الحمد اللہ ۔ صرف چورانوے بچے اغوا ہوئے


\"ammar صوبہ پنجاب میں گذشتہ سات ماہ میں چھ سو اکاسی بچے لاپتہ ہوئے ہوئے ان میں سے پانچ سو ستاسی بچوں کو بازیاب کر لیا گیا جب کہ چورانوے بچے اب تک لاپتہ ہیں۔ یہ ہوائی کس دشمن نے نہیں اڑائی، نہ ہی یہ اطلاع کسی غیر ملک سے آئی ہے، نہ اس کا الزام اپوزیشن کی کسی جماعت نے لگایا ہے، نہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی چال ہے، یہ خوشخبری حکومت پنجاب نے ایک قیمتی اشتہار کے ذریعے عوام تک پہنچائی ہے۔ اس اشتہار میں واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ بچوں کو تحفظ سب کی ذمہ داری سب کا فرض ۔ جس سے معنی یہی نکلتا ہے کہ حکومت اب اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتی ہے۔ اپنے بچوں کو خود اغوا کاروںسے بچائیں ۔ ہم کو نہ اس معاملے میں الجھائیں۔ اشتہار میں ایک ماں کی بچے کے ساتھ تصویر بھی ہے جس سے یہ معنی نکالنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ مائیں اگر بچوں کو پیار کریں تو انہیں اغوا کاروں سے بچا سکتی ہیں۔ یہ سب تو چلو پنجاب حکومت کے میڈیا سیل سے متوقع ہی تھا لیکن جس چیز نے سب سے دکھ دیا وہ اس اشتہار کے دائیں جانب وزیر اعلی کی فاتحانہ مسکراہٹ والی تصویر تھی۔ تصویر کے تاثرات تو یہ بتاتے تھے جیسے پنجاب میں چورانوے بچوں نے پی ایچ ڈی کر لی ہے یا پھر ان چورانوے بچوں نے پنجاب حکومت کے تعاون سے کوئی بڑا کارنامہ کر لیا ہے ، شائد ، اولمپکس میں ان چورانوے بچوں نے گولڈ میڈل جیت لیئے ہیں، یا مقابلے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا ہے، یا پھر دنیا فتح کر لی۔

وزیر اعلی کی تصویر میں جو فاتحانہ مسکراہٹ ہے اس تو لگتا ہے ، کشمیر فتح ہو گیا ہے، آئی ایم ایف کا قرضہ اتر گیا ہے، پنجاب میں لوڈ شیدنگ ختم ہو گئی ہے، بھوک مٹ گئی ہے، امن ہو گیا، پولیس قاعدے اور قانون میں آ گئی ہے، ترقی کا ثمر عام آدمی تک پہنچ گیا ہے، زندگیاں روشن ہو گئی ہیں، امن کا دور دورہ ہو گیا ہے۔ چورانوے بچوں کے لاپتہ ہونے کا تاسف، شرمندگی، خوف اور حجاب اس تصویر میں ذرا بھی کھائی نہیں دیتا ۔بس ایک مسکراہٹ سے اہل پاکستان کو یہ اطلاع دی جاتی ہے۔ وزیر اعلی کا یہ لازوال کارنامہ سنایا جاتا ہے۔ فتح کا اعلان کیا جاتا ہے۔ایسی فاتحانہ مسکراہٹ تو نیلسن منڈیلا کے چہرے پر اس وقت ہو گی جب انہوں نے افریقہ کو آ زاد کروایا ہو گا، ایسی مسکراہٹ بھٹوکے چہرے پر اس وقت ہو گی جب پاکستان نے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا ہو گا۔ایسی مسکراہٹ تو یاسر عرفات کے چہرے پر اس وقت ہو گی جب انہوں نے فلسطین کی ریاست کا اعلان کیا ہوگا۔ دنیا کا کوئی سربراہ چوارنوے بچوں کے اغوا کی خبر کے ساتھ ایسی مسکراہٹ کا حقدار نہیں ہوا یہ سعادت صرف وزیر اعلی پنجاب کو نصیب ہوئی ہے۔ یہ انہی کا حصہ ہے ، انہی کا خاصہ ہے جو انہوں نے سارے پاکستان میں ایک اشتہار کی صورت میں بانٹ دیا ہے۔

جب یہ اشتہار چھپا تو چند دن پہلے وزیر اعلی چین میں برق رفتا ر وزیر اعلی کا خطاب لے چکے تھے۔ اپنی کارکردگی کی داد بیرون ملک سمیٹ چکے تھے۔ چین کے لوگ اردو سے نابلد ہیں۔ خدا نخواستہ ملک چین میں کوئی وزیر اعلی سے دریافت کر بیٹھتا کہ حضور یہ اشتہار آپ کے کس کارنامے کی نشاندہی کرتا ہے تو ہمارے وزیر اعلی کس منہ سے جواب دیتے کہ یہ چورانوے بچوں کے اغوا کی روح فرسا خبر ہے۔ یہ چورانوے خاندانوں کی تباہی کی اطلاع ہے۔ یہ چورانوے ماوں کے آنسوں کی کہانی ہے، یہ چورانوے محلوں میں خوف کی داستان ہے۔ یہ ایک انسانی المیئے کی نشاندہی ہے۔ یہ جو میں ایک فاتحانہ مسکراہٹ سے مسکرا رہا ہوں یہ دراصل پورے پنجاب پولیس کی ناکامی کی خبر اپنے میڈیا سیل کے تعاون سے پورے ملک کو سنا رہا ہوں۔ بچھڑے بچوں کی ماوں کے ماتم کا جشن منا رہا ہوں۔

طرفہ تماشا یہ کہ حکومت کے وزیر بھی اس مہم میں پنجاب حکومت کے دفاع پر اتر آئے ۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمیں باور کروایا جا رہا ہو کہ یہ بچوں کا قصور ہے کہ وہ اغوا ہو گئے ہیں۔ یہ ماوں کا قصور ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو گلیوں میں آزاد سانس لینے کے لئے بھیج دیا ہے۔ جیسے یہ میڈیا کا قصور ہے جو بات کا بتنگڑ بنا رہا ہو۔ جیسے یہ اپوزیشن کی چال ہے ، جیسے یہ کسی دشمن کا کمال ہے۔ جیسے کسی اور ملک کے کسی اور صوبے کی مثال ہے۔

جس ماں کا بچہ اغوا ہوا ہے ایک دفعہ اس سے پوچھیں کہ اس پر کیا گزرتی ہے۔کیسے وہ لمحہ لمحہ جیتی ہے ، کیسے وہ لمحہ لمحہ مرتی ہے۔ کیسے ہر آہٹ پر دروازے کی جانب لپکتی ہے، کیسے راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتی ہے۔ کیسے گھر کی دہلیز پر جم جاتی ہے، کیسے دوپٹے کے کونے سے آنسو چھپاتی ہے۔کیسی روٹی اس کے حلق سے اترتی ہے۔کیسے وہ ماتم کرتی ہے۔ اسکا وقت کیسے کٹتا ہے ، اس کا سینہ کیسے پھٹتا ہے۔ اس کی آہیں عرش پر کیسے جاتی ہیں۔ اس دعائیں کیسے بے ثمر ہو، ہو جاتی ہیں۔

بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس خبر کو اہمیت نہ دیں، ایسا تو ہوتا رہتا ہے، یہ کون سے بڑی بات ہے۔ دنیا میں اور بہت سے بکھیڑے ہیں۔ کرنے کو بہت سے کام ہیں ۔ ہماری توجہ بٹائی جا رہی ہے۔ اس خبر کو ہوا دے کر ہماری ٹانگیںکھینچی جا رہی ہیں۔ہمیں ترقی سے روکا جا رہاہے۔ ہمارے کاموں میںچورانوے بچے حائل نہیں ہو سکتے۔ سڑکوں ، پلوں کے افتتاح سے یہ بچے ہمیں نہیں روک سکتے ۔ ہمارے مقاصد عظیم ہیں۔ ہمارا منصب اعلی ہے۔ہمیں ان کاموں کی فرصت کہاں۔ ابھی تو بہت سی تقریبات میں فیتے کاٹنے ہیں۔ابھی تو بہت سے جلسوں میں حبیب جالب کی روح کا خاک میں ملانا ہے۔ ابھی تو بہت سے اجلاسوں میں تالیاں بجنی ہیں۔ ابھی تو ہمارے حق میںنعرے لگنے ہیں۔ ابھی تو دنیا کے سب سے اعلی وزیر اعلی کا خطاب ملنا ہے۔ابھی تو اگلے انتخابات میں ہمارے کارناموں کا حساب ملنا ہے۔

میری وزیر اعلی سے صرف یہ استدعا ہے کہ یہ مرحلہ غم کا ہے، گہرے الم کا ہے۔ اس سانحے کو سیاسی تماشہ نہ بنائیں۔ بچھڑے بچوں کی ماوں کا مذاق نہ اڑائیں۔چورانوے بچوں کے اغوا کی خبر والے اشتہار پر اپنی مسکراتی تصویر نہ لگائیں۔ ہمیں اور نہ رولائیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments