غیر جانبداری ہوتی کیا ہے


\"muhammadیہ سوال اس وقت ابھرا جب میں نے غیر جانبداری کی تعلیم پہ غور کیا کہ کھلی آنکھیں ایک لکیر دیکھتی ہیں جو تاحد نگاہ انسانوں کو جدا کرتی ہے۔ یہ گروہ بندی جس بنیاد پہ معلوم ہوتی ہے وہ دراصل \”طرز زندگی \” کا فرق ہے۔ \”غیر جانبدار\” کیسے ہوا جائے جب کہ انسان ایک دماغ کے تحت سوچتا ہے اور جو اخز کرتا ہے تو اپنا موقف اس کے تحت ہی اختیار کرتا ہے اور موقف اکثر صورتوں میں ایک ہی ہو سکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عملا جانبداری کوئی شے نہیں اگر ہے تو پھر صرف گفتار عام۔۔۔ جبکہ غیر جانبدارانہ رویئے سیکھنے کی حد تک ضرور مددگار ہو سکتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسرے انسانوں کے ساتھ سلوک روا رکھنے کی حد تک غیر جانبداری سمجھ آتی ہے۔

معیشت سماجی ترقی کی سب سے بنیادی اکائی ہے اور انسان کی تمام سرگرمیاں اپنی بقاء کی غرض کے لئے ہیں۔ انسان اپنی بقا کی سوچ کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا اور زندگی کی بقاء کا انحصار معاشی حالات پہ ہوتا ہے۔ معیشت کے موضوع کے حوالے سے ایک تاثر عام ہے کہ اس پہ بات مخصوص افراد کر سکتے ہیں جبکہ باقی اس کے اثرات سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں یا پھر معاشی سرگرمی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ دوسری طرف انسان کے سیکھنے کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ انہی اثرات پہ غور و فکر کر کے آج علم کو مختلف شاخوں اور مدارج میں تقسیم کر چکا ہے اور اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ بہتر مطالعہ و تحقیق کر سکے۔ پیداوار کا تعین اور پھر خدمات کے شعبوں کے ذریعے اشیا کی فراہمی نے اس مضمون کے لئے مطالعاتی جواز کو مضبوط کیا۔ نسل انسانی کی بقاء کے ساتھ اس کے منسلک ہونے کی وجہ سے اس موضوع کی اہمیت ہر سطح شعور تک پہنچ گئی۔ انسان کی غلبہ پانے کی قدیم جبلت نے اس سارے معاملے میں اپنے لئے راستہ ہموار کرنے کی منصوبہ بندی کی کیونکہ غلبہ پانے کے لئے معاشی عمل کو قابو میں کر کے ہی افراد کو اپنا تابع بنا یا جایا سکتا تھا اور ان پہ حکمرانی کی جا سکتی تھی۔ اس لئے وہ تمام ذرائع جو پیداوری صلاحیت کو بڑھا سکتے تھے ان کو قابو کیا گیا۔ آج جو کام مشینیں سر انجام دے رہی ہیں اس سے پہلے یہی کام انسان اپنی سادہ مہارت یعنی قوت محنت کے ساتھ ایک مدت تک کرتا چلا آیا ہے۔ آج وہی کام ایک \”مشین کے آپریٹر یا ڈرایئور\” کی حیثیت سے یا پھر بطور ہنر مند کر رہا ہے۔ \”ہنر مندی ان جدید علمی اور تکنیکی صلاحیتوں کو حاصل کرنا ہے جو استعداد کار کو بڑھا کر پیداوار کے عمل کو تیز کر سکیں\” تا کہ کم سے کم افرادی قوت اور زیادہ سے زیادہ پیداوار کے نظرئیے پہ اس کام کو چلایا جا سکے۔ اب محنت ہی ایسی قوت محرکہ ہے جس نے سماجی تحرک کو ممکن بنا رکھا ہے۔ سماج پہ غلبہ پانے کا راستہ پہلے بھی یہی تھا کہ افراد کی محنت کو قابو کیا جائے اور آج مشینی دور میں بھی مشین اور محنت دونوں کی ملکیت نے معاشرتی جبر کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

 \”غیر جانبداری\” ایسے سماج میں کہ جہاں محروم اور مراعات یافتہ کے درمیان ایک واضح خط کھنچا ہوا ہے، ایک انتہائی کٹھن کام ہے۔ تعلیمی سلسلے کی حد تک اور ایک معاشی نظام کو سمجھنے کی حد تک تو اس پہ کار بند رہا جا سکتا ہے مگر ایک \”فرد\” کی حیثیت سے معاشرتی زندگی کو طبقاتی نظام میں \”غیر جانبدار \” ہو کے جینا ممکن نہیں ہے۔ اس فتنہ پرور بحث سے جتنا بھی کنارہ کر کے اور ہٹ کے چلا جائے انسان اس کی کارفرمائی سے نظریں نہیں چرا سکتا اور اس کے پیچھے سرمائے کی بے عدل چالیں چھپی نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح کی طبقاتی تقسیم دراصل انسان کو ایک یا پھر دوسرے طبقے سے ضرور ملا دیتی ہے۔ انسان جانبداری کو اپنی شعوری بلوغت کی دلیل سے بھی خارج نہیں کر سکتا، تمام نرم گوشے اور تمام عقیدت مندی کے رحجانات بھی اس سچ کو جھوٹ میں نہیں بدل سکتیں۔ ہر سماج اپنے طبقات کے وجود کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ معیار زندگی کے اس فرق کو دیکھ کر، اس کے رویوں کا تجربہ کر کے کوئی بھی انسان جانبدار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ طبقاتی نطام کے اندر ہر انسان کی طبقاتی شناخت کے حوالے سے معاملات طے ہوتے ہیں یا وہ محنت کر رہا ہے یا پھر محنت کو استعمال کر رہا ہے۔ اس فرق نے طبقاتی احساس کو پختہ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہیں سے سوچ ابھرتی ہے کہ کیا ایسی وجہ ہے جس نے محکوم کو مسلسل محکوم اور حکمران کو مسلسل حکمران رکھا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ چہرے زمانے کی سکرین پہ بدلتے ہیں مگر \”طبقاتی\” حیثیت اور حقیقت موجود رہتی ہے؟ بڑھتی ہو ئی معاشی تفریق نے اس حقیقت پہ مہر ثبت کر دی ہے۔ لوگ یہ جاننے میں زیادہ وقت نہیں لے سکتے کہ اس محرومی کا راز کیا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بنا پہ محنت کا بہت قلیل پھل ملتا ہے؟

یہ طبقاتی نظام کا اپنا مہیا کردہ شعور ہے جو اس کے اپنے ہی تضادات سے ابھرا ہے کہ ایک طرف وہ انسانی اقدار اور انسانی فلاح کی باتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف ایک غیر مساویانہ سلوک اور وہ بھی ایک اسلامی معاشرے میں کیونکر روا رکھا جا سکتا ہے۔ دین اسلام میں تو انسانی برابری اور محنت کے معیار کو معاشی نظام کا ستون تصور کیا گیا ہے۔ جس سرمائے پہ محنت صرف نہیں ہوتی اس میں خدا کی برکت شامل نہیں ہو سکتی کیونکہ محنت کرنے والے کو خدا کا دوست کہا گیا ہے مگر محنت کو استعمال کرنے والے کو بھی کچھ نہ کچھ ضرور کہا گیا جبھی مساویانہ سلوک کی اصطلاح اسلام میں انتہائی زور آور ہے۔ اس موقف کو دائیں اور بائیں کے افکار گردانا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دائیں اور بائیں والے بھی کسی نہ کسی طرح اس طبقاتی نظام میں بیک وقت ایک ہی طبقے کے نمائندے ہو سکتےہیں۔ شاہ کے دربار کا قصیدہ گو شاہ کی جگہ نہیں لے سکتا پل بھر کے لئے بھی یہ کام ممکن نہیں بلکہ اس نغمہ سراء کی نسلیں بھی یہی فریضہ سر انجام دیں گی۔ لوگوں کو غلام رکھنے کی روش کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے جتنے بھی انبیا کا ظہور ہوا وہ سب غلامی کو ختم کرنے کا ہدف لے کر آئے۔ مگر یہاں جب غلامی کو قسمت بنا دیا گیا ہے تو پھر طبقاتی وجود کو بھی ماننا پڑے گا کیونکہ جہاں غلام ہوں وہاں آقا بھی ہوتے ہیں۔ ان آقائوں اور غلاموں کے مابین فکری تفریق انہیں \”غیر جانبدار\” نہیں رہنے دیتی۔ ہم جانبداری کو مانتے نہیں مگر ہم یہ کر کے بھی اس کی نفی نہیں کر سکتے کیونکہ طبقاتی نظام میں ہم عملاََ جانبدار ہی تو ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments