سوات: جنگلات، ماحولیات، موسمیات، معاشیات اور مواصلات


\"Picture_Zubair

سوات: بہت ہی خوبصورت اور قدرتی وسائل سے مالامال اس وادی کا قدیم سنسکرت نام ادھیانہ یعنی ’باغ ‘ تھا۔

ماحولیات: اس کرّہ ارض پر پہاڑ، دریا، سمندر، تباتات، مٹی، پتھر، پانی، ہوا، پرندے، چرندے، درندے، فلکی نظامات اور انسان وغیرہ ملکر ماحول کہلاتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی: کرّہ ارض کے درجہ حرارت میں تبدیلی کو موسمیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ فطرت کے قوانین میں انسانی مداخلت سے دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں یعنی (climate change ) پیدا ہورہی ہیں۔ اس سے مراد دنیا میں گرمی اور سردی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں زہریلی گیسوں میں اضافہ جبکہ مفید گیسوں میں کمی کا اجانا ہے۔ یہ تبدیلی انسانوں اور دیگر مخلوقات کے لئے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سیلاب، قحط اور بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس دنیا کے گرد فطرت نےحفاظتی پردے (spheres/layers) بنائے ہیں جن کی وجہ سے سورج کی شعاعیں براہ راست زمین پر نہیں پڑتیں اور صاف ہوکر ہم تک پہنچتی ہیں۔ لیکن اس ماحولیاتی الودگی کی وجہ سے ایک اہم پردہ (ozone layer) میں سوارخ پڑ رہے ہیں۔ ان سوراخوں کی وجہ سے زمین گرم ہوتی ہے کیوں کہ ان سوراخوں کی وجہ سے سورج کی تابکاری زیادہ مقدار میں زمین کی سطح سے ٹکراتی ہے۔ دوسری طرف گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ زمین کی حرارت کو باہر نکلنے سے روکتی ہیں۔ اس کی مثال پلاسٹک کے خول کی سی ہے۔ جب کوئی پلاسٹک اوڑھ لیں تو فوراً گرم ہوکر اور تاذہ ہوا کی بندش سے وہ مر جائے۔

درخت کی اہمیت: ایک روایت کو بیان کرتے ہیں۔ ہمیں کہا جاتا تھا کہ سایہ دار درخت کے نیچے سونا اچھا نہیں کہ ایسا کرنے سے انسان پر ایک عفریت (سی/ خپسا) بیٹھ جاتی ہے اور وہ انسان کی سانس بند کردیتی ہے۔ انسان نے ہمیشہ فطری مظاہر کو اپنے عقل کے مطابق پرکھا ہے۔ سایہ دار درخت کے نیچے سونے سے انسان پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں تو سائنس سے ناواقف انسان نے اس فطری مظہر کی اپنی عقلی استعداد کے مطابق تشریح کی۔ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ درخت رات کو سانس لیتے ہیں۔ سانس لینے کے عمل میں آکسیجن گیس کو نگلا جاتا ہے جبکہ کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کو خارج کیا جاتا ہے۔ کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس زہریلی ہوتی ہے اور انسان جب اسے زیادہ مقدار میں نگل لیتا ہے تو موت واقع ہوسکتی ہے۔ درخت چونکہ رات کو کاربن ڈائی اکسائیڈ خارج کرتے ہیں تو اس کے نیچے رات کو کاربن ڈائی اکسائڈ کی مقدار اکسیجن سے ذیادہ ہوجاتی ہے جس سے سوتے ہوئے انسان کو اکسیجن اسی مقدار میں نہیں پہنچ پاتی اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے، سانس بند ہوجاتی ہے جس سے جسم سُن سا جاتا ہے۔ اسے لوگوں نے سی یا خپسا کا نام دیا۔

درخت ہمارے ماحول کو صاف کردیتے ہیں اور دن کے وقت کاربن ڈائی اکسائیڈ کو کھا جاتے ہیں اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان اور دیگر مخلوقات بچ جاتی ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ماحولیات کے بچاؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی بربادیوں سے بچنے کے لئے درخت اور جنگلات کا ہونا لازمی ہے۔

ہمارے علاقوں کوہستانات میں ماشاء اللّہ جنگلات کی مقدار اچھی ہے لیکن جس بے دردی سے ان کو کاٹا جاتا ہے اس سے تشویش پیدا ہورہی ہے۔ ہمارے علاقوں میں پانی ان ہی جنگلات کی وجہ سے موجود ہے۔ یہاں کا سرد اور خوشگوار موسم ان جنگلات کی وجہ سے ہے۔ یہاں کا حسن یہی جنگلات ہیں۔ یہ جنگلات ہماری معیشیت کو بھی سہارا دیتے ہیں۔ ان علاقوں میں جنگلی حیات اور تباتاتی تنوع ان ہی جنگلات کی وجہ سے ہیں۔ ہمارے کلچر کا ایک بہت بڑا حصّہ ان ہی جنگلات کی بدولت ہے۔

بعض حضرات علاقے کی غربت یا اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ان جنگلات کے بارے میں اقبال کا یہ شعر سناتے رہتے ہیں جو انہوں نے سوشلزم سے متاثر ہو کر کہا تھا۔

( جس کھیت سے دھیقان کو میسّر نہ ہو روزی، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو)۔ ان حضرات کے نزدیک ہمارے علاقے کے جنگلات چونکہ ہماری معاشی ضروریات پورا نہیں کرسکتے لہٰذا ان کو کاٹ کر کھایا جائے۔ یہ حضرات صرف اپنی ناک تک سوچتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اس علاقے میں ہماری بلکہ پورے پاکستان میں زندگی ان اور ان جیسے جنگلات کی وجہ سے ہے۔

یہ تصویر سوات کے سب سے بڑے جنگل اتروڑ کی ہے۔ ان میں سے ایک تصویر کالام ٹائمز سے لی گئی  ہے۔ یہ اتروڑ سے جنگل میں جانے والی کمراٹ والی سڑک کے قریب کی ہے۔ ایسی کئی تصاویر میرے کیمرے میں بھی محفوظ ہیں۔ اس سڑک کے کنارے جو اچھا درخت نظر اجاتا ہے اسے اگلے دن چین سا (Chain saw ) سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ اتروڑ میں کھیتوں کے گرد سارا جنگلہ/باڑ بھی دیودار کی لکڑی کا بنایا جاتا ہے۔ یہاں اور کالام میں بھی، سردیوں میں دیودار کو گھروں کو گرم کرنے کے لئے جلایا جاتا ہے کہ اس کا شعلہ تیز ہوتا ہے اور فوری حرارت پہنچاتا ہے۔

اتروڑ یا پھر کالام میں ایسا سخت سردیوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے اور بعض حالات میں سمگلنگ کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔

سمگلنگ کو عوام مذکورہ محکمے سے مل کر اور اس محکمے کو جوابدہ بنا کر روک سکتے ہیں۔ سردیوں میں گھریلو استعمال کے لئے جنگلات کا کٹاؤ ختم کی جاسکتا ہے اگر حکومتیں یا پھر دیگر ادارے علاقے کے وافر پانی پر پن بجلی گھر بنائے اور اس کی بجلی کو ان ہی علاقوں میں فری یا پھر سستی عوام کو مہیّا کریں تاکہ عوام اس بجلی کو بجلی کے ہیٹروں کے لئے استعمال کرسکے۔ لیکن کیا ہم ایسا کرسکیں گے؟؟؟

شائد اب نہیں۔ ہم کسی ایسے بجلی گھر کے نام پر تو لڑ سکتے ہیں لیکن اس سے اپنے لئے فری بجلی کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔

دوسری آفت جو ان جنگلات کے خاتمے کو تیز تر کرتی ہے وہ ان جنگلات تک سڑکیں ہیں۔ ہمیں ابھی تک ماحولیات کے بچاؤ اور تحفظ کا شعور نہیں ایا۔ یہ شعور انے میں ہمیں شائد مزید چلایس سال لگ جائے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں جنگلات تک سڑکیں بنانا کوئی ترقی نہیں۔ ہمارے اعلیٰ شعور کو مہوڈنڈ یا پھر کالام کے خوبصورت اور انوکھا ہموار جنگل میں جا کر دیکھا جاسکتا ہے۔ مہوڈنڈ کی نیلگوں جھیل اور کالام/اوشو کے جنگل میں کوڑے کے ڈھیر ہمارے ماحولیاتی اور جمالیاتی شعور کی پستی کو عیاں کرتی ہیں۔

ایسے میں جوانوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ اگر چاہیے تو مذکورہ سب مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ اس میں وقت ضرور لگتا ہے لیکن یہ ناممکن نہیں۔

شروعات میرے اس ناقص مضمون کو پڑھ کر اور بحث کرکے کیا جسکتا ہے۔ اس کو حکومت، دیگر اداروں اور محکمے تک بھی پہنچانا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments