زنداں میں آزادی اور کامریڈ واحد بلوچ


\"raziیہ 1980ء کے عشرے کا آغاز تھا۔ ملک اس وقت بے مہرموسموں کی زد میں تھا اوروقت ہم سب پر ہمیشہ کی طرح نامہربان تھا۔ لاٹھی گولی کی سرکارکا راج تھا۔ گرفتاریاں، پھانسیاں، کوڑے اورجلا وطنیاں روزمرہ کا معمول تھیں۔ قلم پر پہرے بٹھا دیئے گئے تھے۔ زبانیں گنگ ہو چکی تھیں یا کر دی گئی تھیں۔ غلامی کااحساس روز بروزا بڑھتا جا رہا تھا۔ ایسے میں حکمرانوں نے سوچا کہ غلامی کے اس بڑھتے ہوئے احساس کو ختم کرنے کے لیے جشن آزادی غیرمعمولی جوش وخروش کے ساتھ منایا جائے۔ یہ غالباً 1982 یا 83ء کی بات ہے کہ سرکاری سطح پر فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں جشن آزادی نئے ڈھب سے منایا جائے گا۔ اور واقعی ایسا ہوا۔ یکم اگست کے بعد ساون کے اندھوں کو ہرطرف ہرا ہی ہرا دکھائی دینے لگا۔ سرکاری ٹی وی پر نیوز کاسٹراور اناﺅنسر سینوں پر قومی پرچم سجا کرطوطوں کی طرح ”پاکستان پاکستان“ کا راگ الاپنے لگے۔ اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا کہ پوری قوم خود کو آزاد سمجھ کر جشن آزادی منانے میں مصروف ہو گئی۔ ہدایت کی گئی کہ ہر گھر پر قومی پرچم لہرایا جائے گا۔ بازاروں میں جھنڈیاں لگیں گی۔ قمقمے لگائے جائیں گے اور سبز روشنیوں کے ساتھ عمارتوں پر چراغاں کیا جائے گا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ پوری قوم صبح سائرن بجنے کے بعد یک زبان ہوکر قومی ترانہ گائے گی۔ وہ سائرن جو کسی زمانے میں دشمن کے حملے کی اطلاع دینے کے لیے نصب کیے گئے تھے یوم آزادی پر بھی بجائے گئے کہ اس مرتبہ حملہ نئے ڈھب سے ہوا تھا۔ صبح نو بجے سائرن بجے اور مختلف دفاتر اور عمارتوں پر پرچم کشائی کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ ایک ترانہ اس زمانے میں بہت مقبول ہوا۔ ” میرا پاکستان ہے، یہ تیرا پاکستان ہے۔۔۔ اس پر دل قربان، اس پر جان بھی قربان ہے“۔ بچے بوڑھے اورجوان لہک لہک کر یہ ترانہ گاتے رہے لیکن آزادی کی حقیقت جنہیں معلوم تھی ان سے چپ نہ رہا گیا اور اسی زمانے میں حبیب جالب کی نظم زبان زد عام ہوگئی۔ ”تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے۔ ۔ یہ اس کاپاکستان ہے جو صدرپاکستان ہے“۔ افسوس کہ اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ حبیب جالب کایہ شعر بھی ماضی کا حصہ بن گیا ہے کہ پاکستان اب صدر پاکستان کا بھی تو نہیں رہا۔ پہلے یہ منصب جن کے قبضہ قدرت میں تھا اب ہمارا صدر پاکستان بھی انہی کا اسیر ہے۔

یہ کہانی ہمیں اس لیے یاد آئی کہ یکم اگست کی صبح جب ہم گھر سے دفتر کی جانب روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ شہر کی ایک مرکزی شاہراہ پر ہائی کورٹ کے باہر ٹریفک بلاک ہے اور سبز ہلالی پرچموں والے ایک ٹرالر سے آزادی کے گیت گائے جارہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ٹریفک بلاک کرنے کے بعد یہ گیت وہی ٹریفک وارڈنز گارہے تھے جن کا کام ٹریفک کو رواں رکھنا ہے۔ قوم کو بتایا جا رہا تھا کہ آزادی کے اس مہینے میں 14 اگست تک انہوں نے ایک ذمہ دار اور قانون پسند شہری کی حیثیت سے ٹریفک قوانین کا ازخود احترام کرنا ہے۔ وارڈنزبے چاروں کی کیا اوقات کہ وہ یہ فیصلہ خود کرسکیں۔ انہیں بھی یقیناً یہ ہدایات انہی کی جانب سے آئی ہوں گی جن کے وہ غلام ہیں۔ اسی روز یہ بھی معلوم ہو گیا کہ حکمرانوں نے اس مرتبہ بھی جشن آزادی غیرمعمولی جوش وجذبے کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہی سبز پرچم، وہی چراغاں اوروہی جوش وخروش پیدا کرکے 1947ء کی نہیں 1983ء کی یاد تازہ کی جارہی ہے۔ اورشاید یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ غلامی کااحساس ایک مرتبہ پھر نمایاں ہوگیا ہے۔ لیکن اس احساس کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔

قوم کو بتایا جانا چاہیے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کررہے ہیں۔ عدل اورانصاف کا بول بالا ہے ۔ 12مئی 2007ءکے قتل عام کے ذمہ دار وسیم اختر کو کیفر کردار تک پہنچایا جا رہا ہے اور اس مرتبہ انصاف کا حسن یہ ہے کہ وسیم اختر کا شریک کار عشرت العباد آج بھی گورنر کے عہدے پر فائز ہے اور پرویز مشرف بیرون ملک آزادی کا لطف لے رہا ہے۔ کیونکہ ان دونوں حضرات پراب تک جرم ثابت نہیں ہوسکا اور جس پر جرم ثابت نہ ہو اسے بھلا کیفر کردار تک کیسے پہنچایا جاسکتا ہے۔ سو اے زندانیو آﺅ، زندان میں رہتے ہوئے آزادی کاجشن مناتے ہیں کہ جشن منانے سے غلامی کا احساس ختم ہوجاتاہے اور غلامی کا احساس ختم کرنا اسے ضروری ہے کہ اگر یہ احساس ختم نہ ہو تو پھرآزادی کی امنگ بیدار ہو جاتی ہے اور پھر ہم جیسے بے وقوف یہ سوال کرتے ہیں کہ کامریڈ واحد بلوچ کی گمشدگی پر آزاد میڈیا خاموش کیوں ہے۔ اورکیا کتاب دوست اورعلم دوست واحد بلوچ غلام کی حیثیت سے ہی سہی، 14 اگست کو نام نہاد آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھ سکے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments