہیں یا رشتہ داروں کو بینک میں رکھنا چاہتے ہیں، تو ان کی دید لحاظ کی تعریف کی جانی چاہیے نہ کہ ان میں کیڑے نکالے جائیں۔ اس گئے گزرے دور میں بھلا اور کون صاحب حیثیت شخص ہے ہے جو اپنے غریب رشتے داروں کو پوچھتا ہے؟ جہاں تک سیاسی بنیاد پر بھرتی کی بات ہے تو ہر ووٹر سیاسی شخص ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ ڈالتا ہے۔ ایسے میں اگر بینک کا موقف درست تسلیم کیا جائے، تو ووٹر لسٹ میں نام رکھنے والے ہر اہلکار کو اس بینک سے نکال دیا جانا چاہیے۔

\"malakand-3\"

شکر ہے کہ اس پر امیر الصالحین سراج الحق نے حق کا ساتھ دیا اور کہنے لگے کہ بینک کو وہ قانونی نوٹس دے دیں گے۔ لیکن پٹواریوں کی سازش دیکھیں کہ محکمہ ڈاک سے بھیجا گیا قانونی نوٹس چار ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک بینک کو موصول نہیں ہوا ہے۔ آپ کو علم ہو گا کہ محکمہ ڈاک ایک وفاقی محکمہ ہے جو کہ مسلم لیگ ن کی بات نہیں ٹال سکتا ہے۔ مظفر سید صاحب نے قوم کو تسلی دی کہ بینک کی بہتری کے لیے وہ کام جاری رکھیں گے۔ جماعت اسلامی نے حمیت سے کام لیتے ہوئے حکومت سے علیحدگی پر غور شروع کر دیا اور مومنانہ فراست کی وجہ سے چار ماہ سے مسلسل غور کر رہے ہیں۔ جیسے ہی 2018 تک اس غور و فکر اس کا کوئی نتیجہ نکلا تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ ادھر وزیراعلی پرویز خٹک نے بینک کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا ہے جو کہ چار ماہ سے جاری ہو گی۔

\"muzaffar-said-shah\"

آپ کو اب اندازہ ہو چکا ہو گا کہ یہ کون عظیم شخص ہے جس کی کارکردگی سے پٹواری اور عوامی نیشنل پارٹی والے اس حد تک خوفزدہ ہیں کہ اس کے خلاف پے در پے سازشیں کر رہے ہیں۔ اب اس عظیم شخص کے نجی کالج نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں تو پٹواری یہ الزام لگا رہے ہیں کہ چند ماہ پہلے انہوں نے بورڈ آف مالاکنڈ کے چیئرمین کا تقرر کیا ہے جس سے ایسا کلین سویپ کر دینے والا ریکارڈ توڑ ریزلٹ آیا ہے۔

یہ پرائمری فیل پٹواری اتنی بات بھی نہیں جانتے کہ کالج کو پرنسپل چلاتا ہے، بورڈ کا چیئرمین نہیں۔ یہ الزام بھی لگانے لگے کہ ایسے ریزلٹ والے بچے جب پروفیشنل کالج میں جانے کے لیے اینٹری ٹیسٹ دیتے ہیں تو پوزیشن ہولڈر بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ الزام خود ہی اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ اینٹری ٹیسٹ لینے والے ادارے پر پٹواری اور عوامی نیشنل پارٹی والے چھائے ہوئے ہیں جو کہ ہماری حکومت کو ناکام کرنے کے لیے کسی حد تک بھی گر سکتے ہیں۔

\"islamia-model-college\"

ویسے بھی کالج نے ان طلبا کی تصویر لگائی ہوئی ہے جو کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کالج میں پڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو اتنے زیادہ تعلیم یافتہ دکھائی دے رہے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ غلطی سے کالج کے پروفیسر کی تصویر ہی لگا دی ہے۔ ایک صاحب کو یہ اعتراض کرتے دیکھا کہ ٹاپ بیس پوزیشن والے ستائیس بچوں میں سے ایک بھی کسی سرکاری کالج سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔ جھوٹ کی انتہا ہوتی ہے لیکن یہ پٹواری تو کسی انتہا کے قائل ہی نہیں ہیں۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ پندرہواں پوزیشن ہولڈر بچہ سرکاری کالج سے تعلق رکھتا ہے۔

جہاں تک اسلامیہ ماڈل کالج بلامبٹ تیمر گرہ کی اس حیرت انگیز کامیابی کا تعلق ہے، تو یہ صرف اللہ کی مہربانی، کالج کے مالک کی توجہ، سٹاف کی لگن اور بچوں کی محنت کا نتیجہ ہے کہ ایسا ریزلٹ آیا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان اور سراج الحق صاحبان کو بھی کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے ایسا رتن اپنی کابینہ میں سجا رکھا ہے۔ کچھ عرصے پہلے سراج الحق صاحب نے جب یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت میں پرائمری سکول کے بچوں کو بھی پی ایچ ڈی اساتذہ تعلیم دیں گے تو پٹواری خوب ہنسے تھے۔ لیکن اب وہ شرمندہ پھر رہے ہوں گے اور سوچ رہے ہوں گے کہ جلد ہی جب اسلامیہ ماڈل کالج بلامبٹ تیمر گرہ پی ایچ ڈی کی کلاسیں شروع کرے گا، تو اس کے فارغ التحصیل سکالروں کو پرائمری بچوں کو تعلیم دیتے ہوئے ہی دیکھا جائے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments