نفرت برائے فروخت


نفرت کی صنعت میں بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ جو مصنوعات تیار کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جو چور بازار میں بھاری قیمت پر مخصوص خریداروں کے ہاتھوں فروخت ہوتے ہوئے، چور دروازوں کے راستے عام بازار میں پہنچتی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ کم قیمت پر کم قوّتِ خرید رکھنے والوں کے لیے آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں۔ ان مصنوعات کا سستا اسٹال مسجدوں اور مدرسوں میں لگتا ہے، مولویوں کے لبادے میں نفرت اور کنفیوژن پھیلاتے ذہنوں کی صورت میں۔ ہم انہیں مولوی کہتے ہیں، جبکہ یہ مولوی نہیں ہیں۔ جس طرح لنڈا بازار کا سوٹ پہن کر کوئی صاحب نہیں بن جاتا بالکل اسی طرح محض داڑھی رکھ کر اور ٹخنوں تک شلوار رکھ کر کوئی بھی مولوی یا مولانا نہیں بن سکتا۔ یہ محض پروڈکٹ ہے جو کم قیمت پر مگر پُر ہجوم بازاروں میں بیچنے کے لیے تیار کی جاتی ہے جبکہ بڑی منڈیوں میں بکنے والی مہنگی پروڈکٹ خودکُش بمبار، فتوا فروش جاہل، مختلف فرقوں کی صورت میں مذہب کا بٹوارہ کرنے والے پیشوا اور چھوٹی بڑی دہشت گرد تنظیموں وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔ لیکن عام خریداروں کے لیے اس صنعت کا خام مال مسجدوں اور مدرسوں میں درس اور خطبہ دینے والوں کی صورت میں پہنچایا جاتا ہے جو منڈی میں قابلِ فروخت مذہبی الفاظ کو خریداروں کے مطلب اور سمجھ کے مطابق معنی دے کر نفرت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ دراصل، اصل معنی وہ بھی نہیں جانتے۔ اُنہیں مارکیٹ میں رکھنے والے سرمایہ کار فروخت کرنے کے لیے صرف قابلِ فروخت الفاظ دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں موجود عربی زبان کے جن کثیرالمعنی الفاظ کی تشریح کے لیے اب تک لاکھوں کتابیں لکھے جانے کے بعد بھی اس لا متناہی سمندر کے اُس کنارے تک کوئی پہنچ نہیں پایا، اُن الفاظ کا ہماری زبان میں ہمارے سماجی اور جذباتی مزاج کا قریبی ترجمہ اُن کے منہ میں ڈال دیا جاتا ہے اور ہمارا مزاج تو ہے ہی نفرت کی طرف بے لگام رُخ موڑے ہوئے!

 مذہب کی بنیاد پر نفرت اس لیے زیادہ بکتی ہے، کیونکہ اس کے خریداروں کی اکثریت نہ تو مال میں ملاوٹ کے عنصر کو سمجھ پاتی ہے اور نہ ہی اصل اور نقل کا موازنہ کرنے کی اہل ہوتی ہے۔ ان خریداروں کو جمع نماز کے خطبوں اور مذہبی تہواروں کے موقعوں پر لاؤڈ اسپیکروں پر چنگھاڑتی آوازوں کے ذریعے نفرت کی وہ آسان خریداری میّسر ہوتی ہے جو وہاں سے اُٹھنے کے بعد ان کی ذاتی زندگیوں اور کسی نہ کسی سماجی صورت میں، اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق نفرت کی آگ میں دوسروں کو خاکستر کر ڈالنے کا اُنہیں حق دیتی ہے۔

بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں مذہب یا مذہبی سیاست کے کاروبار میں اس لیے بھی مسلسل اضافہ کرتے جا رہے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں اس کے خریداروں کی تعداد اور قوّتِ خرید میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے اور خریدار اور دکاندار دونوں اس کی اصل اور نقل کی پہچان نہیں رکھتے۔ لہٰذا جس سرمایہ کاری کے لیے ان کے اپنے ملکوں کی مارکیٹ موزوں نہیں ہے، وہ یہاں کی منڈی کا رُخ کرتے ہیں۔ ہاں منافع اپنی منڈیوں کے لیے وصول کرتے ہیں۔

نفرت کی اسی صنعت کا دوسرا بڑا منافع خور سرمایہ کار الیکٹرونک میڈیا ہے، جو اس پوری منڈی کا منافع چوبیس گھنٹے دونوں ہاتھوں سے سمیٹتا ہے۔ خود الیکٹرونک میڈیا ہی نہیں بلکہ نفرت بیچنے والے دوسرے سیاسی اور مذہبی تاجر بھی الیکٹرونک میڈیا کی اسکرین پر دکان لگاتے ہیں اور نہ صرف اپنا کاروبار جماتے ہیں بلکہ الیکٹرونک میڈیا کے لیے بھی آسان کمائی کا سبب بنتے ہیں۔ خود الیکٹرونک میڈیا بھی گرمیِ بازار کے مطابق سرمایہ کاری کرتا ہے۔ سو وہ خریدار کی طلب کی شدت میں مزید اضافہ کرتے ہوئے سیاست اور مذہب کو ایک ہی ترازوُ کے دو پلڑوں میں رکھ کر فروخت کرتا ہے اور خریدار کو گھر بیٹھے براہِ راست دونوں چیزیں مہیا کرتا ہے۔ مگر یہاں بھی ان دونوں چیزوں کی پیکنگ میں جو چیز فروخت ہوتی ہے اور خریدار جس چیز کا طلب گار ہوتا ہے، وہ ہے نفرت۔ یہ جو ہم اسکرین پر مذہب کی پیکنگ میں عورت کے موضوع پر چیخ و پکار سنتے ہیں، یہ دراصل نفرت کی فروخت ہے جو اسکرین کے سامنے مجمع میں اضافہ کرتی ہے۔ اس طرح کے فتویٰ فروش مارکیٹ ویلیو کے مطابق خاص طور پر مدعو کیے جاتے ہیں یا اُن کے حوالے اسکرین کر دی جاتی ہے تاکہ موضوع کی زیادہ سے زیادہ فروخت ہو۔

الیکٹرونک میڈیا پر نفرت کے بھاؤ تاؤ اور خرید و فروخت کا معاملہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ نیوز چینلز کو اسکرین پر نفرت کے زہر میں بجھی سیاست دانوں کی لڑائی، reenactment programs جن میں سماجی اور خونی رشتوں کے بیچ نفرت اور اُس شدید نفرت کے ردعمل میں دل دہلا دینے والے قتل کی وارداتوں کی منصوبہ بندی کو فرضی کرداروں کے ذریعے انتہائی سنسنی خیز انداز میں پیش کرنا، قتل و غارت اور تشدد و دہشت گردی کی خبر کو رونگٹے کھڑے کر دینے والے صوتی اثرات(sound effects) کے ساتھ مسلسل سُرخ رنگ میں لپیٹ کر دہرانا اور چیخ چیخ کر خبر سنانا اور چیخ چیخ کر بحث و مباحثے میں حصّہ لینے والے سیاست دانوں کو نفرت کے شدید ردعمل پر اُکسانا یا اظہارِ نفرت کے لیے اُن کی حوصلہ افزائی یا موقعے کی فراہمی، جس کا آخری منظر یہ ہوتا ہے کہ سیاست دان خواتین و حضرات کانوں میں چُبھتی آوازوں کا بے ہنگم شور اُگل رہے ہوتے ہیں اور میزبان بظاہر کانوں پر ہاتھ رکھے معنی خیز انداز سے مسکرا رہا ہوتا ہے، کیونکہ وہ نفرت کی فروخت کے سلسلے میں اپنا ہدف مکمل کر چکا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نفرت فروخت کرنے کی تمام ذمہ داری صرف چینل یا میزبان پر ہی آتی ہے۔ بحث میں حصّہ لینے والے سیاست دان اور مذہب دان بھی جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے اظہارِ نفرت کا ہنگامہ برپا نہیں کیا تو دوبارہ وہ اس دکان پر نہیں بلائے جائیں گے۔ کیونکہ اس منڈی اور بیوپار کے اُصول کے مطابق پھر وہ قابلِ فروخت چیز قرار نہیں پائیں گے۔

باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments