ایک اور دھرنا، جیب پاکٹ سے ہوشیار میرے برادر!


\"husnain

 صبح پانچ بجے ملتان کے لیے روانہ ہوئے، نو بجے ہم لوگ اپنے گھر میں تھے۔ یہ سفر چھوٹی عید سے دو چار دن پہلے کیا تھا۔ چار گھنٹے میں گھر پہنچنے کی وجہ تیز رفتاری ہرگز نہیں تھی۔ صرف تین باتیں تھیں۔ صبح پانچ سے آٹھ تک عموماً سڑک پر رش کم ہوتا ہے، ہائی وے پر آپ نوے اور سو کی رفتار سے بغیر کسی رکاوٹ کے گاڑی چلا سکتے ہیں۔ دوسری وجہ ایک بائی پاس سڑک تھی جو بجائے شہر سے گزرنے کے آپ کو انڈسٹریل اسٹیٹ سے گزار کر مانگا منڈی لا کھڑا کرتی ہے۔ تیسری وجہ بالکل صاف ستھری سڑک تھی۔ لاہور میں ایک عام پاکستانی کی سوچ سے کہیں زیادہ ترقیاتی کام ہوا۔ لاہور سے باہر بھی نکلیے تو سڑکوں کی حالت مسلسل بہتر ہوتی نظر آتی ہے۔ ملتان جا کر دیکھیے تو گیلانی دور میں شروع کیے گئے کام بھی پایہ تکمیل تک پہنچتے نظر آتے ہیں اور نئے ترقیاتی کام بھی دکھائی دیتے ہیں۔ فلائی اوورز کا جال ہے، میٹرو ہے جس کی بہ ظاہر کوئی ضرورت نظر نہیں آتی لیکن اس چکر میں سڑکیں مزید کشادہ ہو گئیں اور صاف ستھری نظر آنے لگی ہیں۔ وقت بہت لگا، بے تحاشا کوفت شہریوں نے اٹھائی لیکن ایک کام ہوا، ان کے ادا کیے گئے ٹیکس انہی پر لگے، کوئی بہتری کی صورت بہرحال نظر آئی۔

انفراسٹرکچر کو بہتر کرنا موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح ہے اور اس چکر میں صحت اور تعلیم کا شعبہ خاصی حد تک متاثر ہوتا نظر آتا ہے۔ دیگر کئی معاملوں میں بھی ہم سب کو شکایات ہیں، برحق ہیں! لیکن پیسہ کہیں تو لگتا نظر آ رہا ہے، کیا یہ غنیمت نہیں ہے؟ ماضی کی طرح تھوک میں پکوڑے نہیں تلے جا رہے، کیا یہ بڑی بات نہیں ہے؟ اقتصادی راہداری پر کام کرنے میں حکومت اور ہئیت مقتدرہ ایک چیپٹر پر ہیں کیا یہ اہم بات نہیں ہے؟ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے میں حکومت واقعی سنجیدہ ہے، اپنی حکومت کے ختم ہونے تک لوڈ شیڈنگ بھی ختم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے، کیا یہ قابل قدر بات نہیں ہے؟

\"Metro-Bus-Service-in-Lahore1\"

امریکی فرم اسٹینلے مورگن ایک نامی گرامی اسٹاک انڈیکس فرم ہے، وہ پاکستان کو دنیا کی دس بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں جگہ دیتی ہے، پاکستان میں سیکیورٹی کی صورت حال بہتر ہونے کا اعتراف کرتی ہے اور اسی کو ترقی کی بنیادی وجہ قرار دیتی ہے۔ چین سی پیک میں چھیالیس ارب ڈالر کی جو سرمایہ کاری کر رہا ہے، وہ بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے، لیکن دوبارہ، اس کا کریڈٹ بھی موجودہ حکومت کو جا رہا ہے۔ کے ایس ای ۱۰۰ انڈیکس پاکستان کو دنیا کی پانچویں بہترین سٹاک مارکیٹ کا درجہ دے رہا ہے، موڈیز ایک اور رینکنگ کمپنی ہے، اس کا نام بھی گذشتہ کئی برس سے سننے کو ملتا ہے، انہوں نے بھی ہماری ریٹنگ سی سے بی کر دی ہے۔ صدر ممنون آج کہتے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف سے مزید قرضہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز ایک اور اقتصادی ریٹنگ کی کمپنی ہے، یہ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر فیصلہ نہیں کرتی، اس کے ماہرین باقاعدہ متعلقہ ملک کے دورے کرتے ہیں، ملاقاتیں ہوتی ہیں اور ٹھوس معاشی حقائق کی بنیاد پر ریٹنگ کی جاتی ہے، یہ بھی پاکستان کی ریٹنگ مسلسل بہتر کر رہے ہیں۔ جب اقتصادی بحالی ہو گی تو بہرحال ملک اپنے فیصلے کرنے میں زیادہ آزاد اور خودمختار ہو گا، یہی وہ چیز ہے جس کا رونا شروع سے ہمارے سیاست دان روتے آئے ہیں۔

گذشتہ دو برس میں امریکہ، لنڈن، دبئی، آسٹریلیا وغیرہ سے جو بھی دوست یا رشتہ دار فقیر کے مہمان ہوئے ان سب نے لاہور کو سنجیدگی سے چھوٹا موٹا پیرس قرار دیا۔ یہاں کی سڑکوں، یہاں جگہ جگہ لگے ہوئے خوش رنگ پودوں، ائیر پورٹ اور دیگر تعمیرات کو انہوں نے عالمی معیار کا قرار دیا۔ دیکھیے فقیر ایک نوکری کرتا ہے، تھوڑا بہت کما لیتا ہے، لفافے لینے کا کبھی اتفاق ہوا اور نہ ایسا کوئی ارادہ ہے لیکن، یقین جانیے صرف چار روز کے لیے دبئی جانا ہوا تو دوسرے ہی دن جان عذاب میں تھی اور اپنا لاہور یاد آ رہا تھا۔ یارو ادھر سے اگر آسمان کو چھونے والی چند عمارتیں اور سمندر نکال دو تو ادھر بھی سب کچھ ایسا ہی ہے۔ اب تو وہاں کے جیسے شاپنگ مالز بھی کھل چکے ہیں۔ ایکسپو سینٹر کے قریب ایمپوریم کا ایک چکر لگائیے اور جان لیجیے کہ آپ دبئی کے مالز کی کاربن کاپی دیکھ رہے ہیں۔

تو لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں ہونے والا یہ کام سیاسی کامیابی کے لیے بھی سنگ میل ٹھہرا۔ کے پی اور سندھ میں بھی مارے باندھے کوششیں کی گئیں لیکن تھوڑی سی بارش سے دھرتی کی قلعی اتر اتر جاتی ہے اور یار لوگ پھر ساری رات ناچنے کے لیے پر تولنا شروع کر دیتے ہیں۔ کالج میں جو بچے پڑھائی میں دل چسپی نہیں رکھتے تھے وہ عموماً سیاسی جماعت بازی اور آئے دن کی ہڑتالوں پر دل سے یقین رکھتے تھے۔ پڑھنے والے لڑکے، جن میں فقیر شامل نہ تھا، کبھی بھی ان جماعتوں کے کسی پروگرام میں نظر نہ آئے۔ انہیں اس چیز سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ کوئی تقریریں کر رہا ہے یا کوئی ہڑتالوں کی بانگیں مار رہا ہے، وہ صرف پڑھنے پر یقین رکھتے تھے، ان کے پیش نظر صرف میرٹ تھا۔ ہاں جو اپنے ساتھی تھے، وہ سارا سال ہنگامے بپا رکھ کر کبھی سپورٹس کوٹے پر، کبھی کسی سفارش سے، کبھی پریکٹیکل میں نمبر لگوا کر، کبھی این سی سی کے بیس نمبروں کے آسرے پر اور کبھی کچھ دے دلا کر آگے بڑھنے کی کوشش کیا کرتے تھے جو اکثر ناکام رہتی تھی۔ آخری جیت عموماً محنت کی ہوتی تھی۔

\"imran

عمران خان اور طاہر القادری بلکہ ان میں شیخ رشید صاحب کو بھی شامل کر لیجیے، تو یہ تین ہماری موجودہ تاریخ کے ایسے کردار ہیں جو محنت کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ جو ملک چلانے کو اسپتال، مدرسہ، یونیورسٹی یا سکول چلانے کے جیسا سمجھتے ہیں۔ عمران خان تو یہ ثابت بھی کر چکے، باقی دونوں کو خدا نہ کرے کبھی ایسا موقع ملے۔ عمران خان صاحب کے دو متضاد بیان آج صبح اخبارات میں نظر آئے؛
ماڈل ٹاون میں چودہ لوگوں کو مارا گیا، عوام پر ظلم ہو گا تو ہم ساتھ ہوں گے
وزیراعظم ٹی او آرز مان جائیں ہم احتجاج ختم کر کے گھر چلے جائیں گے
ایک بالکل بھولا بھالا سیدھا سادہ معصوم انسان بھی ان دو بیانات میں یہ تعلق تلاش کر سکتا ہے کہ دھرنے اور بدامنی کی کوششیں صرف وقت گزارنے کے بہانے اور شارٹ کٹ تلاش کرنے کا طریقہ ہیں۔ لوگ اتنے سیانے ضرور ہو چکے ہیں کہ ڈیلیور کرنے کا مطلب وہ بہ خوبی جانتے ہیں اور کھوکھلی نعرے بازیاں انہیں اب باقاعدہ غصہ دلانے کا سبب بنتی ہیں۔ خان صاحب کا آدھے سے زیادہ پرانا ووٹ بینک ان سے بری طرح مایوس ہوا ہے، باقی آدھا انگشت بہ دنداں صرف یہ دیکھ رہا ہے کہ یاخدا، یہ ہو کیا رہا ہے؟ پشاور میں ایک مدرسے کی فنڈنگ اس کی حالیہ عمدہ ترین مثال ہے۔ جہاں قائد تحریک کو یہ تک اندازہ نہ ہو کہ یہ کام کس نے کیا، کیوں کیا اور اس کی وضاحت کیا دینی ہے، وہ طرح طرح کے بیانات بدل بدل کر دیں تو آپ اندازہ کر لیجیے باقی ارباب اختیار کس پانی میں ہوں گے۔
قادری صاحب پر زیادہ لکھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ وہ سال کے سال موسم دیکھ کر ایک آدھ چکر لگا لیتے ہیں اور اس چکر کے درمیان وہ سارے پلاؤ پکانے شروع کر دیتے ہیں جو باقی کے آٹھ نو مہینے ان کے خیالوں میں رہتے ہیں۔
شیخ رشید صاحب اب ان معروف اینکر کی مانند بے ضرر ہو چکے ہیں جو ہر حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینے میں ید طولی رکھتے تھے اور آخر کار ہر چینل کا پھیرا لگا کر کسی کونے میں مقیم ہیں، ہاں پیش گوئیاں جاری ہیں۔

ملک کی گاڑی بہت مشکل سے کچھ بہتر راستے پر چڑھتی نظر آتی ہے یارو۔ ہم سب نے ادھر ہی رہنا ہے، آپ نے بھی اور ہم نے بھی، یہ سب لکھنے کا مقصد نواز حکومت کی طرف داری نہیں صرف یہ فکر ہے کہ خدا کسی طرح ہمیں مزید بہتر حالات کی طرف لے جائے۔ ان موسمی پرندوں کے چکر میں ہماری ترقی کی فصل دوبارہ خراب نہ ہو جائے۔ ہمارے بچوں کو کچھ بہتر مستقبل مل سکے۔ جو آندھیاں ہم نے دیکھیں خدا ان کے مقدر میں نہ کرے۔ جو بے چارے روزی کمانے سب سے دور باہر بیٹھے ہیں، کاش کہ حالات ایسے اچھے ہو جائیں کہ وہ بھی ادھر ہی واپس آ سکیں۔ یہ مستانے کا خواب اور دیوانے کی بڑ نہیں ہے، نہ کوئی سبز پوش بزرگ خواب میں آ کر یہ باتیں بتا رہا ہے۔ یہ وہ ہے جو ہوتا نظر آ رہا ہے، بس جیب پاکٹ سے ہوشیار میرے بھائی، کومپنی بعد میں ذمہ دار نہ ہو گی!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments