اسلامسٹ جمہوریت کی کتھا


\"abdulبھائی عامر خاکوانی منجھے ہوئے کالم نویس اور صحافی ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کی رائے عمومی طور پر متواز ن ہوتی ہے اور اشتعال انگزیزی سے پرہیز کرتے ہیں۔ اعلانیہ طور پر اسلام پسند ہیں اور اپنے موقف کے ساتھ مخلص۔ اس ناچیز نے کئی برس قبل ایکسپریس اخبار میں ان کے کالم پڑھنے شروع کئے اور ان کے مداحین میں شمار ہوتا ہے۔ ترکی میں پیش آنے والے گزشتہ مہینے کے واقعات پر انہوں نے حال ہی میں ایک کالم لکھا بنام ’ترکی پر ایک اور کالم‘ جس میں ہمیں کچھ جملہ ہائے معترضہ نظر آئے اور یہ مضمون ان غلط فہمیوں کے متعلق ہماری رائے پر مشتمل ہے۔ ان کے مضمون پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے قبل ایک شکوہ کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔ ہماری ناقص رائے میں اردو کالم نگاروں کا بحیثیت مجموعی المیہ یہ ہے کہ وہ کتب بینی کے شوقین نہیں، اور اپنے موقف سے مختلف کتاب کی تو شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔انگریزی تو ایک طرف، اردو کی معیاری کتب کی طرف توجہ ندارد۔ اس گروہ میں سب کالم نگار شامل نہیں لیکن بات اکثریت کی ہے، انگریزی محاورے کے مطابق Exceptions prove the ruleوالا معاملہ ہے۔اس کمی کے باعث وہ اپنے موقف کی تائید (یا مخالفت) میں لکھی گئی کتب اور تحقیقی جرائد کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور ایک ہی بات مختلف انداز میں کرنے کی مشق میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ برس پہلے واشنگٹن پوسٹ اور امریکی ریڈیو NPRکا دفتر دیکھنے کا موقع ملا تو ہم ششدر رہ گئے کہ ان صحافیوں کے میز مختلف النوع کتابوں سے لبریز تھے۔صحافی کا کام صرف خبر بنانا اور اس کی نوک پلک سنوارنا نہیں بلکہ دنیا پرنظر رکھنا اور مختلف نقطہ ہائے نظر سے واقف رہنا بھی ایک ذمہ داری ہے۔ جناب نے لکھا:’اردوان کا گورننس ماڈل دنیا بھر میں ایک کامیاب اسلامسٹ ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘، ’ترکی میں جناب اردوان کی بے مثال کامیابیاں بحث سے بالاتر ہیں‘، ’فتح اللہ گولن کے خفیہ نیٹ ورک کی اصطلاح پڑھ کر حیرت ہوتی ہے‘۔

کیلیفورنیا کی برکلے یونیورسٹی کے استاد جہان تو وال (CihanTugal)نے اپنی کتاب ’The Fall of Turkish Model‘ میں اک پارٹی اور اردوان کی گورننس کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ ان کے مطابق اک پارٹی نے مذہب اور سرمایہ دارانہ نظام کے ملاپ کو فروغ دیا اور اس عمل کی پشت پناہی عالمی سرمایہ دارانہ اداروں کی جانب سے ہوئی۔ سنہ 2002ء سے 2013ء تک عالمی ادارے اور حکمران ترکی کے ’ماڈل‘ کو باقی اسلامی دنیا کے لئے ایک سانچے(Template) اور مثال کے طور پر پیش کرتے تھے۔ صدر جارج بش نے 2004ء میں استنبول کے ساحل پر ایک تقریر کی جس میں کہا:’آپ کا ملک جمہوری اور سماجی تبدیلی کے حوالے سے ایک عمدہ مثال ہے اور یورپ کو باقی دنیا سے ملاتا ہے۔ آپ کی کامیابی یورپ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کی ترقی اور امن کے لئے ضروری ہے۔‘ دی اکانومسٹ نامی موقر جریدے نے 2011ء میں لکھا:’شمالی افریقہ سے بحیرہ عرب تک ہر طر ف ’ترکی ماڈل‘ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔‘یہ ماڈل معروضی حالات کی وجہ سے محدود عرصے تک ترکی میں کامیاب رہا اور یہ کامیابی کسی اور مسلم ملک میں حاصل نہیں ہو سکی۔ پروفیسر جہان تووال نے اس ماڈل کو اسلامی لبرلزم کا نام دیا، کہ یہ پارلیمانی جمہوریت، فری مارکیٹ کیپٹل ازم اور اسلام پسندی کا امتزاج تھی۔ ان کے مطابق یہ ماڈل ایرانی ماڈل کی ضد کے طور پر پیش کیا گیا جس میں انقلاب اورکاروبار کو مذہب میں مدغم کیا گیا تھا۔ ترکی کا ماڈل شروع ہی سے خارجیت پر مبنی(Exclusionary) تھا اور اس میں اقلیتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ سنہ 2013 ء میں اس ماڈل سے فائدہ اٹھانے والا طبقہ یعنی شہری مڈل کلاس اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور پولیس نے ان سے نبٹنے کے لئے جبر وتشدد کا سہارا لیا۔ ترکی میں عدلیہ اور صحافیوں کو محدود آزادی حاصل ہے اور اردوان کی ذات پر تنقید کرنا غداری کے زمرے میں آتا تھا۔ ترک ماڈل تو خود ترکی میں نہیں چل سکا جہاں غیزی پارک اور پھر پندرہ جولائی کی فوجی سازش ظہور پذیر ہوئی۔ مصر میں اخوان کی حکومت آئی تو مطلق العنانی کا لبادہ اوڑھ لیا گیا(واضح رہے کہ میں جنرل سیسی کی حمایت نہیں کرتا اور تمام تر خرابیوں کے باوجود اخوان کی حکومت برطرف ہونے کی بھرپور مخالفت کرتا ہوں)۔

\"fethullah-gulen-76\"

مندرجہ بالا کالم میں برادرم خاکوانی نے گولن تحریک کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے لیکن ان کے تاثرات سرسری مطالعے یا مشاہدے کا نتیجہ لگتے ہیں۔ گولن سکولوں میں پڑھنے والے کچھ احباب سے خاکسار کی گفتگو ہوئی تو بہت سے بھید کھلے۔ ان تجربات کی روشنی میں گولن تحریک کو خفیہ نیٹ ورک کہنا حقیقت کے عین مطابق ہے۔ امریکہ میں ایک گولن سکول کے طالب علم نے بتایا: ’میری والدہ نے اپنی تئیں مجھے ترک مسلم تعلیم کی خاطر کئی سال گولن سکول اور دیر شانے(ٹیوشن سنٹر) میں بھیجا۔ ہمارے سکول کے کئی اساتذہ ترکی سے درآمد کئے جاتے تھے جنہیں انگریزی بھی ٹھیک سے نہیں آتی تھی۔ سکول انتظامیہ امیر والدین کے بچوں پر بھرپور توجہ دیتی اور چونکہ میرے والدین درمیانے طبقے سے تھے، مجھے اور مجھ جیسے طلباء کو نظر انداز کیا جاتا۔ شادی سے پہلے آپ کو اپنے آبی/آبلا(ترکی زبان میں بڑے بھائی اور بہن کے لئے استعمال کئے جانے والے الفاظ لیکن گولن سکولوں میں اساتذہ کو یہ القاب دیے جاتے ہیں) سے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی۔ سب سے پہلے وہ اپنے ہی نیٹ ورک میں ’مناسب رشتہ‘ دیکھ کر آپ کو مطلع کرتے تھے اور اگر آپ راضی ہو جاتے تو وہیں آپ کی شادی ہو جاتی۔ لیکن اگر آپ اثر و رسوخ رکھتے تو آپ پر کوئی قید نہ تھی۔

دیرشانے میں ہم پڑھائی وغیر ہ کیا خاک کرتے، آبی ہمیں کھانے کے پیسے دیتے اور ہم سارا وقت ویڈیو گیمز کھیلتے رہتے۔ دیرشانے کی جگہ کچھ طلبہ کو آبی کے گھروں میں بھیجا جاتا اور ہمیں سخت ہدایت تھی کہ اس کے متعلق کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ اگر آپ اس نیٹ ورک کو پیسے دیتے رہتے تو آپ کی زندگی سکون میں گزرتی وگرنہ آپ کو اور آپ کے والدین کو مسلسل طعنے ملتے رہتے۔ اگر آپ کا داخلہ امریکی یونیورسٹی میں ہو جاتا تو یہ لوگ آپ کو پابند کرتے کہ ہوسٹل میں نہیں رہنا بلکہ ان کے کسی قریبی دیرشانے میں رہائش اختیار کی جائے (جہاں پانچ سے چھے لوگ ایک کمرے میں رہتے)۔ یہ لوگ ہر وقت ہماری ٹوہ میں لگے رہتے کہ کہیں ہم غلطی سے بھی کسی لڑکی سے بات نہ کر لیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ہم سکول سے آدھی چھٹی کے وقت قریبی پیزا کی دکان پر گئے تو وہاں کوئی آبی یا آبلہ پہنچ جاتے گویا وہ خود وہاں کسی کام سے آئے ہوں۔ کئی طلبہ کو انہوں نے بطور جاسوس بھرتی کر رکھا تھا‘۔

ترکی میں ایک گولن سکول کے سابق طالب علم نے بتایا:’سنہ 2007ء میں جب میں نے ہائی سکول تک تعلیم مکمل کر لی تو میں نے اپنے ’آبی‘ کو بتایا کہ میں بھی استاد بننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے منع کیا اور کہا کہ ہمارے پاس اساتذہ کی کمی نہیں، تمہیں فوج میں بھرتی ہونا چاہئے۔ میرے والدین اس بات پر خوش نہ تھے کیونکہ میں کبھی بھی لڑائی وغیرہ کا شوقین نہیں تھا۔ گولن نیٹ ورک کی طرف سے میری والدہ کو ہدایات جاری ہوئیں کہ وہ عارضی طور پر حجاب کرنا ترک کر دیں (کیونکہ ترکی فوج میں داخلے سے پہلے آپ کے گھر والوں کے متعلق پوری تفشیش ہوتی ہے)، گھر میں موجود تمام مذہبی چیزیں چھپا دیں اور کچھ شراب کی بوتلیں مہمان خانے میں رکھ دیں۔ ہمیں یہ ہدایت بھی کی گئی کہ میری والدہ کی کھلے بالوں کے ساتھ تصاویر گھر میں آویزاں کی جائیں تاکہ فوج کے مخبروں کو ’جماعت‘ کے ساتھ ہماری وابستگی کا شک بھی نہ ہو سکے۔‘ گولن تحریک کی ان حرکتوں پر محترم خورشید ندیم نے اپنے حالیہ کالم ’پاکستان اور گولن تحریک‘ میں روشنی ڈالی اور ہمارے ترک دوستوں کی شہادتوں کی تائید کی۔

سنہ 2008سے 2011ء تک سابق فوجی جرنیلوں کے خلاف چلنے والے مقدمات (جنہیں Ergenekon اور Sledgehammer کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) کے باعث فوج میں سیکولر حلقوں کی قوت میں کمی آئی۔ ترکی اخبار حریت کے کالم نویس سادات ارگن نے لکھا کہ پندرہ جولائی کی فوجی سازش میں حصہ لینے والے زیادہ تر فوجی اس دور (2008-2011) میں بھرتی ہوئے۔ہارورڈ میں اقتصادیات کے ترکی النسل پروفیسر دانی رادرک (Dani Rodrik) نے لکھا کہ گولن جماعت کے لوگ گزشتہ پچیس سال سے فوج میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مندرجہ بالا مقدمات شروع کرانے میں گولن جماعت کا ہاتھ تھا اور انہوں نے کچھ اندرونی فوجی دستاویزات ایک اخبار تک پہنچائیں جس کے بعد مقدمات درج ہوئے اور کارووائی کا آغاز ہوا(اب ہم اس بات سے واقف ہیں کہ وہ دستاویزات جعلی تھیں اور ان مقدمات کے فیصلے واپس لئے جا چکے ہیں)۔ ترکی افواج کے کمانڈر انچیف نے شہادت دی ہے کہ سازشیوں نے ان کا رابطہ فتح اللہ گولن سے کروانے کی کوشش کی تھی۔ خاکوانی صاحب اسلامسٹوں کو جتنا ’بیبا‘ سمجھتے ہیں، اتنے وہ ہیں نہیں۔ تمام اسلامسٹ جماعتوں نے گزشتہ چھے دہائیوں میں سفاکانہ حرکتیں کی ہیں اور ان پر نادم نہیں (جماعت اسلامی اور البدر کی داستان تو خیر اب پرانی ہو چکی)۔ ان جماعتوں نے جھوٹ بولے، مخالفین پر تشدد کیا اور آمریت کے ہاتھ مضبوط کیے۔ اب جماعت اسلامی ترکی کی فوجی سازش کو سیکولر بمقابلہ اسلامسٹ کا رنگ دیے بیٹھی ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ترک ماڈل کی جگہ شائد ہمیں اب تیونس ماڈل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاحال موجود شواہد کی روشنی میں خاکسار یہ کہنے پر مجبور ہے کہ’ملے جو دیں سیاست سے، تو آجاتی ہے چنگیزی‘۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments