صحافی ہوں صحافی اعلیٰ پائے کا صحافی


\"haiderصحافی ہوں صحافی اور وہ بھی اعلیٰ پائے کا صحافی اور پروفیشنل  کے طور پر میرا نام آتا ہے۔ اپنے ادارے کے بے شمار معاملات میں دیکھتا ہوں تھوڑا بہت پڑھا لکھا بھی ہوں یہ نہیں کہ میٹرک پاس ہوں اور ادارے میں بیورو چیف کی سیٹ پر بیٹھا ہوں۔ نہیں بھائی ایسا نہیں میں نے پروفیشنلز سے سیکھا ہے کہ ادارے کیسے چلتے ہیں۔ میں نے صحافت پر کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی لیکن میرے علم و ہنر نے ہی صحافت میں مجھے پہچان دلوائی اور یہ پہچان اِس لئے ملی کہ میں سَب سے الگ سَب سے منفرد سوچتا ہوں۔ مالک لوگوں کو پیسہ چاہئے۔ میں پیسہ براستہ ریٹنگ لانے میں ماہر اور ریٹنگ لانا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں عوامی ذائقے کا خاص خیال رکھتا ہوں۔ کراچی میں تیکھا، پنجاب میں شوربے دار جسے کھاتے ہوئے شڑپے شڑپے کی آوازیں آتی ہوں بس کسی کے پیٹ کی طرف اشارہ نہ ہو کہیں بدہضمی اور کٹھے ڈکار سے ماحول خراب نہ ہو سو باتوں کی ایک کہ میں لوگوں کی دلچسپی کا خاص خیال رکھتا ہوں۔ جیسے عوام تبدیلی چاہتی ہے میں بدلنے کا ہُنر جانتا ہوںِ۔ عوام کھائے، پیے، ناچے میں بھی اُن کے رنگ میں رنگ جاتا ہوں۔ او بھائی صحافی ہوں صحافی اور وہ بھی اعلیٰ پائے کا صحافی۔

میں سوشل میڈیا سے عوام سے رابطے میں ہوں۔ چونکہ میں کامیاب صحافی ہوں اس لئے میری سوشل میڈیا ٹیم بھی ہے اسی لئے عوام کے غم و غصے کا بھی ادراک ہے اورُ ان کی پسند و ناپسند کا بھی خیال رکھتا ہوں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے ادارے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ عناصر کو جگہ دے رکھی ہے اور کچھ پرو اسٹیبلشمنت بھی موجود ہیں۔ ارے بھیا میں جانتا ہوں کب اور کس وقت گرم لوہے پر کیسے ہتھوڑا مارنا اور ہتھوڑا وہ جس کی گونج (ریٹنگ) بھی سنائی دے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے ملک میں بھارت، افغانستان، عرب اورخاص کر ایران کے بارے میں عوامی رائے کیا ہے اس لئے میں کمال فن سے اِن سے مخاصمت و محبت رکھنے والے نیلی، لال، پیلی ٹوپی والوں سے ہر وقت ہر دم رابطے میں رہتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ کیسے اور کب اُن کا استعمال کرنا ہے۔ میں پاکستان کی اسلامی روایات کا امیں ہوں، اور سیکولر نظریات کا سب سے بڑا حامی بھی ہوں۔ جب اسلام پر بات ہو تو اسلام پر گفتگو کرنے والوں کا معیار کتنا، کیسا اور کیوں ہونا چاہئے یہ سب میرے دماغ میں ایک ہزار میل کی رفتار سے چلتا ہے اور پاکستان میں عام شخص کے اسلام کے بارے میں علم کا بھی بخوبی اندازہ ہے مجھے۔ میں جانتا ہوں ہماری آبادی کا علمی شعور کیا ہے اور کون ہمارے ادارے کے کہے گئے الفاظ کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے اور طبقاتی فرق جو ہمارے ہاں عروج پر ہے ایسے میں ہماری رائے کیسے مقبول ہو گی۔

کل ہی میرا ایک جونیئر میرے دفتر میں آیا اور بولا \’\’باس ہم کسی مشہور شخصیت کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں، آپ کے مشوروں کا کیا کہنا کوئی نام بتائیں۔\’\’ میں نے اُسے کہا کہ جا کر دیکھو آج کی تاریخ میں سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی اور دیکھی جانے والی شخصیت کون ہے۔ دس منٹ میں اس نے چھ نام نکال کر میز پر رکھے میں کام میں مصروف تھا نام پڑھنے کی بجائے اُسے کہا کہ بتاؤ کون سے نام ہیں اس نے تین سیاسی شخصیات، ایک مفتی اور ایک کھلاڑی کا نام بتایا اور چُپ ہو گیا۔ میں نے پوچھا کوئی اور نام ہے کیا؟ تو بولا باس ایک نام ہے جسے سب سے زیادہ سرچ کیا جا رہا ہے میں نے پوچھا کون تو بولا \’\’باس وہ ہمارے کام کا نہیں\’\’ دوبارہ پوچھنے پر بولا \’\’سنی لیون سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی اور دیکھی جانے والی ہے \’\’ میں نے ایک گہری سانس لی اور کچھ سوچنے کے بعد اُسے کہا کہ ٹیم تیار کرو سنی لیون کا انٹرویو کرنا ہے۔ وہ مجھے تقریباََ دو تین منٹ منہ کھولے دیکھتا رہا پھر سانس بحال کر کے بولا \’\’باس کیا سنی۔ اور وہ بھی پاکستانی چینل پر اور کون انٹرویو کرے گا۔ اور کراچی میں؟اور وہ تو کپڑے بھی آدھے ادھورے پہنتی ہے ؟\’\’ ارے جتنا کہا اتنا کرو۔ بات ختم ہو گئی شام کے وقت میرا ایک دوست میرے پاس آیا اور بولا یار سنی لیون ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہم کیسے اُسے دِکھا سکتے ہیں۔ میرا جواب کچھ یوں تھا \’\’ارے اگر وہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں تو لوگ کیوں اُسے سرچ کر رہے ہیں کیوں دیکھ رہے ہیں۔ میں سنی کا انٹرویو بھی لوں گا اور لوگ پسند بھی کریں، جس کا اندازہ ریٹنگ سے لگا لینا اور ایک آدھ چینل پر ہمارے خلاف بات ہوئی تو تب بھی زبان زدِ عام پر ہمارے ہی چینل کا نام ہو گا۔ ارے پگلے بدنام گر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟ ہم اس کا انٹرویو بھی ایسے لیں گے کہ وہ کپڑے تو کیا سب کچھ ڈھانپ کر آئے گی۔

اب محترم آپ کا سوال ہو گا کہ کیسے تو وہ یوں کہ کشمیر ایشو آج کل بڑے زور و شور سے جاری ہے اور ساتھ ہی پاکستان میں بھارتی سنی لیون کا انٹرویو۔ یہ تو دھماکے دار ثابت ہو گا۔ میں اُس کا انٹرویو کراچی نہیں کشمیر میں لینا پسند کروں گا وہ بھی لائن آف کنٹرول کے ساتھ پیر پنجال پہاڑی سلسلوں کے دامن میں، ایک تو وہاں برف ہے، ٹھنڈ ہے لہٰذا ہمارے کہے بغیر سنی مکمل لباس ضرور پہنے گی اور تو اور سردیوں میں ایسے مقامات پر گرم ٹوپی فیشن کا حصہ ہے لہٰذا سر کو ڈھاپنے کا بھی ایشو نہیں اور اینکر کو کہلوا دوں گا ایک آدھ سوال لائن آف کنٹرول کے لئے اس انداز میں کیا جائے کہ سنی مجبور ہو جائے یہ کہنے پر کہ انسانوں کی بنائی گئی ایسی لکیروں سے صرف نفرت جنم لیتی ہے بس ہمیں ایک آدھ ہفتے کا مواد مل ہی جائے گا۔ اس سے دو چار نیوزبیلٹن میں کشمیری ایشو پر بات بھی ہو جائے گی اور ایسے بیانات پر اکثر بھارت اور پاکستان میں ایک خاص مائینڈ سیٹ نئی تحریک چلا دیتے ہیں ہمیں اِن کے تبصروں سے اچھی ریٹنگ مل جائے گی اور ساتھ ہی سنی لیون کا تڑکا ہم ہر چند منٹ بعد لگاتے رہیں گے اور ہاں یہ کاروبار ہے کاروبار۔ مجھے ادارہ چلانا ہے میں جانتا ہوں کیسے چلانا ہے۔ میں نے نمکین کشمیری چائے کی چُسکی بھری اور گپے مارنے میں مصروف ہو گیا یہ کہتے ہوئے کہ صحافی ہوں صحافی اور وہ بھی اعلیٰ پائے کا صحافی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments