سیاحت کے نام پرقدرتی ماحول کی تباہی



\"safdar-ali-safdar\" گزشتہ دنوں ایک قومی انگریزی اخبار کی خبر پر نظر پڑی، جس میں کہا گیا تھاکہ گلگت بلتستان میں سیروسیاحت کی غرض سے آنے والے سیاح تفریحی مقامات پر سیرسپاٹے کے بعد گندگی اور کچرا پھینک کر رخصت ہو جاتے ہیں، جو علاقے کی خوب صورتی اور قدرتی ماحول کو متاثر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ بات سو فیصد درست تھی تو میں نے بھی دوسرے\’\’ نیچر لورز\’\’ کی طرح وہ خبر سوشل میڈیا پر اچھالنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ حکمرانوں اور ماحولیات کے تحفظ پر کام کرنے والے اداروں کو کچھ ہوش ٹھکانے آجائے۔

میڈیا رپورٹس کے علاوہ اس چیز کا میں خود عینی شاہد ہوں کہ گلگت بلتستان کی جنت نظیر وادیاں ان دنوں کچرے کے ڈھیر بنی ہوئی ہیں، جسے دیکھ کر ایک ماحول دوست انسان کے پاس آنسو بہانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ میں نے شندور فیسٹیول کے دوران بھی اس صورت حال کا باریکی سے جائزہ لیا، جہاں پر بہت ساری اچھی اور مثبت سرگرمیوں کے علاوہ چند ایک ایسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں جو شندور جیسے بے مثال سیاحتی مقام کے حسن وجمال اور قدرتی ماحول کی تباہی کا باعث بن رہی تھیں۔

شندور میں گلگت بلتستان اور چترال کے مقامی شائقین کے علاوہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، مگر ہر کوئی دانستہ یا نادانستہ طور پر شندور کے اس خوب صورت ماحول کو مختلف حوالوں سے آلودہ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ واللہ! کسی ایک کو بھی یہ احساس نہیں تھا کہ آخر ماحولیاتی آلودگی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، جس کے بارے میں ہم بچپن سے نصابی و غیرنصابی کتب میں مطالعہ کرتے آئے ہیں۔ نہ ہی ان اداروں کو احساس تھا جو کاغذی کاروائی کے ذریعے ماحولیاتی تحفظ کے علمبردار بن کر خوب زر کمائی میں مصروف عمل ہیں۔
شندور میں تو ماحولیاتی آلودگی کا عالم یہ تھا کہ ہر جگہ پلاسٹک، کاغذ، ٹوٹے پھوٹے برتن، ذبح شدہ جانوروں کے فالتو عضلات، ریپرز، کھانے پینے کی باسی اشیاء، گاڑیوں کا دھواں، کوڑا کرکٹ اور انسانی فضلہ کی گندگی ہی نظر آرہی تھی۔ جبکہ شندور اور پھنڈر ویلی کی خوب صورتی کو نکھار دینے والے چشموں کے پانی میں گاڑیاں دھونے کا تو ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اپنے طور پر جاری و ساری تھا۔ ایسے میں ذائقے کے حوالے سے لازوال دریائے غذر کی ٹراؤٹ مچھلی کی صحت پر کیا گزرتی ہوگی، وہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہوگا۔
چلو مان لیا کہ دوردراز علاقوں سے شندور فیسٹیول کا لطف اٹھانے کی غرض سے آنے والے شائقین شندور کے پر فضاء اور پرسکون ماحول میں محو ہو کر ماحولیاتی تحفظ کا خیال رکھنا بھول گئے۔ لیکن نہ جانے گلگت بلتستان اور چترال کی سرکاری انتظامیہ کو اس سہ روزہ میلے کے دوران شائقین سے ماحولیاتی آلودگی نہ پھیلانے کی تلقین اور اس حوالے سے موثر حکمت عملی مرتب کرنے میں آخر کونسی دشواریاں لاحق تھیں؟
کاش !دونوں اطراف کی صوبائی حکومتوں کو ایک ماہ پہلے سے جاری فیسٹیول کی تیاریوں کے دوران یہ بات یاد آجاتی کہ اللہ کی اس انمول نعمت کا بھی کچھ توخیال کیا جائے، تو شائد جنت نظیر شندور کو کسی حدتک ماحولیاتی آلودگی سے بچا لیا جاسکتا تھا۔ حالانکہ اس کام کے لئے کوئی بڑی رقم بھی درکار نہیں ہوتی، بس چند ایک کچرہ دان نصب کرنا اور محکمہ بلدیہ کے کچھ اہلکاروں کو کچرہ اٹھانے کے لئے الرٹ رکھنا کوئی جان جوکھوں والا کام نہیں تھا۔ اس کے باوجود اگر کوئی آلودگی پھیلا ہی رہا تھا تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہئے تھی۔ میڈیا رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حال صرف شندور یا گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ جسے معاشرے کے اندر انسانی اذہان میں موجود گندگی مزید تقویت مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ ترقی کے منازل طے کرنے کی بجائے تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ جبکہ باہر کی دنیا اس گندگی سے کافی حد تک مستثیٰ ہے۔
چند روز قبل لندن سے آئے ہوئے ایک دوست بتا رہے تھے کہ وہاں پر صفائی اور قدرتی ماحول کی حفاظت کو تمام کاموں پر فوقیت حاصل ہے اور شہر کی سڑکوں، چوک چوراہوں، پارکوں، گلی محلوں اور دیگر تفریحی مقامات کو اس قدر صاف ستھرا رکھا جاتا ہے کہ بندے کو ہفتوں تک بھی جوتے پالش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ حالانکہ ظاہری طور پر صفائی تو مسلمانوں کے ایمان کا نصف حصہ ہے لیکن اس پر عملدرآمد غیر مسلم کر رہے ہیں، تو پھر ہم کیسے مسلمان کہلائیں گے؟

ہمارے ملک میں صفائی اور تحفظ ماحولیات کے حوالے سے قوانین بھی بنائے گئے ہیں اور ان پر عملدرآمد کے لئے ادارے بھی موجود ہیں، مگر ہم نے ملکی قوانین اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اپنے ایمان کا وہ نصف حصہ مکمل طور پر کھو دیا ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر سستی شہرت حاصل کرنے کی خاطرتحفظ ماحولیات کا چمپئین بن کر دیوسائی میں فیسٹیول کے انعقاد کے حوالے سے حکومتی اقدام کی بھرپور مخالفت پر تلے ہوئے ہوتے ہیں، مگر شندور، راما، نلتر، فیری میڈوز، پھنڈر، ہنزہ، نگراور دیگر سیاحتی مقامات پر گندگی اور کچرا پھیلانے پر اصرار خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ کیا یہ ہماری منافقت اور دوغلاپن نہیں؟
ہمارے وہ ادارے کہاں گئے جو دیوسائی فیسٹیول کی مخالفت میں صف اول کا کردار ادا کر رہے تھے، مگر شندور میں دوربین کے ذریعے بھی ان کا کوئی نام ونشان تک نظر نہیں آرہا تھا۔
گلگت بلتستان وہ سر زمین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہاں کا قدرتی ماحول، سرسبز و شاداب وادیاں، دل کش نظارے، رنگ برنگ کے پھول، دودھ جیسی نہریں، چشمے اور آبشارے، بلندوبالا پہاڑ، گھنگناتی ندیاں، خوب صورت جھلیں اور نایاب نسل کی جنگلی حیات دینا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں۔ بس اس سب میں جس چیزکا مشترکہ طور فقدان نظر آتا ہے تو وہ صرف اور صرف ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے عوام الناس کے اندر شعور و آگہی کی کمی اور اس سلسلے میں حکومتی لاپرواہی ہے۔
لہذا گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو اس بات کا سختی سے نوٹس لے کر ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے سخت ترین قوانین بنانے اور ان پر عملدرآمد کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ کسی کو بھی اللہ کی زمین پر ایک ٹکڑا کاغذ بھی پھینکنے کی جرات نہ ہو۔

دوسری اہم خبر یہ مل رہی تھی کہ خیبر پختونخوا حکومت نے چترال میں قدرتی آفت سے متاثرہ افراد کے نام پر بیرونی دنیا سے امداد کے طور پر آنے والے خیمے مستحقین میں تقسیم کرنے کی بجائے انہیں حکومتی تحویل میں لیکر شندور میں سرکاری حکام اور فیسٹیول انتظامیہ کے سپرد کر دئیے جو کہ انتہائی افسوس ناک اور شرمناک عمل ہے۔ یہی کچھ شندور میں گلگت بلتستان کے لئے متعین کردہ مقام پر بھی دیکھنے میں آرہا تھا مگر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ خیمے کن متاثرین کو کہاں سے امداد کے طور پر انتظامیہ کے ہاتھ لگ گئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی صوبائی حکومتوں کو شندور میلے کی مد میں کروڑوں روپے کا بجٹ مختص کرنے باوجود مہمانوں اور میزبانوں کو ٹھہرانے کے لئے سیلاب متاثرین کے نام پر امدادکے طور پر ملنے والے خیموں پر قبضہ کرنے کی نوبت کیوں پیش آگئی؟
حالانکہ شندورمیں دونوں اطراف کی انتظامیہ کی طرف سے وہی خیمہ بستیوں کی سہولت ہی تو تھی، اس کے علاوہ ان کے پاس اور کچھ تھا تو وہ مفت کی روٹی، وہ بھی سرکاری خرچے پر محکمہ سیاحت کے حکام اور انتظامی افسران کے چہیتوں میں تقسیم کی جاتی رہی۔ اگرخیمے بھی سیلاب متاثرین کے نام پر امداد کے تحت مل گئے تھے تو سرکاری فنڈ آخر کہاں خرچ کیا گیا؟
بہرحال خیمے تو آئندہ بھی ملتے رہیں گے لیکن خدا را سیاحت کی ترویج کے نام پرقدرتی ماحول کی تباہی سے اجتناب کیا جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments