نوکوٹ کا تاریخی قلعہ تباہی کے دہانے پر


\"rashid-ahmad-2w\"صحرائے تھر کے دہانے پر آباد چھوٹا سا قصبہ جسے کہنے کو تو نوکوٹ یعنی نیا گاوں یا شہر کہا جاتا ہے مگر یہ شہر ہے کافی پرانا۔ اسے تھر کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جیسے ہی آپ اس چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے بازار کو پار کرتے ہیں تو صحرا کی ریتلی چوٹیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ اس شہر کو ویسے تو شاید کوئی نہ جانتا، لیکن یہاں قائم ایک قلعہ نے اس شہر کو بھی تاریخی بنا دیا ہے اور ہر سال ہزاروں سیاح یہاں اس قلعہ کی سیر کو آتے ہیں۔

مشہور اردو ادیب ’’محمد خالد اختر‘‘ کا تھر کا ایک سفرنامہ ’’یاترا‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس سفرنامے کا پہلا باب ’’نوں کوٹ ‘‘ ہے۔ اس میں نوکوٹ پہنچنے کا احوال بیان کرتے ہوئے محمد خالد اختر لکھتے ہیں:

’’کھٹ کھٹ کھٹاک۔۔۔ کھٹ کھٹ کھٹاک۔۔۔ بھاپ کے انجن سے جتی ہوئی، نئی نئی رنگی ہوئی چھوٹی میٹر گیج گاڑی، اپنے پچاس فی صد بے ٹکٹ مسافروں کو لئے قدرتی مرغزاروں کی زمردیں لینڈ اسکیپ میں چلتی رہی۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور ہمیں بتایا گیا کہ پچھلے دو دن اس علاقے میں موسلا دھار پانی برستا رہا تھا جس سے فصلوں کو نقصان پہنچا تھا۔ ریلوے لائن کے دونوں طر ف جنگلی کیکروں کے گہرے سبز گھنے گچھے تھے جن کے تنے زمین میں چھپے تھے۔۔۔ یہ سارا خطہ بارشوں کی وجہ سے جل تھل ہورہا تھا اور پانی نے نشیبی زمینوں کو وسیع جھیلوں میں تبدیل کردیا تھا۔۔۔ اس سے آگے نوکوٹ ہے۔ ہریالی کی فراوانی تو تھی مگر اب کے چٹیل میدان آئے۔ روئیدگی کے بغیر۔ میں نے سندھی ٹوپی کو ترچھے زاویے سے سر پر جمایا اور کھڑکی میں تھرپارکر کے ٹیلوں کو افق پر اجالنے کی کوشش کرنے لگا۔ جب میں نے ان کو پہلی بار دیکھا، میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ وہ جنوب مشرقی سمت میں نمودار ہونے لگے۔ نتھری دھلی فضا میں ترشے ہوئے نیلم کی پرتموج پہاڑیاں۔ اتنی گہری نیلی کہ کوئی گمان نہیں کر سکتا تھا کہ وہ صحرائی ریتلے ٹیلے ہیں۔ گاڑی کی رفتار مدھم ہونے لگی۔ بھاپ کے انجن نے کوکیں لگائیں اور سیٹیاں بجائیں۔ آؤٹر سگنل، چاردیواری کا ایک بڑا احاطہ اور نوکوٹ شہر کا پھیلاو اور تھوڑی دیر کے بعد ہم نوکوٹ کے پلیٹ فارم پر تھے۔ ‘‘

یہ مشہور زمانہ قلعہ اسی نوکوٹ شہر سے تین کلومیٹر مشرق کی طرف مٹھی روڈ پر واقع ہے ٹالپر یا تالپور دور حکومت کی یاد ہے۔ یہ قلعہ 1814 میں میر کرم علی خان تالپور نے تعمیر کروایا تھا۔ اس مضمون کا مقصد صرف اس قلعہ کی زبوں حالی واضح کرنا ہے۔ یہ قلعہ روز بروز موت کے منہ میں جارہا ہے۔ اگر مناسب طور پر اس کی حٖفاظت نہ کی گئی تو عنقریب اس کا ذکر صرف کتابوں اور مضمونوں میں رہ جائے گا۔

اس قلعہ کی مرمت کے لئے کاغذات میں ہر سال فنڈ منظور ہوتے ہیں مگر اس قلعہ کی قسمت نہیں بدلتی۔ ہر سال بارشوں میں درز بند نہ ہونے کے سبب اس کی بنیادوں اور دیواروں میں پانی چلا جاتا ہے جس کی باعث اس قلعہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ مون سون کا سیزن سر پر ہے۔ متعلقہ اداروں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے قبل اس کے کہ یہ تاریخی ورثہ کھنڈر میں بدل جائے۔

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments