ملازمت پیشہ خواتین پر کیا گزرتی ہے؟


ہمارے معاشرے میں بالخصوص متوسط طبقے میں خواتین کی ملازمت آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ اس کی\"haya کئی وجوہات ہیں ان میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مرد عورت پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ اگر عورت ملازمت کرے گی تو معاشی طور پر مضبوط ہو جاۓ گی اور اس کا یہ فخر کہ وہ گھر چلاتا ہے اور عورت اپنی ضروریات کیلئے اس پر انحصار کرتی ہے ختم ہو جائے گا۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ عورت کو عموماً خدمت گار سمجھا جاتا ہے جسے ناصرف اپنے شوہر کی خدمت کرنی ہوتی ہے بلکہ شوہر سے جڑے تمام رشتوں ماں، باپ، بہن بھائی کے ناز نخرے اٹھانے پڑتے ہیں ایک مثالی بہو بننے کے چکر میں اس کی خود کی شخصیت کہیں گم ہو جاتی ہے ایسے میں ملازمت کی گنجائش نکلتی ہی کہاں ہے، تو عموماً خواتین اپنی ڈگریوں کو شادی کے بعد الماری میں بند کر دیتی ہیں۔

اس طرح کے ماحول میں اگر چند عورتیں اپنے حق کے لئے آواز بلند کریں اور بضد ہو کے وہ اتنے سالوں کی محنت سے حاصل ہونے والی ڈگریوں کو طاق پر نہیں رکھیں گی تو بعض تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ حضرات بڑی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ انہیں کام کرنے کی اجازت اس شرط پر دیتے ہیں کہ وہ اپنی گھریلو ذمے داریوں کو ہر صورت پورا کریں گی

اب صورت حال کچھ یوں بنتی ہے کہ صبح یہ ملازمت پیشہ خواتین اپنے شوہروں اور بچوں کا ناشتہ اور ٹفن بناتی ہیں، بچوں کو تیار کرتی ہیں اورانہیں اسکول بھیجتی ہیں اور پھر خود ملازمت پر نکلتی ہیں۔ ملازمت کی جگہ پر بھی امتیازی سلوک کا شکار ہوتی ہیں جہاں مردوں اور عورتوں کی تنخواہ میں بھی مساوات نہیں ہے حالانکہ دوران ملازمت انہیں انہی مسائل اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی مرد کو کرنا پڑتا ہے بلکہ عورت ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل مردوں سے کہیں زیادہ ہو جاتے ہیں

گھر واپسی وہ مرد کی طرح صوفے پر نیم دراز ہو کر ٹی وی نہیں دیکھ سکتیں۔ جسمانی طور پر مرد سے کمزور ہونے کے باوجود تھکنے کا شکوہ نہیں کر سکتیں، کیوں کہ ملازمت تو ان کا اپنا شوق ہے اس لئے اسے اپنی گھریلو ذمے داریاں پوری کرنی ہی کرنی ہے۔ گھر کا کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، برتن اور دوسرے دن کے لیے بچوں، شوہر اور اپنے کپڑوں کی تیاری اور پھر کہیں جا کے دیر رات کو موقع ملتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے تھکے ہوۓ وجود کو نیند کے حوالے کر سکیں۔ یورپ میں اگر عورتیں باہر کام کرتی ہیں تو مرد گھر آ کر عورت کا ہاتھ نہیں بٹاتا بلکہ اسے احساس ہوتا ہے کہ گھر کے کام اس کی بھی اتنی ہی ذمے داری ہیں جتنی کہ عورت کی۔  بچوں کی پڑھائی، ان کی تربیت، ان کا اسکول، ان کی بیماری جیسے مسائل میں مرد کی اتنی ہی حصّے داری ہے جتنی کہ ورتوں کی کیونکہ عورتوں کو یہاں کام کرنے کی \”اجازت\” نہیں دی جاتی بلکہ یہ ان کا حق سمجھا جاتا ہے جیسا کہ مردوں کا حق ہے کہ وہ کام کریں کمائیں خود مختار ہوں اور چونکہ کام کرنے کا حق مردوں کی طرف سے دیا گیا\”احسان\” نہیں ہے اس لیے انھیں اس احسان کی قیمت چکا نے کے لیے ملازمت سے واپس آ کر گھریلو ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے تھکے ہوۓ جسم کے ساتھ دوبارہ کام کرنے والی مشین نہیں بننا پڑتا

شاید ان مغربی ملکوں کی تقلید کرنا ہمارے لیے باعث شرم ہے کیوں کہ ہم خود کو اعلی ارفع قوم سمجھتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے ان کے معاشرے کی اخلاقی برایئوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں

ٹھیک ہے نہ کریں انکی تقلید کم ازکم اپنے مذھب کی پیروی کر لیں جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمارے پیارے پیغمبر کس طرح گھریلو کاموں میں اپنی ازواجات کا ہاتھ بٹاتے تھے حضور (ص) کے اسوۂ پر ہی عمل کر کے ان خواتین کا خیال کر لیں جو معاشی جدوجہد میں آپکا ہاتھ بٹاتی ہیں وہ اپنی تنخوائیں اپنے ماں باپ کو نہیں دیتی آپ کے گھر میں خرچ کرتی ہیں انہیں عزت دیں گھریلو امور میں انکا ہاتھ بٹائیں خودمختاری کی خوائش کو انکے لیے سزا نہ بنائیں انہیں خود مختار ہونے دیں تب ہی ناصرف انفرادی طور پر آپکا خاندان معاشی طور پر ترقی کریگا بلکہ اس ملک کی ٤٨ فیصد آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے، اپنے ملک کی ترقی میں حصّہ لے سکیں گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments