اقتدار پانے کا جنون کیوں ہے؟


\"zeeshan

سوشل سائنس کے وہ طالب علم جو پولیٹیکل سائنس کو ایک سنجیدہ ، پیچیدہ اور مفید سائنس سمجھتے ہیں اکثر ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر سیاستدانوں میں سیاسی اقتدار و اختیارات کی بھوک کیوں ہوتی ہے؟ اس سوال کو ایک دوسرے زاویے سے سمجھتے ہیں اور سوال کو قدرے پھیلاتے ہیں. سوالات یہ ہیں کہ

__ آخر کیا وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ باوجود ارب پتی بننے اور امریکی معاشرے میں مقبول ہونے کے، سیاسی اقتدار کے لئے اتنا دیوانہ کیوں ہوا جا رہا ہے حالا نکہ سیاسی عمل میں آنے سے پہلے جب وہ ٹی وی شوز کرتا تھا تو وہ اتنا بد تہذیب تو نہ تھا؟

__ گولن تحریک کے امام باوجود اس کے کہ سوسائٹی میں حکومت سے بھی طاقتور تھے (کہا جاتا ہے کہ ترکی میں ہر دسواں شہری گولن تحریک سے وابستہ ہے) پھر انہیں کیا سوجھی کہ مبینہ طور پر فوجی انقلاب کی کوشش سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی ؟

__ اردوان بارہ سال سے زائد عرصے سے اقتدار پر موجود ہے مگر دن بدن کیوں آمریت پسند بن رہا ہے اور عثمانی سلاطین کی طرز کے اختیارات اور شان و شوکت کیوں چاہتا ہے ؟

__ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بطور ادارہ جنرل ایوب، یحیی، ضیا اور مشرف کے دور میں بالخصوص مارشل لا اور سیاسی مداخلت کی کوششوں سے بے توقیر ہوا ہے، اس کے طالع آزما ڈکٹیٹروں کے ایڈونچر ازم نے اس قوم کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اس سے کون بے خبر ہے ؟ اسٹیبلشمنٹ کو خود سے بھی معلوم ہے کہ نان پروفیشنل سرگرمیوں کے باعث اس کی کارکردگی میں کمی آئی ہے مگر اس کے باوجود اب بھی لوگ مارشل لا کو آوازیں دیتے پائے جاتے ہیں۔

__ عمران خان صاحب اگر اپنا تجزیہ کریں تو وہ جان لیں گے کہ سیاست میں آنے سے پہلے پاکستان سماج میں ان کا کتنا احترام تھا اور سیاست میں آنے کے بعد وہ کتنے متنازعہ ہوئے ہیں. مگر اس کے باوجود وہ اقتدار پسندی کے غیر پسندیدہ راستوں کے کیوں راہی بنے ہوۓ ہیں- اس ملک نے قائداعظم کے بعد جس شخصیت کو سب سے زیادہ عزت و احترام دیا وہ عبدالستار ایدھی ہیں. سوشل ورک کیا اور اقتدار پر موجود شخصیتوں سے ہزار گنا زیادہ عزت شہرت اور اچھائیاں کمائیں- آخر ہمارے معروف مخلص قائدین کا رجحان اس طرف کیوں نہیں جاتا؟

نواز شریف صاحب اقتدار میں کیوں رہنا چاہتے ہیں- طاہر القادری کینڈا سے کیوں بار بار اس ملک پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ آصف علی زرداری اپنے بیٹے کو اقتدار پر کیوں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ مریم نواز کی کن مقاصد کے حصول کے لئے سیاسی تربیت ہو رہی ہے ؟ یہ اقتدار کا کھیل جسے ہم game of throne بھی کہہ سکتے ہیں آخر اتنا پر کشش کیوں ہے؟ آخر سیاست پوری دنیا میں تقسیم کی دھڑے بندی کو کیوں پسند کرتی ہے ؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ دور جدید کی حکومتیں اپنے سائز، اختیار، اقتدار اور اثرور سوخ میں جتنی زیادہ بڑی ہوتی جا رہی ہیں، اتنا ہی اقتدار پسندوں کے لئے پر کشش ہوتی جا رہی ہیں- ملک کا وزیراعظم یا صدر ہونا اس ملک کا سب سے زیادہ طاقتور شخص ہونا ہے- جتنا زیادہ حکومت اپنے سائز و اختیار میں بڑھتی جائے گی اور اقتدار جتنا زیادہ مرکز کی گرفت میں آتا جائے گا اتنے زیادہ سیاسی بحران آئیں گے اور آمریت پسندی کا رجحان بڑھے گا ۔ جانتے ہیں کہ سپنسر مغربی تہذیب کے زوال کی بڑی وجہ کیا سمجھتا ہے؟ اس کے خیال میں جب ریاست طاقتور ہو جائے گی، فرد اور سوسائٹی کمزور تو اس وقت مغرب اپنی روشن خیال اقدار سےمحروم ہو کر آمریت پسند بن جائے گا- اس کی سب اقدار قانون و جبر پسندی کی اسیر ہو جائیں گی – تہذیب و تمدن آزاد فرد و سوسائٹی سے جنم پاتے ہیں اور سیاست و اقتدار پسندی تہذیب و تمدن کو تباہ کر دیتے ہیں. (مجھے معلوم ہے کہ دور جدید میں یہ بات سمجھنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے) ۔

آج امریکہ میں کیا ہو رہا ہے ؟ ٹرمپ کہتا ہے میں سوسائٹی ، معیشت اور سیاست کو یوں کر دوں گا ، ہیلری کہتی ہے نہیں میں یوں کر دوں گی ۔ جب سیاسی آمریت فرد و سماج کے تمام شعبوں پر حاوی ہو جائے تو نہ شخصی آزادیاں بچتی ہیں ، نہ مساوات قائم ہوتی ہے اور نہ ہی انصاف کا بول بالا ہوتا ہے ۔ سیاست میں جمہوریت اقتدار کا پرامن انتقال اور ایک ایڈمنسٹریٹو جاب ہے جو شہریت کے حضور جوابدہی کے اصول پر قائم ہے ، اس سے فرد، سوسائٹی اور معیشت و ثقافت پر آمریت نافذ کرنا تہذیب و تمدن کے لئے یقینا تباہی ہے ۔جس طرح فوج سیاست میں آ کر اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں میں کمزور ہو جاتی ہے اسی طرح سیاست جب فرد کی نجی زندگی ، ثقافت ، اور معیشت میں مداخلت کرتی ہے تو اس کی بنیادی ذمہ داریاں پس پشت چلی جاتی ہیں – مغربی تہذیب کے مفکرین اسی لئے ریاست کی آمریت کے سامنے سینہ سپر رہے ۔ بقول ول ڈیورانٹ ؛ وہ ثقافت میں روایت پسند ، معیشت میں جدت پسند ، اور سیاست میں ریاست پر ہر وقت شک کرنے والے تھے ۔

جب طاقت و اختیار کو ایک ہی جگہ مرتکز کر دیا جائے گا تو ملک کے ہر مہم جو کی خواہش ہو گی کہ کیوں ناں میں اسے حاصل کر لوں ۔ یوں اقتدار کے لئے ہر طریقہ اختیار کیا جائے گا جس میں سب بڑا مقبولیت پسند بیانیہ ہی یہی ہے کہ اے لوگو مجھے منتخب کرو میں تمہاری ہر ضرورت و خواہش کا ذمہ لیتا ہوں ، اس ملک کو دشمنوں سے خطرہ ہے میری قیادت ان دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا دے گی – اور یہ کہ ملک کی دولت لٹیروں سے چھین کر تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا – کوئی نہیں پوچھتا کہ حضور آپ اتنی تکلیف کیوں فرمانے لگے ؟ اگر سماجی بہبود کے ہی کام کرنے ہیں تو باقی میدانوں میں آپ سامنے کیوں نہیں آتے ؟ قصہ مختصر جب اقتدار حاصل ہو جاتا ہے ، عوام کو جو خواب دکھائے ہوتے ہیں پورے نہیں ہوتے تو کسی غائب دشمن کا افسانہ کھڑا کر کے مزید اقتدار و اختیار حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے – پھر بھی ناکامی ہوتی ہے تو ہزاروں عذر تلاش لئے جاتے ہیں – یوں جھوٹ پر جھوٹ اور دھوکے پر دھوکہ سیاست کے شعبے کو ہی بے توقیر کر دیتا ہے اور پھر اچھے لوگ اس سے دور بھاگتے اور مہم جو و نفسیاتی بازی گروں کے رجحان میں مزید اضافہ ہوتا ہے

اور تو اور کبھی ہم نے سوچا کہ شدت پسند طالبان ازم کے حامی آخر ریاست پر قبضہ کرنا کیوں چاہتے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ طاقت کا اصل مرکز یہی ہے جس سے پورے سماج پر تسلط آسان ہو جائے گا ۔ جب تک ریاست جبر و تسلط کے معنی میں سوچی اور سمجھی جائے گی اس وقت تک اس پر شب خون مارنے والے موجود رہیں گے ۔

جمہوریت کا اصل امتحان ہی یہی ہے کہ اسے مہم جو لیڈروں سے بچایا جائے اور نرم گفتار و انکسار پسند سیاست دانوں ، توازن پسند سیاسی نظام ، متحرک و مظبوط سول سوسائٹی ، اور شہریت کی مرکزیت پر قائم ریاستی بندوبست کی اساس پر رکھا جائے ۔ آج پوری دنیا کی جمہوریتیں اس امتحان سے گزر رہی ہیں –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments