گ گبھرو گم شدہ، س سوال سوختنی


نوبل انعام بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں ملنا شروع ہوا۔ ٹالسٹائی، مارسل پراؤست، جیمز جوائس اور فرانز کافکا کو نہیں ملا۔ اناطول فرانس کو مل گیا۔ یہ بھی اچھا ہوا، برا نہ ہوا۔ پہلے چار ناموں کے بغیر بیسویں صدی کے فکشن پر بات نہیں ہو سکتی۔ اناطول فرانس کا نام بھی اب مشکل ہی سے کسی کو یاد رہا ہو گا۔ ایک صدی پہلے البتہ اناطول فرانس کا طوطی بولتا تھا۔ مصنف کا طوطی بولے تو مدرس اور محقق بہت خوش ہوتے ہیں۔ ڈاکٹری کا مقالہ لکھتے ہیں۔ موٹی موٹی کتابیں رقم فرماتے ہیں۔ دساور کے سفر پر جاتے ہیں۔ لمبے لمبے سیمینار منعقد ہوتے ہیں۔ مثلاَ خط استوا میں بارانی آب پاشی پر ٹیگور کا اثر۔ بات یہ ہے کہ ہنر اور فن میں باریک سی ایک لکیر ہے۔ اور اس سرحد پر قبول عام کا دھانی بادل منڈلاتا ہے۔ آنی جانی چیز ہے۔ ہوا کے دوش پر دائیں بائیں ڈولتا رہتا ہے۔ ہنر اور فن کا فرق جاننا ہو تو صوفی تبسم اور فیض احمد فیض کے رشتے پر توجہ فرمائیں۔ فیض صاحب کے بارے میں معلوم بات ہے کہ شعر کی تقطیع نہیں کر پاتے تھے۔ صوفی صاحب سے رہنمائی لیتے تھے۔ کیسا اچھا طالب علم اور کیا اچھا استاد۔ طالب علم کا فیض پھیل جاتا ہے اور استاد کے حصے میں تبسم آتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شعر کی خوشبو محض علم عروض جاننے کا معاملہ نہیں۔ البتہ یہ ہے کہ علم کے شعور سے فن میں نئے راستے نکالے جاتے ہیں اور ان راستوں پر نئے چراغ روشنی دیتے ہیں۔ شعر اور علم کے تعلق سے خیال آیا کہ مختار صدیقی کیسا نادر معجزہ تھے۔ جدید علوم پر پوری آنکھ تھی۔ ذوق کا خمیر فارسی سے اٹھا تھا اور اس میں ہندی بھاشا کا رس رکھ دیا تھا۔ راگ کو بنیاد بنا کر کوئی چار چھ نظمیں ایسی لکھ دیں کہ باید و شاید۔ ’راگ درباری‘ قریب پچاس مصرعوں کی نظم ہے۔ روایت کی جاتی ہے کہ ایک برس تک لکھتے رہے

نیا باندھو رے کنارِ دریا

جدید اردو نظم میں سی حرفی مختار صدیقی لائے تھے۔ پھر ابن انشاءآئے اور انہوں نے سی حرفی لکھی۔ ایک مصرع پڑھ لیجئے ۔

گ گبھرو ہے کہ بائیس بہاروں میں پلے

ابن انشا نے یہ سی حرفی کوریا کی جنگ کے دوران لکھی تھی۔ کئی برس بعد ستمبر 65 کی جنگ ہوئی اور نور جہاں نے ماں کی پکار پر سروں کا جھالا رکھ دیا۔

اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے (بیٹے دکان پر نہیں بکتے)

کیسی خوبصورت بات ہے کہ گ گبھرو سے چلتی ہوئی پتر تک آئی تھی۔ پنجابی میں پتر اچھے بیٹے کو کہاجاتا ہے۔ صوفی تبسم کے اچھے بیٹے بے شمار تھے۔ صوفی صاحب 1978 میں رخصت ہوئے۔ یہ وہی بد قسمت سال ہے جب ہمارے وطن میں بیٹوں کی بے وقت رخصتی کا موسم شروع ہوا تھا۔ ابھی ختم نہیں ہوا۔ گ گبھرو ہے، ل لاشہ ہے، س سوال ہے…. کس سے پوچھیں؟

اگلے روز برادر مکرم عطا الرحمن سے ملاقات رہی۔ کچھ ذکر کیبل پر جیو نیوز کا نمبر آگے پیچھے ہونے کا چلا۔ عطا الرحمٰن میں بچوں جیسی معصومیت بھی ہے اور بزرگوں جیسی شفقت بھی۔ خبر جاننے کی شرارت بھی آنکھوں میں نرت کرتی ہے۔ مچل گئے اور کہا کہ جیو چینل کا نمبر تہ و بالا کرنے والوں کا نام لیں۔ عرض کی کہ حضور نام نہیں لے سکتا۔ واحد بلوچ کا ذکر آیا تو ایک شریک مجلس نے کہا کہ نام نہیں لے سکتے۔ پھر کہا کہ معتبر صحافی گراوٹ کے لہجے میں باہم دست و گریباں ہو رہے ہیں۔ صحافت کا معیار کیا ہوا۔ آواز آئی کہ میڈیا میں اقدار کے زوال کا منظر الجھا ہوا ہے۔ بہت سے ذمہ دار معلوم ہیں۔ نام نہیں لئے جا سکتے۔ ایک مصرع کسی شوخ کا یاد آیا۔

کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگا۔

غالباً پنڈت ہری چند اختر کا مصرع ہے۔ استاذی سلیم مظہر سے پوچھنا چاہئے۔ انہیں سب علم ہوتا ہے۔ لیکن اونٹ کا کوہان تو کہیں بیسویں صدی میں آیا۔ نواب سعادت لکھنؤ والے انیسویں صدی کی ابتدا میں گزرے ہیں۔ انشا اللہ خان انشا کو گھر پر نظر بند کر دیا تھا۔ اختیار کو عتاب آ گیا تھا۔ انشا کے ایک قدیمی دوست ملاقات کو آئے اور اصرار کیا کہ انشا اللہ خان انشا اچھا سا شہیدی تربوز بازار سے خود خرید کر لائیں۔ انشا اللہ خان مجبور تھے اور ان کے دوست حقیقت سے لاعلم تھے۔ کون ستارے چھو سکتا ہے، رہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے۔ خبر معلوم بھی ہو تو بیان میں دو چار نازک مقام آتے ہیں۔ انشا اللہ خان انشا جانتے تھے۔ عطاالرحمٰن بھی سمجھتے ہیں۔ کچے دھاگے سے باندھ کر سوال کا تازیانہ برساتے ہیں۔ وہ اک نگاہ جو بظاہر نگہ سے کم ہے۔ عرض کیا نا کہ ہنر اور چیز ہے۔ فن کے ملک کی آب و ہوا جدا ہوتی ہے۔

بات سادہ ہے، ایک سوال کا راستہ روکا جائے تو سوال قطار اندر قطار کھڑے ہوجاتے ہیں۔ درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانا دل کا۔ ایک سوال الگ رکھ دیا تھا، سو ان گنت سوال تشنہ جواب رہ گئے۔ قصہ سوال کی ثقافت کا ہے۔ سوال ایک ہی ہوتا ہے۔ گیلیلیو کے اٹلی میں یہ سوال زمین کی حرکت پر اٹھایا جاتا ہے۔ لنکن کے امریکا میں یہ سوال غلامی پر اٹھایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں یہ سوال انسانوں کے حق حکمرانی پر اٹھایا جاتا ہے۔ ماسکو میں یہ سوال ایک پارٹی کے اقتدار پر اجارے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اختیار کا مطالبہ صرف یہ ہوتا ہے کہ سب سوال اٹھاؤ، ایک سوال کی طرف اشارہ نہ کرو۔ مشکل یہ ہے کہ وہ ایک سوال ہی زمانی اور مکانی تناظر میں حقیقی سوال ہوتا ہے۔ ریاست میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہوتا۔ کراچی میں نو گو ایریا بنے گا تو چھوٹو گینگ بھی اپنا جزیرہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں درے پر گھات لگائی جاتی ہے۔ سوچ اور فکر کے آفاق کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی، ایک حد باندھ دی جائے تو حلقہ در حلقہ دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ کیسی اچھی بات وزیر اعظم نواز شریف نے کہی ہے کہ پاکستان کو ہر نسل اور ہر مذہب کے لئے محفوظ بنائیں گے۔ یہ ایک رہنما کی آواز ہے اور اسی سوچ کو رہنمائی زیب دیتی ہے۔ مگر صاحب وہ ایک سوال، واحد سوال، واحد بلوچ سوال۔۔۔

راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے

ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے

گریبانوں کے ڈھیر موجود ہیں۔ پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی۔ اور منظر دلدوز ہے۔ گ گبھرو ہے، ل لاشہ ہے، س سوال ہے اور سوال سوختنی ہے۔

3 اگست 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments