ریو اولمپکس اور پاکستان، ایک شرمناک داستان!


\"ajmal1\"آپ نے بحر الکاہل میں سات سو چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ملک بہامس کا نام سن رکھا ہوگا، اگر نہیں سنا تو اچنبھے کی بات نہیں، کیونکہ ایسے کئی چھوٹے چھوٹے ملک سیاحتی حوالے کے علاوہ نسبتاََ غیر معروف ہیں۔ اس ملک کی آبادی تقریباََ ساڑھے تین لاکھ ہے، اور زمینی رقبہ یہی کوئی پانچ ہزار مربع میل۔ لیکن نہ جانے کیسے ایک چھوٹا سا ملک ریو اولمپکس میں بتیس ایتھلیٹس بھیجنے میں کامیاب ہوا۔ چوبیس کھلاڑیوں نے تو باقاعدہ اولمپکس مقابلوں کے لئے کوالیفائی کیا، یہی نہیں بلکہ بہامس کا میڈیا پر امید ہے کہ ان کے ایتھلیٹس کم از کم چار میڈلز تو ضرور جیت کر آئیں گے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہزاروں میل دور بحر اوقیانوس میں واقع فجی کی آبادی لگ بھگ نو لاکھ ہے، لیکن یہاں بھی اکاون ایسے جوان تھے جو اولمپک مقابلوں میں فجی کا جھنڈا اٹھانے کے لئے مکمل طور پر اہل اور فٹ قرار پائے۔ پانامہ کے نام سے پاکستان میں اب کون واقف نہیں، یہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے وسط میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے جو آف شور کمپنیوں کے حوالے سے جنت تصور کیا جاتا ہے۔ آبادی یہی کوئی چالیس لاکھ کے قریب لیکن یہاں سے بھی دس جوان ایسے ہیں جو ریو اولمپکس میں فائٹ کرتے دکھائیں دیں گے۔ 2014 میں ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے افریقی ملک یوگنڈا کے پبلک سیکٹر کو دنیا کا بد ترین کرپٹ سیکٹر قرار دیا تھا، یعنی آپ یوں سمجھیں کہ پاکستان کرپشن کے اعتبار سے یوگنڈا سے بہت پیچھے ہے، اس قدر کرپشن کے باوجود یوگنڈا میں اکیس ایسے ایتھلیٹ ضرور تھے جو بنا کسی فاول پلے اور کرپشن کے ریو اولمپکس میں شریک ہونے کے حقدار ٹھہرے۔ برمودا کا نام تو برمودا ٹرائی اینگل کی وجہ سے یقینا آپ نے سن رکھا ہو گا، یہ برطانوی جھنڈے تلے بسنے والا ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی تقریباََ پچھتر ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور رقبہ یہی کوئی بیس مربع میل، لیکن ان پچھتر ہزار افراد میں سے بھی آٹھ جوان ایسے تھے جو ریو اولمپکس میں ملک کا جھنڈا اٹھانے کو تیار ہیں۔

لیکن غضب خدا کا کہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت بلکہ عالم اسلام کا قلعہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بیس کروڑ آبادی سے ہمیں صرف سات جوان ملے جو ریو اولمپکس میں سبز ہلالی پرچم کی نمائندگی کریں گے، یہ جوان بھی وائلڈ کارڈ انٹری اور براعظمی کوٹے پر منتخب ہوئے ہیں۔ برازیل کے شہر ریو ڈی جینرو میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں دو سو پانچ ممالک کے گیارہ ہزار سے زائد ایتھلیٹ بیالیس ایونٹس میں حصہ لیں گے اور پاکستان میں کھیلوں کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب گرین شرٹس کا سب سے مختصر دستہ اولمپکس میں شریک ہو گا۔ سات رکنی دستہ چار مقابلوں میں حصہ لے گا۔ ایتھلیٹکس میں محبوب علی اور نجمہ پروین، شوٹنگ میں غلام مصطفی اور مناہل سہیل، سوئمنگ میں لیانا سوان اور حارث بانڈے جبکہ جوڈو میں شاہ حسین میدان میں اتریں گے۔ لیانا سوان، حارث بانڈے اور شاہ حسین  کی ٹریننگ لاہور یا کراچی میں نہیں بلکہ یہ پہلے ہی سے بیرون ملک مقیم ہیں۔

\"rio2\"ہاکی ٹیم ہمیشہ اولمپکس میں پاکستان کی پرچم بردار سمجھی جاتی رہی ہے۔ لیکن اس بار گرین اسٹکس بھی اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکیں۔ تین بار اولمپک چیمپئن ہاکی ٹیم اس سے پہلے ورلڈ کپ کے لیے بھی کوالیفائی نہ کر سکی۔

1960 میں روم اولمپکس میں پاکستان نے پہلی اور آخری بار دو میڈل ایک ساتھ جیتے تھے۔ نصیر بندہ کے بھارت کے خلاف فائنل میں تاریخی گول پر اوّلین ہاکی طلائی تمغے کے علاوہ ریسلر محمد بشیر نے بھی کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ اسی زمانے میں فلائنگ بڑڈ کے نام سے شہرت پانے والے پاکستانی ایتھلیٹ عبدالخالق نا صرف ایشیا کے تیز ترین انسان بنے بلکہ وہ اولمپک سو میٹر میڈل کے بھی قریب پہنچ گئے تھے۔ عبدالخالق کو فلائنگ بڑڈ آف ایشیا کا خطاب بھارتی آنجہانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے دیا تھا۔ لیکن اب یہ سب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ رواں سال کوئی باکسر اور ریسلر اولمپکس میں جگہ نہیں بنا سکا۔ 1994 ملکی تاریخ کا وہ واحد سال تھا جب پاکستان بیک وقت چار کھیلوں کرکٹ، ہاکی، سکواش اور سنوکر میں ورلڈ چیمپئن تھا، لیکن اب یہ سب خواب معلوم ہوتا ہے۔ اڑسٹھ برسوں میں پاکستان اولمپک مقابلوں میں دس میڈل ہی جیت پایا ہے، اس میں بھی آٹھ فیلڈ ہاکی جب کہ دو دیگر کھیلوں میں گرین شرٹس کے نام رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کھلاڑی تو صرف سات ہیں لیکن پاکستانی دستہ سترہ رکنی ہے، اضافی دس افراد میں دو عہدیدار تو اولمپک ایسوسی ایشن سے ہیں جو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی دعوت پر برازیل جائیں گے لیکن باقی آٹھ افراد کس کھاتے میں برازیل پہنچیں گے اس کا جواب معلوم نہیں۔

قومی کھیل ہاکی سمیت دیگر تمام کھیل زوال پذیر ہیں، ملک میں کھیل کے میدانوں میں ویرانی سپورٹس بورڈ کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے، کھیلوں کی فیڈریشن سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کھیلوں کا بجٹ بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی کم ہے لہٰذا ایسے میں اولمپکس میڈل کی توقع نہ رکھی جائے۔ متوازی فیڈریشنز اور سیاسی طور پر من پسند افراد کے ہاتھوں یرغمال سپورٹس بورڈ سے ایسے ہی جواب سننے کو مل سکتے ہیں۔ کیونکہ ان نام نہاد ڈائریکٹرز کی اولین ترجیح بیرون ملک ہونے والے ایونٹس میں اہل خانہ سمیت سیر سپاٹے کرنا ہی ہوتی ہے، بھاڑ میں گئے ایتھلیٹس اور ان کی کارکردگی۔ سال میں ایک آدھی چیمپئن شپ کروائی، من پسند افراد کو نواز کر خبریں شائع کروانا ان بے شرم منتظمین کی واحد صلاحیت ہے جو انہیں بدستور ایسے عہدوں پر فائز رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

حکومتوں کے ہاں کھیل کس قدر اہم ہیں یہ تو ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کیونکہ وفاقی بجٹ 2016 میں کھیل سرکار کی ترجیحات میں شمار نہ ہوئے، محض تریسٹھ کروڑ روپے کی ریوڑی سپورٹس بورڈز کے عہدیدران کا من بہلانے کی خاطر اچھال دی گئی، اب جس پھنےخان کی جتنی ہمت ہو گی وہ اتنے روپے لے اڑے گا۔ لیکن اس کے باوجود بے تکی تاویلیں گھڑنے والے ان سپورٹس عہدیداروں کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے کیونکہ فجی جیسے ملک نے اکاون ایتھلیٹ محض سنتالیس کروڑ روپے کے سالانہ بجٹ سے تیار کئے ہیں۔

سر پیٹنے کے علاوہ فرصت ملے تو غور اس بات پر کیا جانا چاہیے کہ پندرہ برسوں سے ایک ریٹائرڈ جنرل نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے لئے کیا کارہائے نمایاں سر انجام دئیے؟ مزید یہ کہ بارہ سال پہلے ملک میں ایک سپورٹس پالیسی بنی تھی، اس کا کیا ہوا؟ کیونکہ اولمپک چارٹر کے مطابق اس پالیسی کا اطلاق تا حال نہیں ہوسکا۔

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments