مذہب اور اکیسویں صدی کا انسان، مقابلہ ناممکن؟


مدیحی عدن

\"madeehiدور جدید میں جہاں انسانوں نے اتنی ترقی کی وہاں انسانوں کے ذہنوں نے بھی خود کو جدت پسندی کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا۔ جب انسان پرانے وقتوں کے انسانوں کے بارے میں سوچتا ہے توان سے منسلک ہرچیزاس کو پرانی، دقیانوسی اور فرسودہ ہی لگتی ہے جیسے پرانے خیالات، پرانا فیشن، پرانی تہذیب اور پرانے رسم و رواج. ان سب چیزوں میں وہ ایک اور چیز کو بھی پرانا سمجھتا ہے کیونکہ جہاں فیشن، رسم و رواج، زمانہ مزید جدیدیت کی طرف جاتا ہے وہاں وہ ایک چیز وہیں کی وہیں رہتی معلوم ہوتی ہے اور وہ ہے اس کا مذہب۔ وہ مذہب سے منسلک ہر قسم کی بات کو پرانی تصور کرتا ہے، جو چیزیں پیدائش کے وقت بھی ویسی ہی تھی اور آج بھی ویسی ہی ہیں حالانکہ زمانہ بدلا، سوچ بدلی، فیشن بدلا۔

لیکن مذہب کیوں نہیں؟ تبھی انسان مذہب کو جدت پسندی کی طرف مائل کرنا چاہتا ہے اوراس میں گنجائش پیدا کرتا ہے۔

مذہب کو جدیدیت کی طرف لانے میں تین طرح کے گروہ سامنے آتے ہیں۔

ایک طبقہ تو وہ ہے جو کہتا ہے سب کچھ پرانا ہی چلتا رہے کچھ بھی بدلا نہ جائے، کوئی تبدیلی قبول نہ کی جائے صدیوں پہلے جیسا مذہب آیا تھا بس اسے ویسے ہی مانا جائے۔ اگر اس دور کے لوگ جانوروں کی سواری پر سفرکرتے تھے تو آج بھی جانور ہی سواری کے لئے استعمال کئے جائیں۔ گاڑی، جہاز، موٹر سائیکل پر سفر کرنا حرام ہے۔

ایک وہ طبقہ ہے جو کہتا ہے ہر تبدیلی کو مذہب میں قبول کر لینا چاہیے جو کہ دور کی ضرورت ہے اس کے لحاظ سے، چاہے وہ تبدیلی اچھی ہو یا بری! یہ طبقہ معاشرتی اقتدار اور سوچ کو بدل دیتا ہے،صرف اور صرف اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے، جیسے ہم جنس پرستی۔ خاندان ایک مرد اور عورت سے وجود میں آتا ہے، لیکن اس طبقے کے مطابق خاندان کے لئے دو افراد کا ہونا ضروری ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ دو مرد ہیں یا دونوں عورتیں، یا پھر مرد یا عورت اور اس کا پالتو جانور!

ایک طبقہ وہ ہے جو کچھ جدید تبدیلیاں لے لیتا ہے اور کچھ نہیں، لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرنا ہے یا رد؟

اب سوال یہ ہے کہ ” کیا ساتویں صدی کا اسلام اکیسویں صدی کے انسان کے ساتھ چل سکتا ہے؟”

اسلام ایک اعتدال پسند دین ہے جو کہ زمانے کے ساتھ ساتھ خود میں اتنی لچک رکھتا ہے کہ جدیدیت کو خود میں گھلا ملا لے۔ انسانیت کی فطرت یہ پسند کرتی ہے کہ زمانے کے ساتھ خود کو بھی جدت پسند کرتے رہنا، کوئی بھی پرانی سوچ کا ہونا، پرانا طرز کا لباس اپنے اوپر اوڑھنا پسند نہیں کرتا تو اسلام بھی انسانی فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلام کو جب لوگ پرانے خیالات کا مذہب کہتے ہیں تو وہ اس کی بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا لیتے ہیں۔

اسلام کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں جس پر ایک انتہائی لچکدار عمارت کھڑی ہے جیسا کہ جب تمباکو نوشی شروع ہوئی تو اس کے بارے میں فکر پیدا ہوئی کہ آیا استعمال کر بھی سکتے ہیں یا نہیں تو اسلامی فقہہ میں ایسے اصول دیکھے گئے جو اس سے مناسبت رکھتے ہوں جیسے سگریٹ کے استعمال سے ایک خاص قسم کی بو پیدا ہوتی ہے تو اسلام میں ممانعت ہے کہ جس شخص نے لہسن یا پیاز کھایا ہو وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کرے، کیونکہ اس سے بھی بدبو پیدا ہوتی ہے جس سے ساتھ نماز ادا کرنے والے شخص کو بدبو کا آنا اچھا نہ لگے تو سگرٹ پینے کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا، اسے حرام نہیں کہا گیا۔ پھر 1979 میں جب یہ ریسرچ سامنے آئی کہ تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کا کینسر ہوتا ہےتو پھر اسلامی فقہ میں ایسے قانون دیکھے گئے جو انسان کو خود کو نقصان پہنچانے سے تعلق رکھتے ہوں۔ جیسے خودکشی وغیرہ، پھر سگریٹ نوشی کو بہت سے علما کو نے حرام قرار دے دیا۔ یعنی جیسے کوئی جدید بات پیدا ہوئی فوراً اس لحاظ سے ایک رائے پیدا ہوئی کہ آیا یہ ٹھیک ہے یا نہیں۔

کچھ معاشرے میں یہ ہوا کہ ان میں جیسے کوئی جدید سوچ پیدا ہوئی تو فوراً اس کو قبول کر لیا گیا اور اس کو قبول کرے کے سلسلے میں اس معاشرے کے کچھ اپنے اقتدار اور تہذیب مخالف تھیں تو ان سب کو بدلنے یا ختم کرنے کو کہا گیا۔ جیسے ہم جنس پرستوں کے حق میں قوانین پاس کروائے گئے کیوں کہ جدیدیت یہی ہے کہ خاندان کے لئے اب دو افراد کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ دو مرد، دو عورتیں یا پھر ایک مرد اور ایک جانور ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً اب ایک شخص اپنے جانور سانپ کے ساتھ رہتا ہے تو یہ ایک خاندان ہے اوراب ان میں وارثت کے قانون عام خاندان کی طرح ہی تقسیم ہوں گی۔

اسلام جدت پسند ہونے کے لئے اقدار کو نہیں بدلتا لیکن جو جدت پسند ہیں وہ انہی اقدار کو بدلنے کا کہتے ہیں اور اگر وہ نہ بدلیں تو ان کی سوچ میں وہ مذہب دقیانوس ہے اور پرانے خیالات کا ہے۔ حالانکہ اس معاشرے نے خود کو صرف ایک جدت پسند ہونے کا خطاب دینے کے لئے اپنے اندر کتنا بگاڑ پیدا کرلیا۔

ہر چیز اختیارکر لینا جدت پسندی نہیں بلکہ جو چیز قبول کرنے لگے ہیں اس میں تمام عناصر کو مد نظر رکھ کر لینا یا چھوڑنا ضرور ہے ۔اس لئے ساتویں صدی کا اسلام اکیسویں صدی میں بھی پرانا یا بوسیدہ نہیں ہے۔ یہ جدید دورکے تقاضوں کو پورا کرنا بھی جانتا ہے اور پستی سے بچانا بھی، دقیانوس تو وہ ہیں جو صرف ایک رخ کو اختیار کئے جارہے ہیں اس کے مستقبل میں ہونے والے اثرات کو جانے بغیر۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments