دلِ پُرخوں کی اک گلابی سے ۔۔۔ (1)


\"asifایک وقت تھا کہ معراج محمد خاں کا نام بہت سُننے میں آتا تھا۔ وہ قومی زندگی کے اُفق پر ابھرتا ہوا ستارہ معلوم ہوتے تھے جو طالب علم رہ نما سے بڑھ کر ایسے سیاسی رہ نما بن گئے تھے جن کی شناخت ان کی اصول پرستی، نظریاتی وابستگی اور استقامت سے قائم ہوئی تھی۔ حالاں کہ اس کی پاداش میں انھوں نے بار بار ہزیمت اٹھائی۔ اب وہ تارہ ٹوٹ گیا اور اپنے پیچھے روشنی کی لکیریں چھوڑ گیا ہے۔

معراج محمد خاں ایک فردِ محض نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ایک رجحان اور ساست کا ایک انداز ختم ہوگیا۔ روزنامہ جنگ میں مسعود اشعر نے لکھا ہے کہ ’’معراج محمد خان کے انتقال کے ساتھ بائیں بازو کی سیاست کا وہ دور ختم ہو گیا جب طلبہ تنظیموں سے وہ سیاسی کارکن پیدا ہوتے تھے جو اپنی ساری زندگی طلبہ، مزدوروں، کسانوں اور دوسرے پس ماندہ طبقوں کے حقوق اور جمہوری اقدار کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ یہ کارکن آمروں کا مقابلہ کرتے تھے، جیلوں میں جاتے تھے اور ساری عمر اسی تگ و دو میں گزار دیتے تھے۔ ۔۔‘‘

کالم کے اختتام میں مسعود اشعر نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسی تحریکیں اب کہیں نظر نہیں آتیں۔ ’’بایاں بازو پیچھے ہٹ گیا ہے اور دائیں بازو نے وہ خلا پُر کر دیا ہے۔۔۔‘‘ لیکن وہ خلا پُر کہاں ہوا ہے؟ ہوتا بھی کیسے، وہ جذبہ تو رہا نہیں۔ معراج محمد خاں کے طالب علمی کے دور کا ذکر کرتے ہوئے مسعود اشعر نے ایوب خاں کے خلاف نکلنے والے طالب علموں کے جلوس اور طالب علم رہ نمائوں کو جیل بھیجے جانے کا ذکر کیا ہے۔ ان حالات سے گزرنے والوں میں انور احسن صدیقی بھی شامل تھے۔

معراج محمد خاں سے میرا تعارف بھی اسی طرح ہوا تھا کہ وہ میرے چچا انور احسن صدیقی کے دوست تھے۔ ’’جلوس اور جیل کے ساتھی‘‘ وہ ایک دوسرے کے بارے میں ہنستے ہوئے کہتے۔ سیاسی معاملات پر دونوں میں اختلافِ رائے بھی ہوا۔ لیکن مجھے یاد ہے انور چچا کے جنازے پر دو لوگ سہارا دے کر معراج محمد خاں کو لائے تھے۔ ’’آپ آج نہ آتے۔۔۔‘‘ کسی نے ان سے کہا۔ ’’کیسے نہ آتا؟‘‘ انھوں نے دُرشت لہجے میں جواب دیا۔ وہ بہت نڈھال تھے اور اندازہ ہورہا تھا کہ چراغِ سحر ہیں۔

\"aacchhkk\"طلباء کی پُرجوش مزاحمت کے واقعات انور احسن صدیقی نے اپنی خودنوشت سوانح ’’دل پُرخوں کی اک گلابی سے‘‘ میں لکھ دیے۔ چچا انور کی کتاب بھی اتنی شہرت حاصل نہ کر سکی جس کی وہ مستحق تھی لیکن ایسی داستان سناتی ہے جس کا تصوّر بھی اب ہمارے لیے محال ہوتا جارہا ہے۔ زندگی کی کتاب سے ماضی کے بہت سے ورق پلٹتے ہیں۔ ان اوراق میں سے معراج محمد خان کا چہرہ صاف نظر آرہا ہے۔

28 فروری 1961ء کو کراچی کے طالب علموں نے جلوس نکالا۔ اس کا احوال انور احسن صدیقی نے یوں رقم کیا۔

’’اگلے دن کراچی کے ایک ایک علاقے تک یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ کل آئی سی بی کی طرف سے ایک بڑا جلوس نکالا جائے گا۔ سب کو معلوم تھا کہ جلوس کی اصل قوت این ایس ایف کی ہوگی جس پر حکومت پابندی عائد کرچکی تھی۔ آئی سی بی تو این ایس ایف کے وقتی نعم البدل کے طور پر سامنے آرہی تھی۔ ہم آئی سی بی کے تمام عہدہ داران، جن میں چیئرمین فتح یاب علی خان، جنرل سیکٹری معراج محمد خان اور دوسرے لوگ شامل تھے، مکمل طور پر اس پروگرام سے متفق تھے اور اس میں شرکت کر رہے تھے۔ جلوس کے لیے بینرز اور پلے کارڈز وغیرہ بنانے کا زیادہ تر کام ایس ایم کالج کی کینٹین میں انجام دیا گیا۔ آرٹسٹوں میں احمد باشام ، ڈاکٹر فصیح الدین اور دوسرے بہت سے لڑکے شامل تھے۔ باشام تو ایک منجھے ہوئے آرٹسٹ تھے اور آگے چل کر وہ ایک پیشہ ور آرٹسٹ بن گئے۔ اس زمانے میں بھی ان کا زیادہ تر وقت پینٹنگ کرتے ہوئے ہی گزرتا تھا۔ ڈاکٹروحید اور فصیح الدین وغیرہ شوقیہ آرٹسٹ تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی شوقیہ آرٹسٹ اس کام میں مصروف تھے۔

اگلے دن کا سورج جب طلوع ہوا تو کراچی ایک بہت بڑی آزمائش کے لیے تیار تھا۔ تقریباً سارا شہر اس بات سے واقف ہوچکا تھا کہ کراچی کے طلباء آج حکومت کے خلاف جلوس نکالیں گے۔ فضا بھی سانس روکے ہوئے منتظر تھی کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے۔

اس دن صبح سے ہی سندھ مسلم کالج میں طلباء کا اجتماع شروع ہوگیا تھا طلباء جوق در جوق کالج کے مختصر سے احاطے میں جمع ہو رہے تھے۔ سندھ مسلم کالج کے آس پاس کا سارا علاقہ کالجوں کے علاقہ تھا، سندھ مسلم کالج کے قریب ہی ڈی جے سائنس کالج، این ای ڈی کالج ، گورنمنٹ کامرس کالج وغیرہ واقع تھے۔ تھوڑا سا آگے بندرروڈ کو کراس کرکے ڈاؤمیڈیکل کالج اور اس سے ذرا آگے اردو کالج واقع تھے۔ اردو کالج کے نزدیک پرنسس اسٹریٹ پر کراچی کالج فار وویمن تھا اور فریر روڈ پر گورنمنٹ کالج فار وویمن تھا یہ دونوں خالص لڑکیوں کے کالج تھے ان میں صرف ہڑتال کی جانی تھی لڑکیوں کو کالج کی عمارت سے باہر نہیں آنا تھا۔

اس دن ان تمام کالجوں میں آنے والے لڑکے اپنے اپنے کالجوں کی طرف جانے کے بجائے ایس ایم کالج کی طرف آرہے تھے اور وہاں جمع ہوتے جارہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزارہا طلبا جمع ہوگئے۔ سندھ مسلم کالج کا چھوٹا سا احاطہ تو پہلے ہی کھچا کھچ بھر چکا تھا، لڑکے ابپف ریستوران والی روڈ پر اور برنس روڈ پر جمع ہورہے تھے ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

ہم لوگ ایس ایم کالج کے اندر موجود تھے اور شیرافضل ملک کی قیادت میں جلوس کو باہر لے کر آنے کے لیے تیار تھے۔ جو لوگ سب سے آگے آگے تھے ان میں مجھ سمیت ڈاکٹر شیرافضل ملک، فتح یاب علی خان، معراج محمد خان، علی مختار رضوی، جوہر حسین، آغا جعفر، حسین نقی اور دیگر کئی ممتاز طلباء شامل تھے۔ ہم نے کالج کے اندر ہی جلوس ترتیب دیا۔ اس کی پہلی صف قائم کی اور پہلی صف میں شامل لوگوں کے ہاتھوں میں بینرز،پلے کارڈز اور بڑی بڑی تصویریں وغیرہ تھیں۔

\"anwaar\"پولیس کی بھاری نفری ایس ایم کالج کے باہر موجود تھی اور پولیس والوں کی طرف سے طلباء سے بار بار کہا جارہا تھا کہ وہ منتشرہو جائیں کیونکہ ان کا یہ اجتماع غیرقانونی ہے۔ لیکن طلبا میں اس وقت بڑا زبردست جوش وخروش تھا۔ انھیں قانون وغیرہ کے نام پر روکا نہیں جا سکتا تھا۔ برنس روڈ کے پورے علاقے میں سنسنی سی پھیلی ہوئی تھی۔ آس پاس کے تمام فلیٹوں کی بالکونیاں لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں جو حیرت ، دل چسپی اور تجسس کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہے تھے اور پھر نعرے لگاتا ہوا جلوس کالج سے باہر آگیا۔ پولیس نے جلوس کو روکنے کی کوشش کی لیکن شرکائے جلوس آگے بڑھتے گئے۔ اچانک پولیس نے طلباء کو منتشر کرنے کی غرض سے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ طلبا ادھر ادھر بھاگنے لگے ۔ کچھ طلباء نے پولیس والوں کی لاٹھیاں چھین لیں اور پولیس والوں پر جوابی حملہ کردیا۔ فضا میں ’’ایوب خاں مردہ باد‘‘، ’’مارشل لا مردہ باد‘‘، ’’فوجی حکومت مردہ باد‘‘ اور ’’جمہوریت بحال کرو‘’ کے نعرے گونج رہے تھے۔ پھر پولیس نے آنسو گیس کے گولے پھینکنے شروع کردیئے جس سے لوگوں کی آنکھیں جلنے لگیں۔ اور تب میری آنکھوں نے ایک بہت حیرت انگیز منظر دیکھا۔ فلیٹوں کی بالکونیوں میں کھڑے ہوئے لوگ بھی اس معرکہ آرائی میں شامل ہوچکے تھے۔ وہ اوپر سے بالٹیاں بھر بھر پانی پھینک رہے تھے اور گیس کے گولوں کو بجھانے کی کوشش کررہے تھے۔ بہت سے لوگوں نے تو پانی میں بھیگے ہوئے کپڑے کے ٹکڑے اور چھوٹے بڑے تولیے بھی نیچے پھینکے۔ پولیس والے ان بلڈنگوں کے اندر گھس گئے جن کے فلیٹوں کی بالکونیوں سے یہ کارروائیاں کی جارہی تھیں اور انھوں نے فلیٹوں کے بند دروازوں پر ڈنڈے برسانے شروع کردیئے۔

جلوس کی صفیں ٹوٹ چکی تھیں۔ سب لوگ ایک دوسرے سے الگ ہوچکے تھے۔ پولیس والے لاٹھیاں اور آنسو گیس کے گولے برسانے کے ساتھ ساتھ لڑکوں کو گرفتار بھی کررہے تھے۔ فتح یاب علی خان، معراج محمد خان، علی مختار رضوی اور دوسرے بہت سے لڑکوں کو پولیس نے پکڑ لیا تھا۔ برنس روڈ کا پورا علاقہ ایک میدانِ کا رزار میں تبدیل ہوچکا تھا۔

میں اور میڈیکل کے ایک طالب علم ڈاکٹر علی احمد آنسو گیس کے گولوں سے بچ کر ڈی جے سانس کالج کی پہلی منزل پر جا پہنچے تھے اور وہاں سے سامنے کا منظر دیکھ رہے تھے۔ ایک دل چسپ منظر جو آج تک مجھے یاد ہے وہ یہ تھا کہ پولیس والے کالج کی عمارت کے باہر سے آنسو گیس کے گولے پھینگتے تھے اور جیسے ہی کوئی گولا کالج کے احاطے میں آکر گرتا تھا، ویسے ہی کالج کا ایک پھرتیلا چپراسی پانی سے بھری بالٹی لے کر اس کی طرف دوڑپڑتا اور گولے کو پھٹنے سے پہلے ہی اسے ٹھنڈا کردیتا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پیچھے سے کوئی اور شخص بالٹی کو اس کے لیے تیار رکھتا تھا۔ پولیس کالج کے اندر داخل نہیں ہورہی تھی۔ صرف باہر سے کارروائی کررہی تھی اور وہ چپراسی کالج کے احاطے میں گرنے والے ہرشیل کو پانی ڈال کر بجھا دیتا تھا۔

یہ ہنگامہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ پولیس لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی کررہی تھی۔ علی مختار رضوی کا دایاں بازو ٹوٹ گیا تھا اور انھیں اسی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔ میں اور ڈاکٹر علی احمد کسی نہ کسی طرح ڈی جے کالج سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور ڈاؤمیڈیکل کالج کے ہاسٹل میں پہنچ گئے جہاں اور بھی بہت سے دوسرے لوگ موجود تھے۔ ہم میں سے بیشتر کی گرفتاری یقینی تھی۔ لیکن ہم نے طے کیا کہ ہم ابھی فوری طور پر پولیس کے ہاتھ نہیں آئیں گے اور پولیس والوں کو دوڑاتے رہیں گے، البتہ اگلے دن ہم کوئی مزاحمت نہیں کریں گے۔ چناںچہ میں، مسعود جعفری، اقبال اور دوسرے کچھ لڑکے عزیز آباد چلے گئے جہاں ہمارے گھر تھے۔ میں جب اپنے گھر پہنچا تو آج کے ہنگاموں کی اڑتی اڑاتی خبریں میرے گھر والوں کو پہنچ چکی تھیں۔ ہم لوگوں کو عزیز آباد میں منتقل ہوئے ابھی بہت تھوڑے سے دن ہوئے تھے۔ گھر میں بجلی ابھی نہیں آتی تھی۔ اس لیے ریڈیو نہیں چلتا تھا۔ ٹی وی کا تو کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ میں نے اپنے گھر والوں کو آج کے واقعات کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ مجھے کسی وقت بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔‘‘

لیکن یہ قصّہ تو بہت آگے تک چلنا تھا، عمر بھر جاری رہنا تھا۔ اسی لیے تو انور چچا نے اپنی کتاب کا نام میر کے اس شعر سے لیا تھا جس میں دلِ پُرخوں کی اک گلابی سے، عمر بھر ’’شرابی سے‘‘ بنے رہنے کا ذکر تھا۔ ایسے مست الست لوگ بھی اب کہاں ہیں۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments