شہریوں کے خلاف بدترین دہشت گردی


\"wahidوزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے مراکز کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ ہم امن کے متلاشی ہیں لیکن ہماری اس خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ یہ نہایت خوش آئیند بات ہے۔ اسی قسم کا مژدہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی سناتے رہتے ہیں۔ تاہم اس دوران 26 جولائی کو حیدر آباد سے کراچی جاتے ہوئے کراچی کے ایک اسپتال میں کام کرنے والے واحد بلوچ کو چند نامعلوم افراد نے بس سے اتارا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ اس وقت سے واحد بلوچ لاپتہ ہیں۔ کیا ملک میں دہشت گردی ختم ہونے کے اعلان کرنے والے وزیر اعظم یا پاک فوج کے سربراہ سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اس طرح شہریوں کو غائب کردینا دہشت گردی ہے یا اسے کوئی دوسرا نام دیا جائے گا۔

ایک مہذب سماج اس لئے دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہوتا ہے کیوں کہ دہشت گرد کسی قانون کو نہیں مانتے۔ وہ اپنی بات منوانے کے لئے ہتھیار اٹھاتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا کر انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ریاست اور اس میں استوار نظام کے باغی قرار پاتے ہیں اور طاقت کے بل پر اس نظام کو تلپٹ کر دینا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں زیادہ تفصیل بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اہل پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے ایسے عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ اسلحہ کے زور پر اپنی بات منوانے والے دہشت گردوں کے پاس بھی اپنی باتوں کے لئے جواز ہوتا ہے۔ وہ بھی یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ وہ خدا کا نظام استوار کرنے اور قرآن و شریعت کے خلاف صورت حال کو ختم کرنے کے لئے برسر پیکار ہیں۔ لیکن ان کی اس دلیل کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پر امن شہریوں کو گھروں ، بسوں، گلیوں یا بازاروں سے اٹھانے والے پر اسرار لوگوں کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ ملک و قوم کی بہتری کے لئے اس قسم کا اقدام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ تو کیا اس دعوے کو قبول کرلیا جائے۔ ایسا کرتے ہوئے ہمیں اس نظام کو خیر آباد کہنا پڑے گا جس کی حفاظت ہم دہشت گردوں سے کرنا چاہتے ہیں۔

دہشت گرد خود کو نظام اور معاشرے سے علیحدہ کرکے انسانیت کا خون کرتے ہیں۔ لیکن ریاست کی حفاظت کے دعوے دار بے نام چہرے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے وہی کام کرتے ہیں۔ وہ اس ملک کے شہریوں کو ان کی رائے اور کسی سیاسی جد و جہد کی بنا پر غائب کرنا قوم و ملک کے بہترین مفاد میں سمجھتے ہیں۔ اگر دہشت گردوں کی بات غلط ہے تو نظام کے اندر رہتے ہوئے قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کو کیوں کر قبول کیا جا سکتا ہے۔ یہ رویہ تو دہشت گردی کی ماں ہے۔ اس سے لاقانونیت پیدا ہوتی ہے۔ ماں جیسی شفقت اور محبت کرنے والی ریاست کے بارے میں بد گمانیاں جنم لیتی ہیں۔ انتشار اور بد امنی پیدا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس ملک میں انہیں اجنبی اور دشمن سمجھا جاتا ہے۔ لہذا اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا جائز اقدام ہے۔ اس مزاج کو پیدا کرنے والے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے کیسے ملک و قوم کے دوست ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف دونوں کو اس سوال کا جواب تو دینا ہی ہوگا۔

واحد بلوچ کراچی کے اسپتال میں ٹیلی فون آپریٹر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے لئے جد و جہد کرنے والے مٹھی بھر لوگوں میں شامل ہیں۔ سال بھر پہلے کراچی میں آزادی اظہار کے لئے لڑنے والی سبین محمود قتل ہوئیں تو ان کے قاتلوں کا سراغ لگانے کا مطالبہ کرنے والوں میں واحد بلوچ سر فہرست تھے۔ وہ وہی مطالبہ کررہے تھے جو ریاست کی بنیادی ذمہ داری شمار ہوتی ہے۔ یعنی ایک بے گناہ کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے اور انہیں ان کے کئے کی سزا دی جائے۔ اسپتال میں کام کرنے کے علاوہ واحد بلوچ ادب کے طالب علم ہیں اور کراچی کے پسماندہ علاقوں میں غریب بچوں کی تعلیم کے لئے کام کرتے ہیں۔ آج کل وہ کتابیں جمع کرکے ایک لائبریری قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ یہ سارے کام ایک صحت مند معاشرہ کی تکمیل کے لئے بے حد اہم ہیں۔ ہمیں تو واحد بلوچ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ وہ دن بھر مشقت کرنے کے بعد اپنے فارغ اوقات میں اس قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے اہم کام کو رضاکارانہ بنیادوں پر سرانجام دے رہے ہیں۔

ہو سکتا ہے ان کے مخصوص سیاسی نظریات ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان نظریات کی تکمیل کے لئے ایسے گروہوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوں جو ریاست کی نظر میں فی الوقت پسندیدہ نہیں ہیں۔ اگر ایسا کوئی اقدام ملک کے قوانین کے خلاف ہے تو انہیں متحرک ہونا چاہئے اور وہ واحد بلوچ ہوں یا کوئی اور ، اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ عدالت میں معاملہ پیش کرنا چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے۔ اگر ملک کے قوانین ایسے ’ناپسندیدہ‘ عناصر کی گرفت کرنے کے قابل نہیں ہیں، اگر اس نظام کا کوئی خیر خواہ یہ سمجھتا ہے کہ ملک کی عدالتیں ایسے مجرموں کو سزا دینے کی اہل نہیں ہیں تو اسمبلیوں کے ارکان کو پکڑنا چاہئے، حکومتوں کی جوابدہی ہونی چاہئے اور قانون کو سخت اور عدالتوں کو با اختیار بنانا چاہئے۔

انسانی آزادی کے اصول کی بنیاد پر کھڑا کوئی نظام بے نام چہروں کو اپنی مرضی سے شہریوں کو اٹھا کر، ان کے ساتھ تشدد کرنے یا انہیں قتل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ یہ مزاج اسی لاقانونیت اور باغیانہ رویہ کا مظہر ہے جو دہشت گرد اختیار کرتے ہیں۔ اس رویہ سے ریاست ، عدالت اور قانون پر لوگوں کا اعتبار ختم ہوتا ہے اور وہ ایسے اقدام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو تباہی کے سوا کسی دوسری منزل کا پتہ نہیں دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments