عمران خان کی سیاست ۔ ایک تجزیہ


\"mujahidجون کا شدید گرم دن تھا اور ہمارے شہر کے قریب بہنے والی نہر میں نہانے والوں کا رش تھا۔ نوجوان پانی سے شرابور باہر نکلتے اور کناروں سے چھلانگ لگا کردوبارہ نہر میں گھس جاتے ۔ اس مستقل آمد ورفت کی وجہ سے کنارے گیلے ہو چکے تھے ۔ ایک عمر رسیدہ شخص جسے تیرنا نہیں آتا تھا، کنارے پر بیٹھا اس سارے کھیل تماشے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اسی دوران ایک جلد باز نوجوان نہر سے باہر نکلا اورکنارے پر بیٹھے شخص سے جا ٹکرایا۔ اس عمر رسیدہ آدمی کا توازن بگڑا اور اسے محسوس ہوا کہ وہ دھیرے دھیرے نہر کی طرف پھسل رہا ہے۔ اس نے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارے مگر کوئی تدبیر کام نہ آئی۔ چنانچہ وہ پھسلتا بھی گیا اور بڑبڑاتا بھی گیا کہ \”گیوسے ، گیوسے ، گیوسے\” (میں تو گیا، میں توگیا، میں تو گیا) اور آخر کار غڑاپ سے نہر میں جا گرا ۔ چند نوجوان تیر کر اس کے پاس گئے اور اسے باہر نکال لائے۔

میں جب بھی عمران خان کی سیاست پر نگاہ ڈالتا ہوں مجھے اسی عمر رسیدہ آدمی کا خیال آتا ہے ۔ خان صاحب نے بھی سٹیٹس کو کے خلاف جنگ کا نعرہ لگا کر ایک اونچے اخلاقی مقام سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ اسی نظام کا حصہ بنتے گئے جس کے خلاف انہوں نے علم بغاوت بلند کیا تھا۔ ان کے مخلص ساتھی گیوسے گیوسے کا نعرہ لگا کر تھک گئے مگر ڈھلوان کی طرف جاری یہ سفر رک نہیں پایا۔ آئیے تجزیہ کریں کہ ان کی سیاست میں سمجھوتے کیونکر در آئے اور وہ کون سی بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان کی تاریخ میں محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو دو ایسے سیاست دان گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں سٹیٹس کو توڑا ہے۔ ان کی سیاست سے پہلے معاشرے کی جو شکل تھی وہ ان کے بعد باقی نہ رہی۔ اس بڑے کام میں انہیں عوام کی حمایت درکار تھی جو دیوانہ وار عطا کی گئی۔ ایک واقعہ ہم اکثر سنتے ہیں کہ قائد اعظم انگریزی میں تقریر کر رہے تھے اور ایک ان پڑھ بوڑھا پورے انہماک سے انہیں سن رہا تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ تمہیں سمجھ آ رہی ہے کہ جناح کیا کہہ رہے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ مجھے سمجھ تو نہیں آ رہی لیکن اس بات کا علم ہے کہ یہ شخص جو بھی کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عام سے انسان کو کس نے یقین دلایا تھا کہ قائد اعظم جو بھی کہتے ہیں وہ سچ کہتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہی عمران خان کی ناکامی کے اسباب پنہاں ہیں۔

جس طرح سٹیٹس کو برقرار رکھنے والے سیاستدان اقتدار میں آنے کے لئے ایسے افراد کا سہارا لیتے ہیں جن کا اپنا ووٹ بنک ہو، اسی طرح سٹیٹس کو توڑنے والے رہنما کو معاشرے کے دانشور طبقے کی حمایت درکار ہوتی ہے جو نہ صرف اس کا پیغام دل سے مانیں بلکہ اسے عوام کے دل و دماغ میں بھی راسخ کر دیں۔ لیڈر اور عوام کے درمیان یہ دانشور ایک ناگزیر پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت وسیع حلقہ ہے جس میں اوپر کی سطح پر ٹی وی اینکرز، پرنٹ میڈیا پر مضامین لکھنے والے صحافی، ادیب وغیرہ شامل ہیں۔ ایک اور سطح کالجز اور جامعات کے طلبا، اساتذہ، وکلا اور چھوٹے شہروں یا قصبوں کے صحافیوں کی ہے جن کی بات پر عام لوگ یقین کرتے ہیں۔ اسی طرح تھڑوں پر بیٹھ کر سیاسی مباحث کرنے والے، چوپالوں میں حقہ پیتے ہوئے کسان اور حجام کی دکان پر مباحث کرنے والے گاہک بھی اس وسیع پرت کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں۔ غرضیکہ ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جو معاشرے کی بنت میں سرایت کئے ہوتا ہے اور ہر لمحہ رائے عامہ پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ ایک بڑا لیڈر ہمیشہ اس نیٹ ورک کے بڑے حصے کو اپنے پیغام سے متاثر کرتا ہے اور ایک خود کار نظام کے تحت یہ طبقہ عوام میں لیڈر کو مقبول کرتا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو چونکہ کتب پڑھنے کے شائق تھے اس لئے انہوں نے نہ صرف سماجی نظام کی مختلف پرتوں کو جان لیا تھا بلکہ اپنے وسیع مطالعے کی بدولت وہ اس قابل بھی ہو گئے تھے کہ اپنے معاشرے میں موجود دانشور طبقے کو متاثر کر سکیں۔ اس کے برعکس عمران خان کتب سے کوسوں دور ہیں اس لئے وہ سماجی حرکیات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے۔ ان کی شخصی کشش اور دیانت داری نے نوجوانوں اور خواتین میں مقبولیت تو دلا دی مگر ان کے پاس کوئی ایسا پیغام نہیں جو دانشور طبقے کو متاثر کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس ناگزیر درمیانی پل کو بائی پاس کرنے کی کوشش کی جس کی قیمت انہیں سیاسی ناکامی کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ شائد وہ شیخ رشید کے اس سطحی فلسفے کا شکار ہو گئے کہ اب الیکشن ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر جیتے جائیں گے۔ شروع کے دنوں میں بہت سے ٹی وی اینکرز، صحافی اور دانشور خان صاحب کے حامی تھے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ نہ صرف ان کی حمایت برقرار رکھی جاتی بلکہ ان لوگوں کو بھی اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جاتی جو ابھی \”تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو\” کے مصداق کسی مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن عمران خان چونکہ اس طبقے کی اہمیت سے انکاری تھے ، اس لئے وہ اس ضمن میں کوئی خاص سرگرمی نہ دکھا سکے۔ ان کی سیاسی نا پختگی نے بہت سی غلطیاں کرائیں جن کی طرف ان کے ہمدر دانشور مسلسل اشارہ کرتے رہے مگر کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرے۔ آخر کار یہ لوگ مایوس ہوتے گئے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے تحریک انصاف پر تھوڑی سی بھی تنقید کی کوشش کی، سوشل میڈیا پر موجود پی ٹی آئی کے جذباتی نوجوان ان پر پل پڑے۔ ان پر فقرے کسے گئے، بکاؤ مال کا لیبل لگایا گیا، حتی کہ ننگی گالیاں دی گئیں۔ عمران خان نے بھی اس بدنما سلسلے کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بلکہ ان کا انداز یہی بتاتا تھا کہ وہ اس صورتحال سے کوئی زیادہ ناخوش نہیں ہیں۔ ان کے مداحین نے ہر اس شخص پر بکاؤ ہونے کی چھاپ لگا دی جس نے ان پر تنقید کی۔ کئی لوگوں نے سوشل میڈیا کو ہی خیر باد کہہ دیا کہ مزید گالیاں سننے کی ان میں سکت نہیں تھی۔ یہ بہت قیمتی لوگ تھے جن کی حمایت سے محرومی تحریک انصاف کی سیاسی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔ آج ان میں سے بہت سے افراد عمران خان سے شدید نفرت کرتے ہیں کیونکہ نہ صرف یہ کہ ان کے خواب ٹوٹے بلکہ ان کی انا کی کرچیاں بھی سر بازار بکھیری گئیں۔ اس ساری کشمکش نے خان صاحب کی ایک بہت بڑی شخصی خامی کو آشکار کیا اور وہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی نرگسیت ہے۔

نرگسیت ہمیشہ شخصیت کے کناروں کو کھردرا کر دیتی ہے۔ جب تک اسے علم کی سان پر چڑھا کر ہموار نہ کیا جائے، یہ کھردرا پن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ نرگسیت نے انہیں کبھی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنی غلطیوں کو دل سے تسلیم کرتے اور جو مخلص لوگ اس سفر کے دوران ان سے بچھڑ گئے ہیں انہیں واپس لانے کی کوئی سبیل کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایک ایک قدم ڈھلوان کی طرف پھسلتے گئے۔ دانشور طبقے سے محرومی کے بعد ان کے پاس صرف ان لوگوں کا سہارا باقی بچا تھا جو سٹیٹس کو کے بڑے بڑے ستون ہیں۔ یہی لوگ دھیرے دھیرے ان کی ٹیم کا لازمی حصہ بنتے گئے۔

 اگرچہ آج بھی عمران خان کی شخصی دیانت ایک کمیاب صفت ہے مگر صرف اسی ایک خصوصیت پر وہ لوگوں کے دل نہیں جیت سکتے۔ انہیں اپنی ٹیم میں ایسے افراد شامل کرنا پڑیں گے جن کی زندگی سیاست کے جوڑ توڑ کی بجائے کتابوں کی صحبت میں صرف ہوئی ہے۔ اگر اب بھی اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھائے گئے تو اگلے انتخابات میں ان کی جیت ممکن نہیں کیونکہ ان کے حریف سٹیٹس کو قائم رکھنے کے حوالے سے ان سے کہیں زیادہ تجربہ کار اور با صلاحیت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments