پہاڑ کے پار، چاند کے پار


\"hasan\"

شہر اور دریا آپس میں ایک پرانا رشتہ رکھتے ہیں۔ یہ گرہیں ، زندگی کے تاگوں سے بھی قدیم ہیں۔ جب جب بستیاں برباد ہوئیں یا قحط بھونچال نے آ پکڑا، تب تب ،زندگی اڑتے ہوئے پرند دیکھ کر اس سمت چل پڑی، جہاں پانی ٹھہرنے سے گریزاں تھے۔ پھر یہ قافلے سر آب پڑاؤ ڈال کر آباد ہو جاتے اور داستانوں کے الہامی ہونے تک ، کوئی نہ کوئی شعیب ، خیمے لگا کر کسی نہ کسی موسیٰ کا انتظار ضرور کرتے۔ دریا کے انہی کناروں پہ سدھارتھ، اپنے دوست گووندا سے رخصت ہوتے سمے اپنے گھوڑے کنتھکا کو پیار سے دیکھتا اور شائد۔۔۔۔انہی کناروں پہ چلتے چلتے، گلیلی کا کوئی گڈریا، درگاہ حضرت بل کے مدفن کو لوٹتا۔
اس بار جب شہر پیچھے اور دریا آگے نظر آیا، تو شام ہو رہی تھی۔ شمال کے خاکستری پہاڑوں کے سر میں دھوپ کے انتظار میں چاندی اتر آئی تھی مگر گرمیوں کی بارات، ابھی کچھ چاند کی دوری پہ تھی۔ بلتت کے قلعے کی تاریخ دیومالائی داستانون جیسی ناقابل یقین تھی سو قلعے سے واپسی کا راستہ، خواب سے حقیقت کا سفر معلوم پڑتا تھا کہ کان میں آواز پڑی۔

’’السلام علیکم سر۔۔۔کہاں سے آئے ہیں۔۔۔‘‘ آواز دینے والے ادھیڑ عمر کے ایک صاحب تھے جو اپنے گھر کے بالکونی نما صحن میں بیٹھے تھے۔
’’وعلیکم السلام۔ جی پنڈی سے۔‘‘

\"Baltit-Fort\"’’بہت اچھی بات ہے۔ میری بیٹی بھی پنڈی کے کالج میں پڑھتی ہیں۔۔راولپنڈی میڈیکل کالج۔۔آپ اندر آئیے نا۔‘‘
پہلی بار ایسا لگا کہ شمال کے سفر ناموں کے سب کردار افسانوی نہیں ہوتے۔
اگلے تین منٹ میں پتہ چلا کہ بیگ صاحب کی دو صاحبزادیاں، سٹوڈنٹ ایکسچینج میں ایک ایک سال، امریکا میں گزار چکی ہیں اور تیسری بیٹی اس وجہ سے نہیں جا سکیں کہ ایک گھر سے صرف دو بچے جا سکتے ہیں۔ ممکن تھا کہ گفتگو میں آنے جانے والے سیاح بھی شریک ہو جاتے سو بیگ صاحب کے پر زور اصرار پہ ہم گھر کے اندر چلے گئے۔

بیگ صاحب کون ہیں، اس کا تعارف مصطفی آفریدی کروا چکے ہیں مگر یاد رہے کہ تاریخ وہ نبض ہے جس پہ ہاتھ رکھ کر نہ صرف حال کی تشخیص ہوتی ہے بلکہ مستقبل کی تدبیر بھی کی جاتی ہے، سو بیگ صاحب وہ ہیں کہ قریب قریب سوا سو سال پہلے، جب فرانسس ینگ ہسبینڈ (Francis Younghusband) نے ان کے بڑوں سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں ملکہ وکٹوریہ کی سلطنت کتنی بڑی ہو گی تو ہنزہ کے امیر، میرصفدر علی ، نے کمال رعونت سے جواب دیا
’’زیادہ سے زیادہ اتنا ہی علاقہ ہو گا نا جتنا ہنزہ اور نگر کے بیچ ہے ‘‘۔

\"nagar-hunza\"

وہ ملاقات جو عین بلتت کے قلعے کے دامن میں ہوئی تھی، پرت در پرت تھی۔ اس میں بیگ صاحب کے ولائت کے سفر تھے، مارخور سے ملاقاتیں تھیں، کچھ جذباتی وارداتیں تھیں اور کچھ زندگی کا جمع جوڑ تھا۔
کہانی کے ایک موڑ پہ جب بیگ صاحب امریکہ جا کر آباد ہونے لگے تو انہیں واقعتاً، کریم آباد کے ایک گھر کی چمنی سے اٹھتا دھواں اور اس کے عقب میں پھونکیں مارتی وہ شمشال زادی بہت یاد آئی، جو کوہ نوردوں کے ساتھ کھینچی ، بیگ صاحب کی تصویروں کو اخروٹ کی لکڑی کے دراز میں سنبھال کر رکھے ہوئی تھی، سو بیگ صاحب واپس آ گئے۔ کریم آباد تب بھی اتنا ہی جدید شہر تھا کہ بس سارے میں ایک فون لگا تھا۔ انہوں نے اپنے ابا کو پہاڑ کے دامن سے فون کیا۔

غلام حسین درویش، شکرت دادی اور قلعے کا گارڈ ۔ ۔ ۔ سب کے سب انہیں لینے نیچے تک آئے تھے ۔
چلتے وقت بیگ صاحب کہنے لگے۔۔’’۔حسن بھائی۔۔۔پہاڑ کا آدمی، پہاڑ کے پار تو جا سکتا ہے، سمندر کے پار نہیں۔۔۔‘‘
اب میں انہیں کیا بتاتا کہ آدمی تو اپنا اندر نہیں پار کر سکتا، پہاڑ، دریا، جنگل، صحرا تو بہت بعد کی بات ہے۔
اور بیگ صاحب کرتے کیا ہیں۔ تو وہ جو سوال ہے نا۔ شیکسسپییئر کی نو ٹنکی ’’ہیملٹ‘‘ میں۔۔۔جو بعد میں حیدر کی زبان سے ووشال بھردواج پوچھتا ہے۔
وہ بیگ صاحب پر صیقل ہے۔۔۔جسے پوچھنا ہو، بابوسر کے اس پار اترے اور اپنے حصے کا گیان لے آئے

دل کی گر سنوں ۔۔ تو ہے
دماغ کی۔۔۔ تو ہے نہیں
جان لوں کہ جان دوں؟
میں رہوں کہ میں نہیں
شک پہ ہے یقین اور
یقین پہ ہے شک مجھے
کس کا جھوٹ، جھوٹ ہے
۔۔کس کے سچ میں سچ نہیں
ہے کہ ہے نہیں ۔۔ بس یہی سوال ہے
اور سوال کا جواب بھی سوال ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments