پناہ مانگتا ہوں بلوچ ماں کے سوال سے


ماں کبھی بیٹے کو غلط اور برا نہیں کہتی۔ ماں کہتی ہے، میرا بیٹا بہت اچھا ہے۔ اسے دوستوں نے گمراہ کیا ہے، دل کا بہت اچھا ہے۔ میرا بیٹا نیک ہے۔ میرا بیٹا مجرم نہیں ہے۔ میرے بیٹے کو برا نہیں کہو۔۔۔۔ اگر بیٹے کو تکلیف دی جائے  تو ماں بھوکی شیرنی کی طرح لپکتی ہے ۔۔۔ دنیا میں کوئی بندوق ایسی نہیں بنی جو ماں کو خوف دلا سکے۔ کوئی بم ایسا نہیں بنا جس سے ڈر کے ماں بچے کے گرد اپنی شفقت کی بانہہ ہٹا لے

ماں بیٹوں کی سب سے بڑی وکیل ہے۔

اور ایک روز ماں بیٹے کو کٹہرے میں کھڑا کر لیتی ہے اور ماں سوال کرتی ہے ۔ جب ماں سوال کرتی ہے تو بیٹے کا کوئی وکیل باقی نہیں رہتا

میری ماں مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔ میری ماں مجھے کبھی غلط نہیں کہتی۔ میری ماں کی محبت کی آخری حد تب آتی ہے جب ماں مجھے کھڑا کر دیتی ہے اور پوچھتی ہے کہ تمہارے بھائی پر مصیبت آئی تھی۔ تم کہاں مر گئے تھے؟ تف ہے تمہاری جوانی پر۔ بھائی کے ساتھ ظلم ہوا اور تم چپ رہے۔ اب کیا منہ لے کر میرے سامنے آئے ہو؟

میری ماں مجھ سے بہت محبت کرتی ہے لیکن ماں کو میرے بھائی سے بھی اتنی ہی محبت ہے جیسے مجھ سے۔ ماں کسی فرد کا نام نہیں۔ ماں ایک اخلاقی اصول کا نام ہے۔ غیر مشروط محبت کو ماں کہا جاتا ہے

بھائی واحد بلوچ کے کسی معلوم یا نامعلوم جرم پر جسے جو بھی اعتراض ہے، ہم حاضر ہیں۔ ہاتھ جوڑنا ہے یا پاؤں پکڑنا ہیں۔ یا لڑنا ہے؟ معافی نہیں مانگ رہے، انصاف مانگ رہے ہیں۔ کوئی شرم نہیں آئے گی۔ شرم اگر آئی تو بلوچ ماں سے آئے گی

جب ماں نے اپنے حضور کھڑا کر کے بیٹوں سے سوال کیا کہ تمہارے بھائی پر مشکل آئی تھی، اس کے ساتھ ناانصافی کی گئی، تف ہے تمہاری جوانی پر ۔۔۔ کیا منہ لے کر ماں کے سامنے آئے ہو۔ بھائی کے لئے کھڑے کیوں نہیں ہوئے؟ کیا کہا جا سکے گا؟

جب ماں سوال کرتی ہے تو بیٹے کا کوئی وکیل باقی نہیں رہتا

پہلی تاریخ اشاعت: Aug 4, 2016

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments