ستر لاکھ سال پرانے گینڈے کا سینگ


\"husnainساڑھے چار ارب سال پرانی اس زمین پر کیسی مخلوقات ہم سے پہلے رہی ہوں گی، کیسے موسم ہوں گے، کیسے دن گزرتے ہوں گے، کیسی راتیں ہوتی ہوں گی، مٹی کا رنگ کیسا ہوتا ہو گا، کچھ ہوتا بھی ہو گا یا نہیں ہوتا ہو گا، یہ سب سوال ذہن میں پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔ آج اپنے ہاتھ میں تقریباً ستر لاکھ سال پرانے گینڈے کا سینگ پکڑنے کا اتفاق ہوا تو اس وقت سے لے کر اب تک بس ایک حیرت ہے جو ختم نہیں ہوتی۔ یعنی کمال ہو گیا، دنیا اتنی پرانی ہے، ہم سے پہلے بھی کوئی ہوتا تھا اور اتنا پہلے ہوتا تھا کہ ہمارا ذہن وہاں تک کبھی چھلانگ ہی نہیں لگا پاتا۔ وہ گینڈا جس کے سینگ کی آج زیارت ہوئی کبھی سوچ بھی نہیں سکتا ہو گا کہ ایک انسان آج سے لاکھوں سال بعد میری باقیات میں سے ایک سینگ دریافت کر لے گا اور دوسرا انسان اس بات پر خوش ہو گا کہ اتنے پرانے گینڈوں کے آج تک ملنے والے نشانات میں سے ایک کو وہ ہاتھ میں تھامے کھڑا ہے۔ اور وہ اس بات پر بھی خوش ہو گا کہ یہ سینگ اس نسل کے گینڈوں (Rhinoceros Sondaicus) کا پوری دنیا میں اب تک دریافت ہونے والا واحد سینگ ہے، اور وہ سینگ پاکستان میں ہے۔

لیکن گینڈا کیوں سوچے گا، اور وہ بھی اتنا پرانا گینڈا، اس لیے کہ لکھنے والے کو کبھی کبھی حق ہوتا ہے اور وہ گینڈے کو سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے ساتھ ساتھ وہ خود یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ ہمارے بلوچستان کی سرزمین کیا واقعی اتنی پرانی ہے کہ وہاں سے دنیا کے اتنے قدیم \"AFCHIN\"ترین جانوروں کے سراغ مل چکے ہیں؟ ساڑھے چار ارب سال پرانی دنیا کے تقریباً تیس لاکھ سال پرانے جانور اور اب تک دریافت ہونے والے دنیا کے سب سےبڑے میمل جانور بلوچی تھیریم (baluchitherium) گینڈے کے بقایا جات ڈیرہ بگٹی سے دریافت ہوئے۔ دو برطانوی ماہرین پلگرم اور کوپر نے 1908 سے 1910 کے درمیان اس علاقے میں یہ فوسلز دریافت کیے۔ پھر 1990، 2003 اور 2011 میں فرانسیسی ماہر حیاتیات ویلکم نے بلوچی تھیریم پر بہت زیادہ کام کیا۔ نواب اکبر بگٹی نے بھی اپنی زندگی میں انہیں بے تحاشا سہولیات دیں اور ان کے اس کام کو سراہا۔ گینڈوں کے آباؤ اجداد میں شامل اس جانور کا وزن تقریبا 12000 سے 20000 کلوگرام کے درمیان تھا۔ یہ عجیب الخلقت جانور 28.5 فٹ لمبا ہوا کرتا تھا اور گھاس پھوس پر ہی گزارہ کرتا تھا۔

سائنسدانوں کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ بلوچی تھیریم گینڈے گیارہ لاکھ سال تک زندہ رہنے کے بعد صرف اپنی عادتوں کی وجہ سے ختم ہوئے۔ ایک تو ان کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ وہ کاہل ہو جاتے تھے اور اپنی آبادی تک بڑھانے سے پرہیز فرماتے تھے اور دوسرا یہ کہ اپنے آس پاس کے تمام درخت اور سبزہ کھا کھا کر وہ ختم کر دیتے تھے، پھر جب مزید خوراک نہ ملتی اور موسموں کی شدت ہوتی تو وہ ایک ایک کر\"fida\" کے مرتے جاتے اور مرتے مرتے بالکل ہی ختم ہو گئے۔ ایک وہ کمال جانور تھے اور ایک ہم کمال جانور ہیں، ہم نے بھی طے کیا ہے کہ اس دنیا کے غم خوراک سے ہی کم کرنے ہیں!

فوسلز کے بارے میں اکثر دوست جانتے ہیں۔ فوسلز ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوں سال پرانے ان نشانات یا باقیات کو کہا جاتا ہے جو ہم آج کے دور میں عموماً پہاڑوں، صحراؤں، غاروں یا دریاؤں کے قریب علاقوں میں دریافت کرتے ہیں۔ یہ نشانات اس زمانے کے جانوروں کی ہڈیاں یا دانت بھی ہو سکتے ہیں اور پودوں کے بیج وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک اور طرح کے فوسل بھی ہوتے ہیں، جیسے کسی جانور کے پیروں کے نشان والا کوئی پتھر مل گیا، کسی پتھر پر کسی کیڑے کا نشان پایا گیا، کوئی پتھر کاٹا تو اس میں پرانے زمانے کے درختوں کا پتا بنا مل گیا یا پھر سالم جانور بھی وقت گزرنے کے ساتھ پتھروں کی شکل میں تبدیل ہوتے پائے گئے ہیں۔ کہیں لاوا آیا، کہیں برف گری، سو طریقے ہوئے اور قدرت نے آپ کے لیے نشانیاں محفوظ کر دیں۔

اتنا علم امڈ امڈ کر اس لیے نازل ہو رہا ہے کہ آج غفار صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جب نوکری شروع ہوئی تو یہ پہلے باس تھے جن کے ساتھ کام شروع کیا۔ بہت کچھ ان سے سیکھا، بڑی ڈانٹیں بھی کھائیں، پھر انہوں نے وہ ادارہ چھوڑ دیا۔ یہ پی ایچ ڈی کر چکے تھے اور اس کے بعد\"hus02\" پڑھنے پڑھانے اور تحقیق کرنے میں لگ گئے۔ ڈاکٹر عبدالغفار ستر سے زائد ریسرچ پیپر شائع کر چکے ہیں۔ پیلینٹولوجی ( palaeontology ) یا زندگی کے ارتقا کا علم وہ مضمون ہے جس میں آپ کم از کم ساڑھے گیارہ ہزار سال پرانی زندگی کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں اور پھر یہ رینج بڑھ کر ساڑھے تین ارب سال تک بھی جا سکتی ہے کیوں کہ قدیم ترین جاندار کا فوسل جو آج تک دنیا میں دریافت ہوا ہے وہ اتنا ہی پرانا ہے۔ وہ ایک بیکٹیریا تھا جسے سیانوبیکٹیریا کہا جاتا ہے۔ تو ہمارے غفار صاحب اس علم کے ماہر ہیں۔ جن باتوں پر ہم سر پکڑے بیٹھے ہیں وہ ان کی انگلیوں کی پوروں پر دھری ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے اپنی ٹیم کے ساتھ ایشیا میں اب تک دریافت ہونے والا سب سے قدیم اور سب سے لمبا ہاتھی دانت دریافت کیا ہے اور یہ دانت بھی ساڑھے تین لاکھ سال پرانا ہے۔ تقریباً آٹھ فٹ لمبا یہ دانت جہلم چکوال والی سائیڈ پر کہیں سے دریافت ہوا ہے۔ سادے لفظوں میں بس یہ سمجھ لیجیے کہ اگر آپ موٹر وے سے اسلام آباد جائیں تو کلر کہار کے آس پاس سرخ سے رنگ کے جو چھوٹے چھوٹے پہاڑ نظر آتے ہیں بلکہ جو دوسرے رنگوں کے پہاڑ بھی دکھتے ہیں، یہ سب ان رازوں کے امین ہیں جو لاکھوں سال پرانے ہیں اور ان کے سینوں میں وہ دفن ہیں۔

ایک اور بڑی مزے کی بات نظر آئی، لاکھوں سال قبل بارڈر تو ہوتے نہیں تھےاور جانور بے چارے بغیر علم کے منہ اٹھائے بھارت پاکستان نیپال بھوٹان کے ہمالیائی سلسلوں اور معلوم نہیں کہاں کہاں گھومتے رہتے تھے۔ ان کے اس بے طرح گھومنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فوت بھی \"hus01\"وہیں پر ہوئے اور جب موجودہ دور میں ان کے فوسل ان علاقوں سے دریافت ہونا شروع ہوئے تو ماہرین ان تمام ملکوں کے ایک مخصوص علاقے کو Siwalick Belt (سوالک بیلٹ) کا نام دینے پر مجبور ہو گئے۔ پاکستان سے پوٹھوہار کا علاقہ اس پٹی میں شامل ہوا اور اس میں پھر شامل ہو گئے وہ سرخ پہاڑ جن کے بارے میں ہم بات کر رہے تھے۔ تو یہ جو پاکستانی سوالک ہے اس میں سے اس قدر زیادہ فوسلز نکلے ہیں جتنا آپ سوچ سکیں۔ ان میں سے کئی فوسلز پنجاب یونیورسٹی میں موجود ہیں۔ ابوبکر فوسل ڈسپلے اینڈ ریسرچ سینٹر وہاں کے شعبہ جیالوجی کا حصہ ہے اور اگر آپ میں ذرا سا بھی ارتقائی کیڑا ہے تو وہ آپ کے لیے جنت ہے۔

وہ گھوڑے، ہرن، ہاتھی، زرافے، گینڈے، بھینسے، دریائی گھوڑے، مگرمچھ اور سور وغیرہ جو اس علاقے میں سبزے کی بہار کے ہاتھوں گھائل ہو گئے اور چرتے رہنے کو یہیں رہ پڑے، اور جو یہاں کے نہیں تھے، اور بعد میں یہاں آ گئے کیوں کہ اس زمانے میں براعظموں کی پلیٹیں جڑی ہوئی تھیں اور سمندر وہاں نہیں تھے جہاں اب ہیں، تو ان سب کے دس بیس لاکھ سال پرانے دانت، کھوپڑیاں، جبڑے، سینگ، ہڈیاں اور نہ جانے کیا کیا کچھ آپ ادھر دیکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اکبر صاحب اس فوسل مرکز کے ہیڈ ہیں اور ایک ایک فوسل ان کا جانا پہچانا ہے۔ منظور احمد نامی ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم بھی وہاں ملے، جس بہترین طریقے سے انہوں نے فقیر کے سوالات کی پیاس بجھائی اس سے\"image2\"بہتر تفصیل شاید کوئی نہ بتا پاتا، استادوں اور شاگردوں کے علم کا قائل اور گھائل ہو کر وہاں سے واپسی ہوئی۔ وہ گینڈے کا سینگ جس سے یہ تحریر شروع ہوئی وہ ڈاکٹر عبدالماجد خان کی مہربانی سے دیکھنے اور چھونے کو ملا۔ ڈاکٹر ماجد اس سینگ کے ساتھ کتنے خوش ہیں اور برحق خوش ہیں وہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک غیر ملکی سیمینار کے دوران سب سے آخر میں اس فوسل کی تصاویر رکھی گئیں (یعنی اہمیت دی گئی) اور ان پر بقول ڈاکٹر عبدالماجد کافی دیر بات ہوتی رہی، اور یہ سب ہمارے ملک کے لیے قابل فخر تھا۔ ڈاکٹر اختر صاحب جو اس سارے عجائب خانے کے سربراہ ہیں، ان سے ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ یار زندہ صحبت باقی، اگلی بار سہی۔

اتنی بڑی کہانی لکھ دی، کہنے کو اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔ یہ جو انگریزی الفاظ ساتھ میں دئیے ہیں یہ صرف اس لیے ہیں کہ جو اہل علم تحقیق کرنا چاہیں وہ ان الفاظ کو گوگل کر لیں اور حیرت کے اس سمندر میں دو تین غوطے لگا آئیں۔ جو دلچسپی نہیں رکھتے وہ بھی اگر یہ سوچیں کہ انٹرنیٹ کی صورت ہمیں علم کا جو خزانہ میسر ہے، کیا حرج ہو کہ ہفتے کے ہفتے اس کی زکوة نکالنے کے واسطے ایک آدھا موضوع کچھ کائناتی یا ارتقائی قسم کا دیکھ لیا جائے۔ غفار صاحب کی شکایت برحق تھی کہ یار ہم تو آج تک لوگوں کو یہ نہیں سمجھا پاتے کہ ہم کرتے کیا ہیں، نہ کسی کو کچھ معلوم ہوتا ہے اور نہ وہ معلوم کرنا چاہتا ہے۔ طالب علم بھی اکثر جیسے آتے ہیں ویسے ہی پاس واس ہو کر \"hus05\"کورے کے کورے نکل جاتے ہیں، اس مضمون میں دل سے کام کرنے والے کم ہی پائے جاتے ہیں۔ کائنات پر کبھی کبھی کے غوروفکر کا ایک اچھا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ انسان کو اس کی حیثیت اور حدود کا اندازہ ہو جائے۔ یوں کہہ لیجیے کہ دنیا کی یہ اربوں سالہ زندگی اگر ایک دن کے برابر ہے تو ہم اس کے آخری منٹ کی آخری ساعتوں کی پیداوار ہیں، اور کیا پیداوار ہیں کہ اپنے علاوہ ہمیں کوئی برحق نظر نہیں آتا، جدھر دیکھتا ہوں ادھر میں ہی میں ہوں۔ تو یہ سب اس وقت ہو گا اگر ہم کچھ سوچنے کی عادت ڈال سکیں گے ورنہ وہ میر صاحب نے کیا خوب کہا تھا، مکہ گیا مدینہ گیا کربلا گیا، جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments