کراچی کی بارش میں گھر سے جو نکلے


\"nasirآنکھ کھلی، بجلی کو بند پایا۔ حواس جاگے، کھڑکی سے باہر چھائے بادل دھیرے دھیرے ٹپکتے نظر آئے۔ مزاج پر رومان چھایا، موڈ شاعرانہ سا ہوا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کو جمہوری انتظامیہ کا حُسن سلوک سمجھ کر نظر انداز کیا۔ پیارے سے بیٹے کی میٹھی نیند پر جو نظر پڑی، دفتر سے چھٹی کے لئے دل مچل گیا، مگر صد افسوس کہ اس کا صفر امکان بھی نہ پایا۔ جیسے تیسے تیار ہو کر گھر سے نکلے۔ موسم کا خمار دھیرے دھیرے ہرن ہونے لگا۔ جمہوریت کا حُسن ہر سود کھائی دینے لگا۔ خدا کی رحمت سے بھیگتے بھیگتے جوں ہی رہائشی عمارت سے نکلے، سڑک پر نگاہ پڑی، اور گویا موٹر سائیکل تلے زمین نکل گئی۔ بلکہ یوں کہیئے، زمین غائب ہی ہوگئی۔ ہر طرف تالاب سے بہتے نظر آئے۔ اب آسمان سے رحمت اور زمین پر زحمت کے ساتھ ساتھ سفرشروع ہوا۔۔۔ کچھ ہی دور سے آفس کے ساتھی کو ساتھ لیا، اور فراٹے بھرنے کی کوشش کی، موٹر سائیکل گویا برامان گئی، بڑی متانت سے گلا کھنکار کر چُپ سی ہوگئی۔ ہمارے بھیگے ہوئے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ خیال آیا کہ شاید پیٹرول ہوا ہو گیا، فوراََ ریزرو پر لگا کر چابی گھمائی، اور گھرڑ گھرڑ کی آواز کے ساتھ سواری چل پڑی، قریبی پیٹرول پمپ کو غنیمت جان کر جا پہنچے، پیٹرول بھروانے کے لئے جو ٹنکی کا ڈھکن ہٹایا، آدھی سے زیادہ لبالب بھری پائی، خجل سے ہوگئے۔ خیریہ عقدہ تو کھلا کہ میاں مسئلہ پیٹرول کی کمی کا نہیں عقل کی کمی کا ہے۔ غالباََ پلگ میں بارش کی آوارہ بوند جاپڑی تھی۔

\"karachiاب ہماری موسمی رومانویت انتظامی بدحالی کی نذر ہوتی جارہی تھی۔ لبوں پر گنگناتے گیت تلملاتی بڑبڑاہٹ بن چکے تھے۔ موٹر سائیکل آگے بڑھی، سو ہم بھی ساتھ ساتھ ہو لئے۔ جہاں کہیں تالاب سے ٹکراتے، پہلے گئیر پر خوب ایکسیلیٹر بڑھاتے، یوں دھیرے دھیرے سفر جاری رہا۔ کئی مواقع آئے جب سفر آخرت کا سا گماں گزرا، مگر جیسے تیسے زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلتا رہا۔ کم کم پانی کی تلاش میں زیادہ سے زیادہ موڑ کاٹے اور ہر بار خود کو پانی میں پہلے سے زیادہ ہی گھرا پایا۔ خدا خدا کر کے دفتر پہنچے، اور چائے کا کپ سنبھال کر خبروں پر جو نگاہ ڈالی، اور محکمہ موسمیات سے نالاں آفس کولیگ اور بلاگر خاتون سے کہا کہ محکمہ موسمیات والے ہمیشہ ہی بے پرکی نہیں اڑاتے، کراچی میں بھی بارش جم کر ہوسکتی ہے، اس شہر میں مسلسل بارش کا مطلب ناقابل فراموش واقعہ ہوسکتا ہے۔

\"karachi

غرض خبروں کا سلسلہ شروع ہوا، معلوم ہوا شہر کا حال ہماری توقع سے بھی برا ہے۔ خدا کی رحمت زمین پر اترتے ہی زحمت میں ڈھل رہی تھی۔ شہرکا شہر دریا ہوا جا رہا تھا۔ بہتی شاہراہوں پر تیرتی گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔۔۔ لوگ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ڈوب گئے، مگر انتظامیہ کو ڈوب مرنے کے لئے چلو بھرپانی نہ ملا۔ چھ سو فیڈر ٹرپ کر گئے، آدھا شہر بجلی کی توانائی سے محروم ہو گیا۔ ناظم آباد کا انڈر پاس موت کا تالاب بن گیا۔ دلکش موسم میں انتظامیہ کے یکساں سلوک سے ڈیفنس بھی محروم نہ رہا، پانی جیسی شے یہاں بھی راہ فرار نہ پاسکی۔ جمہوریت کا حُسن شہر کے چپہ چپہ سے ٹپک رہا تھا۔ شہری عدالت کی ٹپکتی چھت نے اہم فائلوں میں درج جرائم کو گویا دودھ سے دھو ڈالا تھا۔

\"murad-post-2\"نئے سائیں کا پتا لگایا، تو صدر کے ہوٹل میں سوٹڈ بوٹڈ محافظین کے جلو میں چائے کی چسکیاں لیتے پائے گئے۔ انداز عوامی تھا مگر عوام کے بغیر، ہوٹل سے عام لوگ غائب تھے۔ مراد علی شاہ پرانے انداز کے نئے سائیں نظر آئے، بس صابن ان کا اتنا سلو نہ لگا۔ غرض شرمیلا فاروقی سے شہر کے حال پر سائیں کا احوال معلوم کیا گیا، تو جواب نے جمہوریت کے حُسن کو گویا دن میں ہی چار چاند لگا دئیے بلکہ یوں کہیئے دن میں تارے دکھا دیے۔ شرمیلا جی نے کہا سائیں ابھی نئے ہیں، انہیں کام کا موقع تو دیں۔ انہوں نے کہا کم از کم نئے سائیں شہر میں نظر تو آرہے ہیں، کام بھی نظر آہی جائے گا۔

پرانے شہر اور نئے سائیں کا حال دیکھتے دیکھتے سہ پہر ہوئی۔ بادلوں کے پیچھے کہیں دن ڈھلنے لگا۔ ڈوبے ہوئے شہر کی شام ڈوبنے سے پہلے پہلے گھر لوٹنے کی فکر ہوئی، کیونکہ جس رحمت کی بوندوں میں بھیگ کر گھر سے نکلے تھے، وہ اب ہر طرف زحمت ہی زحمت بن چکی تھیں۔۔۔ کہیں سے کسی نکاسی عتاب کا کوئی امکان نہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments