سدرہ، گناہ کا استعارہ اور خدا


\"naseer گذشتہ چند برس میں کئی شاعرات اور شاعر فیس بک کے راستے سے ادب اور شاعری میں آئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا ایک خاص مقصد یا ہدف ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ فیس بک پر اپنی اور اپنے الٹے سیدھے کلام کی تشہیر کرنا، کسی سینئر سے ان باکس میں اصلاح لینا اور پھر ادب کی مین اسٹریم میں کانفرنسوں، مشاعروں اور میڈیا کے ذریعے اپنی جگہ بنانا اور اپنے تئیں شعر و ادب کے افق پر چھا جانا۔ ان کی ادب سے کوئی خاص کمٹمنٹ نہیں ہوتی اور ادبی تقریبات میں نام و مقام بنانا ہی ان کی منزل ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ ادب میں تو کہیں نظر نہیں آتے لیکن ادبی تقریبات، مشاعروں اور کانفرنسوں میں ہر جگہ نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ فیس بک پر اور اخبارات کے ادبی صفحوں میں ان کی تصاویر اور سرگرمیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جلد ہی ادبی سماجیات کے ماہر، موقع پرست اور ابن الغرض ہو جاتے ہیں۔ جن سے کبھی اصلاح لی ہو یا جن سے تعلقات کو سیڑھی بنا کر اوپر آئے ہوں ان سے لاتعلق یہاں تک کہ ان کے خلاف ہو جانا یا ان کے مقابل آ جانا بھی برا نہیں سمجھتے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو فیس بک پر باقاعدہ شاعروں کو دیکھ دیکھ کر اور شاعری کو شہرت کا ایک آسان راستہ و ذریعہ سمجھ کر شاعری شروع کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں جنہیں آسانی سے اِن باکس رہنمائی اور اصلاح کی سہولت مل جاتی ہے۔ لیکن اس زمرہ میں آنے والے شوقیہ شاعروں میں تخلیقی اپج نہیں ہوتی اس لیے جلد ہی تھک جاتے ہیں۔ شاعری سے تائب ہو جاتے ہیں یا تھوڑا بہت غلط یا صحیح لکھتے رہتے ہیں۔ ان کا شعر و ادب میں کوئی خاص منتہا اور نقطہ نظر نہیں ہوتا۔ ان میں سے کچھ تو اصلاح یا سدھار بھی ضروری نہیں سمجھتے اور اپنے تئیں درست مگر بے وزن اور غیر معیاری شاعری دھڑلے سے لکھتے اور پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ یہ بڑی حد تک معصوم اور بے ضرر ہوتے ہیں۔ مگر انہیں بھی فیس بک پر اچھے خاصے سراہنے اور چاہنے والے مل جاتے ہیں۔

تیسری قسم نئی نسل کے انٹرنیٹ سے جڑے ایسے شاعروں اور شاعرات کی ہے جن میں تخلیقی جوہر تو ہوتا ہے، تڑپ اور لگن بھی لیکن وہ \"00001\"لمبی ادبی ریاضت کی بجائے فیس بک کا شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں کچھ تیز رفتار ہوتے ہیں اور شہابِ ثاقب کی طرح فوراً ہی جل بجھ جاتے ہیں۔ کچھ شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچ کر زمین اور اہلِ زمین کی طرف دیکھنا بھول جاتے ہیں لیکن کچھ اپنی اصل سے پیوستہ اور مستقل مزاجی سے شعری سفر پہ گامزن رہتے ہیں اور ادب کے مرکزی دھارے میں اپنی مستقل اور مستحکم جگہ بنا لیتے ہیں۔ سدرہ سحر عمران کو باآسانی موخرالذکر تیسری قسم میں رکھا جا سکتا ہے جو چند سال پہلے فیس بک کے ذریعے متعارف ہوئی۔ لیکن سدرہ میں اپنی ہم عہد دیگر شاعرات کی نسبت کچھ اضافی خوبیاں ہیں۔ وہ سینئرز کا احترام اور اعتراف کرتی ہے، مسلسل متحرک اور فیس بک معاصرین سے ہمکلام رہتی ہے، اختلاف رائے کو قبول کرتی اور تنقید کو جذب کرتی ہے۔ شعری ارتقا، تغیر و تبدل کو سمجھتی ہے اور اپنی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار اور کوشاں رہتی ہے۔ اُس نے، بعض  دیگر خواتین کے برعکس، اپنی خوبصورت تصویروں کی نمائش نہیں کی۔ اکثر نے اس کی شکل تک نہیں دیکھی۔ تصویر نہ لگانے اور بار بار نام تبدیل کرنے پر عرصہ تک اسے فیک آئی ڈی بھی سمجھا جاتا رہا۔ لیکن فیک آئی ڈی اتنی اچھی اور وافر نظمیں کہاں سے لا سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جب سدرہ کی نثری نظموں کی کتاب \”ہم گناہ کا استعارہ ہیں\” ملی تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ اتنے مختصر عرصہ اور کم عمری میں سو سے زائد نظموں کی کتاب کسی دیباچے اور فلیپ کے بغیر لانا اُس کی  تخلیقی قوت اور اعتماد پر دال ہے۔ کتاب پہ آٹو گراف درج کرنے کا انداز من بسنے والا ہے۔

\”نصیر احمد ناصر
خدا پڑھ لیتا ہے
تمھاری وہ نظمیں
جو بندھی ہوئی ہیں تمھاری کلائی سے
اور تم کف الٹ کر بار بار انہیں دیکھتے ہو
وہ نظمیں جو تمھارے کاغذوں میں صور پھونکتی ہیں
اور دستک دیتی ہیں تمھاری انگلیوں پر
تو تم گہری نیند سے جاگ جاتے ہو
تمھاری نظمیں نیند میں چلنے لگتی ہیں\”

کتاب میں پوری نظم شامل ہے \”خدا اَن پڑھ نہیں ہے\” جو دراصل میری ایک نظم \”خدا نظموں کی کتاب ہے\” کے جواب میں لکھی گئی ہے، لیکن نظم کے عنوان یا فٹ نوٹ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔

سدرہ سحر کمال کی نثری نظمیں لکھتی ہے، جنہیں پڑھ کر اردو نثری نظم کا وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب سارہ شگفتہ کی نثری نطمیں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں اور یہ آگ کسی طرح قابو میں نہیں آ رہی تھی۔ اس نوع کا تخلیقی جوالا بالآخر تخلیق کار کو جلا کر ہی بجھتا ہے اور یہی سارہ شگفتہ کے ساتھ ہوا۔ یوں لگتا ہے جیسے سدرہ نے اس آگ کے پھول سے اپنے اندر ایک الاؤ جلا لیا ہے، ایک تخلیقی بھٹی قائم کر لی ہے لیکن جس کا ایندھن سارہ شگفتہ کی طرح خود شاعرہ کا جسم اور جاں نہیں بلکہ اس کے ارد گرد رینگتی، بھاگتی، چیختی، جیتی، مرتی زندگی ہے۔ زندگی کا تخلیقی بہروپ بھرنے کا ہنر سدرہ نے اوائل عمر ہی میں سیکھ لیا ہے اور ابتدا ہی میں آگ پر ننگے پاؤں چلنے کے اس کرب ناک تخلیقی مرحلے کوتیزی سے پھلانگتے ہوئے طے کر لیا ہے جس سے سارا شگفتہ پاؤں پاؤں چل کر تا دمِ مرگ گزرتی رہی۔ دیکھا جائے تو شاعرات کی موجودہ نسل زیادہ ذہین ہے۔ جو خود تار پر چلنے کے بجائے چیئر لفٹ میں بیٹھ کر منظر کو ایک سے دوسرے سرے تک پار کر لیتی ہے، خود بینی کی بجائے لیبارٹریوں سے حاصل کردہ کیمسٹری، الٹرا ساؤنڈ اور ایکس رے رپورٹس پر شعری تشخیص قائم کرتی ہے، خود کشی کا خطرہ مول لیے بغیر لاشوں کو پھانسی پر چڑھا ئے جانے کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر مرنے کا تجربہ حاصل کر لیتی ہے، ورجینیا وولف کی طرح اپنے اوور کوٹ کی جیبوں میں پتھر بھر کر دریا میں اترنے کے بجائے لائف جیکٹس پہن کر مکمل حفاطتی انتظام کے ساتھ اپنے ڈوبنے کا نظارہ کرتی ہے اور سلویا پلاتھ اور اینے سیکسٹن کی طرح گیس اوون میں سر دینے اور گیراج میں گیس کے والوز کھول کر مرنے کے بجائے زندہ رہ کر اپنے فیم اور فیمینزم کے لیے چولہے پھٹنے اور تیزاب پھینکے جانے کے واقعات پر مبنی اشتہاری ادب لکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ سدرہ بھی اگرچہ اسی نسل کی ہم وقت و ہم قلم ہے  لیکن اس کی نظموں میں ایک ظالمانہ قسم کی سچائی اور ناہمواریت ہے اور یہی خوبی اس کی نظم کو حقیقت کے قریب ترین لے آتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ اس میں خود آگاہی کا جوہر بھی شامل کر دیتی ہے۔ بظاہر سدرہ نے اپنے شعری مجموعے کا نام \’ہم گناہ کا استعارہ ہیں‘ رکھا ہے لیکن دراصل یہ اس گناہِ اول کی نفی اور پیرا ڈوکس ہے جس کا خمیازہ نسلِ انسانی زمین پر بھگت رہی ہے۔ سدرہ کی نظموں کی ایک صفت، جو اسے دیگر تازہ وارد شاعرات سے ممتاز کرتی ہے، یہ ہے کہ ان میں نسوانی نرگسیت نہیں بلکہ نسوانیت کے تاریخی، تہذیبی، عصری اور زمینی شعور کی جاذبِ نظر ادا ہے اور آسمان سے بھی ان کا قدیمی رشتہ قائم ہے۔  یہی وجہ ہے کہ وہ کار زارِ زیست میں نظموں کو ایک سرگرم، لڑتے مرتے وجود کے طور پر پیش کرتی ہے اور خدا بھی کسی نہ کسی بہانے اس کی ہر نظم میں در آتا ہے۔ سدرہ اگر اسی ان تھک لگن کے ساتھ شعری سفر میں آگے بڑھتی رہی تو آثار بتاتے ہیں کہ بہت جلد وہ نثری نظم کے قد آور شاعروں کی ہمسری کرے گی۔ لیکن اس کارِ نمایاں کے لیے اسے \”تیز قلمی\” کی عادت پر قابو پانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments