قومی شناخت کا سوال اور کچھ سوالات


\"muhammadہمارے ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ایک خاص ثقافت کو غیر محسوس طریقے سے فروغ دے رہا ہےکہ فورا محاذ کھولے جائیں اور محاذوں کو گرمایا جائے بلکہ ہر فرد ایک محاذ کا مالک ہے۔ حتیٰ کہ فنون لطیفہ کو بھی اپنے اسی میعار کے مطابق ڈھال لیا۔ لوگ چونکہ اپنے موقف کو جیتنا چاہتے ہیں بلکہ مار کے، گالیاں دے کے یا جنگ کے ادنیٰ درجے یعنی \”کھری کھری \” سنا کے جیتنا چاہتے ہیں۔ شعوری جکڑ بندی کی جنگ تو ابھی ہم جیت نہیں پا رہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ تخلیقی اور فنی سرگرمیوں کی گنجائش ہونے کے باجود توجہ کم ہے۔ دنیا میں ادبی تحریکوں نے تاریخ کو رقم کرنے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔ بلکہ لوگوں نے اپنی قومی شناخت کو بنانے اور بحال رکھنے کے لئے ان سرگرمیوں کے میدانوں میں کار ہائے نمایاں کئے۔

آج کی \”سپر پاور\” امریکہ کے دانشور بہت پہلے 1820 میں سکاٹش وزیر سڈنی سمتھ کے لکھے گئے مضمون پہ جب بے چین ہوئے تو پھر یورپ سے موازنے کی بجائے انہوں نے امریکی انداز سے سوچنا شروع کیا۔ اس مضمون کو پورے امریکہ میں پڑھا گیا اور اس میں موجود سوالات کی فہرست نے بے چینی کو تشویش کا راستہ دکھایا۔ مثلاََ دنیا میں امریکی ادب کون پڑھتا ہے یا امریکی کھیل دیکھتا ہے؟ امریکہ کے بنائے گئے مجسموں اور تصاویر پہ کس کی نظر پڑ سکتی ہے؟ دنیا کتنے امریکی سرجنز یا فزیشنز کی مقروض ہے؟ کتنے \”مادوں\” کو امریکی کیمیا دانوں نے دریافت کیا؟ امریکہ کے گلاس کچھ پینے کے لئے کہاں استعمال ہوتے ہیں یا امریکی پلیٹوں میں کہیں کھایا جاتا ہو؟ حتیٰ کے امریکی کمبل اور امریکہ کے کوٹ کہاں پہنے جاتے ہیں؟

یہ سوال امریکی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ناقابل جواب نہیں رہے کیونکہ اگلے بیس سالوں کے بعد  1820 بہت پرانا زمانہ لگنے لگا۔ \”سمتھ\” کے اٹھائے گئے سوالات کو ٹھوس جوابات مل چکے تھے۔ مگر ان سوالات نے امریکی \”فکر\” کو جو جہت دی اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ پھر داد و تحسین اس قوم کو کہ جس نے وہ سوال پڑھے اور انہیں حل پزیر بنانے کی جدوجہد کی۔ خالص امریکی پہچان کے نقطہ نظر کے تحت ہر شعبے میں کام ہونےکا رواج فروغ پانے لگا۔ یہ فکری آزادی کا مرحلہ شاید ہر قوم کی پہچان کے لئے لازم ہے۔

 ہم نہیں جانتے کہ ہماری موجودہ روش کے نتائج کیا نکلیں گے مگر یہ طے ہے کہ کچھ سوالات کا ہمیں بھی سامنا ہے بلکہ شاید انہی سوالات کو پاکستانی تناظر میں لے لیا جائے۔۔ کہ ہم نے اپنے وجود کے خالی ڈبوں کو طرح طرح کے رنگ برنگے کاغذوں کی تہوں میں لپیٹ رکھا ہے۔ ہم اس ظاہری تہ کو اپنا باطن ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم اپنے نقاد بننے سے محروم رہے۔ تنقیدی ہونے کی صفت کو ہم نے خود احتسابی سے پرے رکھا۔ تنقید کو ہمارے ہاں صرف ایک لحاظ سے شہرت ملی کہ جو شخص ہمیں پسند نہیں ہے اس پہ لعن طعن شروع کر دیں یا کوئی خفیہ رنجش رکھ لیں اور وقتاََ فوقتاََ اپنی سازشی بیانات اور حرکات کی سوئیاں چبھوتے رہیں۔ ہم نقطہ نظر سے اختلاف کو انا کا مسئلہ بنا کر ایسی سرد جنگ شروع کر دیتے ہیں کہ جو ہمیں ہر وقت کے حملے کے لئے بے چین رکھتی ہے۔

ہم کم از کم دو \”انداز\” سے جیتے ہیں۔ بوقت ضرورت ہم اپنا روپ بدل لیتے ہیں۔ ہمیں جہاں جس قسم کی حمایت چاہیئے ہم اسی \”فکر\” کے پیروکار بن جاتے ہیں۔ جو مقبول ہے ہم اسے کے معترف بن کے کلام کرتے ہیں۔ حقیقتاََ ہم بہت ہی مشکل اور مضر کام انتہائی چالاکی سے کر لیتے ہیں۔ اس رواج کو دیکھا دیکھی اتنی مقبولیت ملی ہے کہ ہم اسے اپنا کر بھی اسے منافقت کا درجہ دیتے ہیں۔ گویا ہم جانتے ہیں کہ یہ مناسب نہیں مگر پھر بھی کرتے ہیں۔ \” ہم\” کا لفظ استعمال کرنے کا مطلب اس کے سوا نہیں کہ خود لکھنے والا بھی اسے معاشرے کا فرد ہے اور اسی کے تحت زندگی گزار رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ جب اس دوہری حیثیت سے کبھی فرصت ملے تو اس کے \”ہونے\” کے شواہد اکٹھے کریں۔ ہم روز ذاتی عدالتوں میں لوگوں کو حاضر کرتے ہیں اور روز انہیں دلپسند سزائیں دیتے ہیں۔ چاہے کوئی عوامی مہم ہو یا پھر انتہائی شرعی نوعیت کے فتوے، ہم ہر لحاظ سے پیش پیش ہوتے ہیں۔ مگر یہ سب دوسروں کے لئے ہے ہم خود پسندی اور خود پرستی کے نہ نظر آنے والے خول میں قید ہیں۔ مذہب اور سماجی اقدار کے ہتھیار کا بے دریغ استعمال کر کے جو احساسات کا قتل عام ہوا اسے انسان کی تہزیبی تاریخ میں باقاعدہ سرخ رنگ سے رقم کیا جائے گا۔ اس سرخی کو ہماری آنکھیں اگر دیکھ نہیں رہی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا ہوا نہیں۔ ہمارے یہاں دائرہ شریعت میں داخلہ اور خارجہ بڑی آسانی سے کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ دل کی دنیا سے آشنائی اور واقفیت تو \”کار خدائی\” ہے یہ دنیا کے خدا کا انکار تو کلمہ طیبہ پڑھتے ساتھ ہی کر دیا جاتا ہے۔

ہم ایک رجحان نہیں رکھتے ہماری کوئی ایک وضع نہیں ہے اور نہ ہم ایک بات پہ متفق ہیں ہم \”قومی بیانیئے \”کی تلاش میں سر گرداں ہیں مگر کسی ایک بیان پہ ٹکتے نہیں ہیں۔ ہم کئی بنیادوں پہ منقسم ہیں، دنیا کو \”گلوبل ولیج\” اس لئے کہتے ہیں کیونکہ دنیا کہتی ہے ورنہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے آمیزے میں ذات، نسل، قوم، مذہب اور علاقائی رجحانات الگ الگ دیکھے جا سکتے ہیں۔ اکثر ہم مخالفت کرتے ہوئے حمایت شروع کر دیتے ہیں اور اکثر موافقت، مخالفت پہ منتج ہوتی ہے۔ شاید ہم بہت جلدی سے \”تبدیلیوں\” کا سفر طے کر رہے ہیں۔ اتنی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ ہمارے قدم کسی جگہ زمین پہ ٹھہرتے نہیں اور اس کے پیچھے ہماری کم یقینی کا پہلو کار فرما ہے۔ گو یا ہم نظریاتی خلا پر کر کے بظاہر شانت ہو جاتے ہیں مگر در اصل نظریئے کا خلا پھر ظاہر ہو جاتا ہے۔ ہم کسی کو اپنے جیسا یا اپنے سے بہتر ماننا نہیں چاہتے۔ ہماری اڑان بہت منفرد ہے۔ ہم گہرائی کے غوطوں میں میں افق کو چھونے کا احساس حاصل کرتے ہیں۔ ویسے ہم اگر ایک دفعہ خود اپنے سامنے وہ ہوں جو ہم ہیں اور کچھ دیر وہی رہیں تو شاید ہم خود کو جان سکتے ہیں۔ ہماری تخلیقی سست روی ادبی ہو یا سائینسی ہماری اسی فکر سے منسلک ہے۔ کبھی ہم انتہائی جذباتی ہو کر مغربی انداز زندگی کو قطعی رد کر دیتے ہیں اور مشرقی طرز فکر کے داعی بن کر انتہائے مشرق جا ٹھہرتے ہیں پھر اچانک کسی واقعے پہ رد عمل کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ ہمیں مغربی دنیا سے سبق سیکھنا چاہئے وہاں کس طرح سماجی اور انسانی اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے کس طرح قانون کی عمل داری کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ ( یہ جانے بغیر کہ مغرب کی اپنی سماجی ارتقائی تاریخ ہے وہ جس طرح کے معاشی ادوار سے گزرا)

ہمارے ہاں یہ سب ممکن کیوں نہیں۔ ہم مختلف سیاسی جماعتوں کے بارے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے خلاف پتہ نہیں کتنے حوالے جمع کر کے پوری مہم چلاتے ہیں اور پھر کبھی کسی دن اپنی وابستگی کے خلاف ہو جاتے ہیں اور ماضی میں جس کے خلاف تھے یوں اس کے حق میں ہو جاتے ہیں گویا یہ مخالفت کسی جادوئی دنیا کا کوئی قصہ تھا سو قصہ تمام ہوا۔ ایک اکثریت یہ عمل اپنی زندگی میں کئی دفعہ دہراتی ہے اس لئے یہ صرف تبدیلی نہیں بلکہ \”راس\” آتے فائدے کا معاملہ ہے۔ ہم نطریاتی اساس کو دوسرے ملکوں کے خلاف نفرت پہ قائم سمجھتے ہیں حالانکہ نفرت کبھی حقیقی نظریئے کا باعث نہیں بن سکتی۔ کچھ ہی دیر میں امن کے لئے ہمسایہ ملک سے \”محبتوں کا پیغام\” مو صول ہوتے ہی اس نظریاتی اساس کو پرے پھینکتے ہیں جو ہمارے خیال میں ہماری تاریخی تحریک کی وجہ بنی۔ جبکہ رسول خدا ﷺ نے محبت اور سلامتی کو اپنے نظریئے کی بنیاد بنایا اسی لئے اسلام کے دائرے میں لوگ آتے گئے۔ نظریاتی وسعت کبھی نفرت کے لئے گنجائش مہیا نہیں کرتی۔

دوسری طرف اگر ہم تاریخ کے طالب علم بنیں اور ان تجربات کی روشنی میں اپنے مستقبل کو کھوجیں تو یقیناََ ہم جانیں گے کہ دنیا میں ہمیشہ وہی موقف آگے بڑھا ہے جو درست اور عقلی معیار پہ پورا اترتا ہو۔ جیسے اسلام کا تصور \”عدل\” ہے، ہمیں سماجی تاریخ میں یہ تصور کافی سائینسی معلوم ہوتا ہے کہ جس میں انسانی حقوق اور حیثیت کو مرکز مانا گیا مگر صد افسوس کہ اس انتہائی فلاحی اور اصلاحی پہلو کو ہم فراموش کر کے یا پھر اس کے \”من پسند\” ترجمے کر کے استفادہ حاصل کرتے رہے۔ ہم اپنے دوہرے معیارات کو دراصل کبھی پہچان ہی نہیں پائے۔ ہم لفظ اور عمل کے رشتے کو سمجھے بغیر \”الفاظ\” سے روحانی تسکین حاصل کرنے کے سلسلے میں کافی دلچسپی اور میلان ظاہر کرتے ہیں۔ اسلامی معرکہ آرائیوں کے ساتھ ساتھ اگر ہم اسلام کے علمی اور فکری اثاثے کی کچھ خبر گیری کر لیں تو کافی حد تک ہمیں اپنے ذاتی اور سماجی تجزیئے میں مدد مل سکتی ہے۔ خدائے بزرگ نے انسانی تخلیق اور اس کے مقصد میں جو راز رکھا ہے اس کی کھوج کے علاوہ کیا زندگی ہے۔ اس کی بے انتہا قدرت اور اس کے قوانین کے تحت حرکت کو سمجھنے کے علاوہ زندگی کیا ہے سماجی تفریق اور اور اس بنا پہ استوار سماجی ڈھانچے کو جاننے اور پھر بدلنے کے علاوہ زندگی کیا ہو سکتی ہے؟ مگر یہ اس کے علاوہ اگر کچھ بن چکی ہے تو وہ ایک ایسی دوڑ ہے جس میں غلبہ پا کر جینے کی حیوانی نفسیات حکمران ہے۔

لیکن اگر ہمیں اس زندگی میں انسانیت کے لئے کچھ خاص کرنا ہے تو پھر ہمیں واضح ہونا پڑے گا کہ ہمارا نقطہ نظر اتنے تواتر سے رنگ روپ نہیں بدلے گ۔ ہم تاریخی حقائق کو دیانتداری سے سمجھنے کی کوشش کر کے اپنے نقطہ نطر میں بہتری لا سکتے ہیں یا اسے فروغ دے سکتے ہیں۔ امکانات کی دنیا کو ایک جھٹکے میں مسترد کر کے پلٹنے جیسی جذباتی حرکت ہمیں سیکھنے اور آگے بڑھنے سے دور رکھے گی۔ ہم سادگی کے حق میں بعد میں بولیں گے پہلے ہم سادگی کو اپنائیں گے، ہم راست بازی کی کہانی بعد میں سنائیں گے پہلے اپنے اعتبار سے خود اپنی ذات پہ نافذ کر کے سرشاری حاصل کریں گے، ہم حق کے خزینے کا نقشہ بعد میں تھامیں گے پہلے حقیقت کو پرکھیں اور اس کا انتخاب اپنی ذات کے لئے کریں۔ ہم \”دوہرے معیارات\” سے خدا کی پناہ مانگیں۔ قومی شناخت کی تشویش میں مبتلا ہونا پڑے گا اور تخلیق و دریافت کی سعی کرنی پڑے گی۔ تحقیق کے راستے پہ چل کے ہی ترقی کی منزل تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments