نفرت برائے فروخت


الیکٹرونک میڈیا کو اس طرح کے پروگراموں پر انتہائی کم سرمایہ کاری کے ساتھ بھاری منافع حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ نفرت فروخت کرنے والا میزبان اپنی مارکیٹ ویلیو کے مطابق اپنی بھاری قیمت لگاتا ہے اور اسی نفرت کے خریدار ناظرین کی طرف سے ملنے والی ریٹنگ نہ صرف چینل پر اشتہارات کے وقت کی قیمت کو آسمان پر پہنچاتی ہے بلکہ پروگرام کی قیمت میں بھی اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔

نفرت کی یہی خرید و فروخت ہمیں تفریحی چینلز پر بھی نظر آتی ہے جہاں خونی اور سماجی رشتوں کے درمیان نفرت کے کھیل پر مبنی ڈرامہ بکتا ہے۔ اگر نفرت کا عنصر نہ ڈالا جائے تو خریدار اسے خریدنے کو تیار نہیں اور اکثر نتیجہ شرمندہ کرنے والی ناکامی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کیونکہ یہ اب مکمل طور پر کاروبار ہے اس لیے اس کی کامیابی اور ناکامی میں فن کا معیار کم کم ہی کام کرتا ہے۔ اس کا سرمایہ کار بھی اپنے کاریگروں سے نفرت کا کھیل مانگتا ہے اور اس کا بیچنے والا بھی اور خریدار بھی۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف اس میدان کے بڑے بڑے سورما نفرت کے بل پر ملنے والے منافع کے سامنے گھُٹنے ٹیکتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اس کاروبار میں نئے آنے والے اسی گُر کو کامیابی کی کُنجی سمجھتے ہوئے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس کا استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ نفرت کو ملنے والی ریٹنگ کے برابر کی ریٹنگ نہیں لائیں گے تو اپنے فن میں کامیاب نہیں سمجھے جائیں گے اور نہ ہی خود اپنی قیمت بڑھا پائیں گے اور نہ ہی اپنے سرمایہ کار کے لیے منافع بخش چیز بن پائیں گے۔

اسی تسلسل میں جو چیز سفّاکیت کے ساتھ سماج میں افراد پر اپنا اثر چھوڑتی ہے وہ ہے اشتہار بازی۔ کتنے فیصد لوگ ان اشتہارات میں دکھائی جاتی مصنوعات کا استعمال کرنے کی مالی طاقت رکھتے ہیں اور باقی کتنے فیصد لوگوں کے حصّے میں انہیں حاصل نہ کر سکنے کی بے چینی آتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں۔ یہی اضطراب اُس نفرت کا بیج بو رہا ہوتا ہے جو اکثر املاک کو آگ لگانےاور ایک گولی کے بل پر کسی بھی انسانی جان کو موبائل فون جیسی حقیر چیز چھیننے کی نظر کر دینے جیسی وارداتوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے یا پھر تفریحی چینلز پر انعامات پر جھپٹتا اور انعام میں رکھی مصنوعات کے حصول کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار مجمع کی صورت میں جو ہم میں سے بہت سوں کو ہضم نہیں ہو پاتا۔

اشتہارات میں دکھتی ایک ایک چیز انسانی خواہشات کے سامنے ہڈی کی طرح ہے جس پر اس کا خواہشات کا مارا توانا ہو چکا اور بپھرا ہوا نفس پل پڑنے کو ہانپتا رہتا ہے۔ اس کھیل میں بہت ہی کم لوگوں کو علم ہے کہ الیکٹرونک میڈیا میں اے، بی، سی، ڈی اور ای کے خانوں میں خریداروں/ناظرین کو سماجی اور معاشی درجہ بندی میں تقسیم کرتے ہوئے ان کی پسند کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اے درجے کا ناظر جو اعلیٰ درجے کی مصنوعات کا خریدار ہونے کی وجہ سے انتہائی آسودہ حال بھی ہے، نفرت بھرے موضوعات میں دلچسپی بھی نہیں رکھتا اور ٹیلی ویژن کا باقاعدہ ناظر اس لیے بھی نہیں ہے کہ اس کی زندگی میں اپنی کئی طرح کی مصروفیات کی وجہ سے فالتو وقت بھی نہیں ہے۔ وہ کبھی کبھی مگر اعلیٰ معیار کی چیز کی طرف آتا ہے، مگر جس میں غربت کا رونا بہرحال نہ ہو۔ کاروبار دینے والا اصل طبقہ بی اور سی، ڈی اور ای ہے جو ان اشتہارات میں دکھائی جاتی مصنوعات سے اپنی درجہ بندی کے مطابق محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ جتنا زیادہ وہ مشتہر مصنوعات سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ نفرت کا خریدار بنتا جاتا ہے اور نفرت بھرے موضوعات اور نفرت بھری چیخ و پکار پر اور معاشرتی رشتوں میں ذہنی اور جسمانی تشدد پر ریٹنگ دیتا جاتا ہے جس کا اتار چڑھاؤ ہی الیکٹرونک میڈیا کے نفع و نقصان کی بنیاد ہے۔

اس تمام پس منظر میں اب نفرت افراد کے وجود میں سرایت کر چکا سند یافتہ رد عمل بن چکا ہے۔ کیونکہ جس طرح کوئی بھی خریدی ہوئی چیز فرد کی ملکیت بن جاتی ہے، اسی طرح فروخت شدہ نفرت بھی سماج میں افراد کی ملکیت قرار پاتی ہے جس کی بنا پر وہ جس وقت اور جسے چاہیں اپنے فیصلے اور اپنی ناپسندیدگی کی بنا پر قتل کر سکتے ہیں۔ تشدد کا حق رکھتے ہیں۔ چوراہے پر کسی کے لیے بھی فیصلہ سنا سکتے ہیں۔ کسی بھی خونی رشتے کے قتل کا اور اس کی معافی کا مالکانہ اختیار رکھتے ہیں۔

اور ایسا تب بہت ہی آسان ہو جاتا ہے جب ریاست قانون اور آئین ردّی کے بھاؤ بیچ کر خود نفرت کی سب سے بڑی خریدار بن جاتی ہے اور نفرت کے سرمایہ کاروں کے سامنے ذاتی مفادات کی خاطر گھٹنے ٹیک کر نفرت کے خریداروں کے سامنے بزدل ثابت ہو جاتی ہے۔

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments