ملزم کون: لبرل ورلڈ آرڈر؟


\"saleemجب سے سیاسی فلسفے کا اظہار شروع ہوا ہے، دانشوروں اور فلسفیوں نے بین الاقوامی سیاست کے تاریخی واقعات پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور ایسے مفروضے پیش کیے جن سے ہر ایک نے اپنے انداز میں ملکوں کے پیچیدہ تعلقات کو بیان کیا ۔ریلزم (حقیقت پسندی) اور لبرلزم کے حامی دنیا کے نظام کو اپنے مفروضوں کے تحت دیکھتے ہیںاور تجزیہ کرتے ہیں۔موجودہ حالات میں بین الاقوامی سیاست میں جو بھونچال برپا ہے؛ القاعدہ سے لے کر داعش کی پیدائش تک، افغانستان کی تباہی سے عراق کے برباد ہونے تک، لیبیا سے لے کر شام میں برپا طوفان تک،یورپ میں دائیں بازوکی فاشسٹ جماعتوں سے لے کر تنگ نظر ٹرمپ کے ابھرنے تک: ایسا کونسا فلسفہ ہے جس کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے؟ جس کی بدولت دنیا اس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ کیا یہ ریلزم ہے یا لبرلزم ؟

دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد دنیا میں دو بڑی طاقتیں ابھرکر سامنے آئیں، دونوں نے اپنے اپنے بلاک بنائے اور اپنے اپنے نظریے کی حفاظت اور ترویج کے لیے ہر محاذ پر جنگ شروع کر دی۔ یہ نظریاتی جنگ سرد جنگ کے دور میں اپنے عروج پر پہنچی اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ختم ہو گئی۔مگر عشروں پر مبنی اس لبرل مغرب اور کمیونسٹ روس کی جنگ نے دورافتادہ مشرقی ایشیا، برصغیر اور افریقہ میں آگ لگا دی۔حکومتیں گرتی اور بنتی رہیں، آسمانوں سے جہاز بم پھینکتے رہے اورمغرب کی ایماءپر فوجی ڈکٹیٹر لوگوں پر کوڑے برساتے رہے۔اب چاہے کوریا کا ٹوٹنا ہو، ویتنام کا قتل عام ہو ، لاﺅس اور کمبوڈیا میں بموں کا برسنا ہو یا یمن، صومالیہ اور چلی کی حکومتوں کا بدلنا ہو، اگر کوئی ریلسٹ (حقیقت پسند) خارجہ امور کی کمان سنبھالے ہوئے ہوتا تو آج کی دنیا شاید اس سے قدرے مختلف ہوتی جس میں ہم رہ رہے ہیں۔

دونون دھڑوں نے اپنے نظریے کو باقی دنیا پر مسلط کرنے کی سعی کی، ایک نے خود کو مظلوم کا نجات دہندہ کہا تو دوسرے نے ایک آزاد معاشرے کی ترویج کی۔ بین الاقوامی سطح پر لبرلزم کو پروان چڑھانے اور کمیونزم سے نجات دلانے کے لیے جمہوریت کا نعرہ لگایا گیا اور اس کے جھنڈے تلے آزادی اور انسانی حقوق کے بھیس میں ہر قسم کا حربہ استعمال کیا گیا۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد © \”نیو ورلڈ آرڈر\” کی قیادت یورپ اور امریکہ نے کی۔ گلوبلائزیشن کی گئی اور بڑی بڑی معیشتوں نے نیو لبرل معاشی پالیسیا ں اپنا لیں۔ دنیا دو دھڑی طاقتوں کے دور سے نکل کر صرف ایک ہی دھڑے کے زیر سایہ آگئی جس کی قیادت انکل سام اور اس کے اتحادیوں نے کی ۔ اس طاقت کے نشے نے انہیں اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ اب وہ دنیا کے رکھوالے، منصف اور اس کی اخلاقی پولیس ہیں۔

عراق کی جنگ سے لے کر شام کی خانہ جنگی تک انکل سام جمہوریت کی ترویج کرنے جیسے کام میں بہت بری کارکردگی دکھاتے رہے ہیںاگر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون کے تھنک ٹینک اور خارجہ امور کے ماہرین حقیقت پسندی سے کام لیتے تو شاید آج نہ تو القاعدہ ہوتی، نہ داعش ہوتی، نہ بوکو حرام، نہ الشباب اوردنیا میں مہاجروں کی تعداد کم سے کم ہوتی۔ انسانیت کے نام پر، لوگوں کے حقوق کے نام پر دنیا میں انسانیت کا بحران بپا کر دیا گیا ہے۔ایک ریلسٹ کبھی بھی ایک آیڈیل ورلڈکے لیے عراق پر حملے کا مشورہ نہ دیتا، قذافی حکومت نہ گرواتا، ویتنام کی جھگیوں پر بم نہ برساتا، دوسروں پر اپنا نظریہ مت تھوپتا بلکہ مداخلت کیے بغیر اپنے مفادات کا دفاع کرتا۔امریکہ کا لبرلزم، جمہوریت کا نعرہ اپنے طاقت کے نشے اور اپنے ہی مغالطوں کی وجہ سے بری طرح سے ناکام ہو گیا ہے۔

لبرل مغرب کی منافقتیں
ایک طرف تو امریکہ اور یورپی یونین انسانی حقوق کا سہارا لیے دوسرے ملکوں میں مداخلت کا کوئی موقع نہیں گنواتے مگر دوسری طرف مہاجروں سے متعلق ان کی پالیسیاں، دائیں بازو کی رجعت پسندانہ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ، اسلامو فوبیا، مسلمانوں کی طرف نفرت کااظہاراور عدم برداشت لبرل مغرب کی منافقتوں کی ایک زندہ مثال ہے۔امریکہ کی بلیک کمیونٹی ابھی تک گوروں کے برابر تنخواہ کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں،کسی بھی جرم میں پہلے انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے اور پولیس کا ان کے ساتھ جو رویہ ہوتا ہے وہ تو پوری دنیا دیکھتی ہے۔ یورپ آج تک \”Say No to Racism\” کی ترویج کرتا پھر رہا ہے۔ ان سب کی موجودگی کے ساتھ کس طرح سے یہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہہ سکتے ہیں؟ مغرب کا یہ لبرلزم اور اسکی منافقانہ ترویج ہے جس نے اس وقت مشرقِ وسطی میں آگ لگا رکھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments